تصوف کیوں نہیں؟۔۔حافظ صفوان محمد

میرے نزدیک تصوف ایک متبادل یا متوازی دین نہیں بلکہ اس دنیا کے متوازی ایک اور دنیا کا concept ہے۔

ممتاز مفتی کی “لکھ نگری” کے مطابق جہاں دنیا کا نظام و نسق چالیس ابدال سنبھالتے ہیں اور ایک ہی جگہ ںیٹھ کر آپ تیس اور مقامات پر بیک وقت موجود ہوسکتے ہیں۔ یہ ایسی دنیا ہے جہاں سالک قرآن و حدیث کے گلشنِ ہدایت سے پھل چننے کے بجائے مرشد پاک کے جلال و جمال سے فیض کشید کرتا ہے، جہاں صوفی پیر دستگیر ولی اللہ صاحبِ حال جیسے القابات پانے والی شخصیات آپ کی باطنی شخصیت کا میرٹ چیک کرکے آپ کو پاس یا فیل کرتی ہیں۔ یہاں مرید کا فوکس رب کی آیاتِ بینات نہیں مرشد کریم کا کشف ٹھہرتا ہے۔ نماز میں کرنے والی دعاؤں کے بجائے پیر کے دیے ہوئے وظائف اور ورد پر انحصار کیا جاتا ہے۔

چلیے صحیح غلط کی بحث کو چھوڑیے، سب سے یہلے یہ سوچیں کہ تصوف کو اختیار کرنا کیوں ضروری ہے اور آپ اس کو اختیار کرکے عام لوگوں سے شعوری طور پہ کیسے بلند ہوتے ہیں؟ اگر تصوف کی بنیاد تزکیۂ نفس اور نیت کی اصلاح و اخلاص ہے تو قرآن اور سیرتِ رسول اللہ کی اساس کیا ہے؟ جس لمحے کوئی شخص خلوص و ایمان سے کلمہ پڑھ کے دائرہ اساام میں داخل ہوتا ہے اسی لمحے سے اس کے نفس اور نیت کی اصلاح یریکٹیکل انداز میں شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے اسے کسی خاص سلسلۂ طریقت کا انتخاب کرکے کسی بزرگ کے ہاتھ پر ییعت کرکے مراقبے کرنے اور انتہائی مشکل اوقات کے مشکل وظائف اور طویل نفلی عبادتوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی تیس تیس سال کسی آستانے یا مزار کے باہر زائرین کی جوتیاں سیدھی کرنی پڑتی ہیں، اور یھر بھی ادنیٰ درجے کا فیض حاصل ہوپاتا ہے۔

صوفیہ اور اولیاء اللہ کی تعلیمات کا محور بے شک اصلاحِ معاشرہ اور اسلام کا پھیلاؤ تھا اور انھوں نے اپنے تئیں بھرپور کوشش کی کہ اینے باطنی کمالات کے ساتھ عوام الناس کو اسلام کی ترغیب دی جائے۔ شاید صوفیہ نے ہندو اور بدھ مت کے عقائد کے حامل لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کے لیے تصوف کو بطور pied piper استعمال کیا لیکن لوگ اصل کام کو بھول کر تصوف کی راگنی میں کھوگئے اور سلسلہ در سلسلہ اس کی دھنوں کو زندہ کرتے رہے۔

تصوف بنیادی طور پر short-cutters کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسا مائنڈ سیٹ ہے جس سے آپ کے باطن کی تربیت اورنشوونما اس انداز میں کی جاتی ہے کہ آپ آہستہ آہستہ اپنے آپ کو نارمل لوگوں سے دور کرلیتے ہیں اور اس تمام process میں آپ خود کو عام لوگوں سے ممتاز سمجھنے لگتے ہیں۔ واضح رہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے ہمیں ایسی کوئی تعلیم نہیں دی۔

تصوف ذہن کی ان گنت dimensions کی manifestation یا مظہر ہے اور اس کا براہِ راست تعلق پیرا سائیکالوجی، occult sciences اور mind power وغیرہ سے ہے۔

قرآنِ پاک میں حضرت موسیٰ اور ایک اجنبی آدمی کی کہانی کا بیان ہے۔ اس کہانی میں خدا کی طرف سے واضح پیغام دیا گیا ہے کہ موسیٰ کی طرح بنو اور اس کی طرف بھیجے گئے دین کی پیروی کرو نہ کہ کسی اور dimension کے (صاحبِ حال) انسان کی، مگر افسوس کہ صوفی اس کہانی کے پیغام اور موسیٰ کے تاثرات کو یکسر نظر انداز کرکے اجنبی کے پراسرار کمالات کا کھوج لگانے بیٹھ گئے اور اپنے دین کے سیدھے سادے رستے کو پسِ پشت ڈال کر تصوف کی ماورائی دنیا کی بھول بھلیوں میں کھوگئے۔

قرآنِ پاک میں احکامات ٹھوس اور واضح انداز میں بتا دیے گئے ہیں۔ ان احکامات کی صحیح بجا آوری پر انعام اور ان سے انکار پر سخت سزاؤں کا بیان ہے۔ قرآن کا اسلوب عام طور سے کسی بھی قسم کی ambiguity سے پاک ہے اور اس میں تصوف جیسی fantasy یا shortcut کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جنت عمل کرنے سے ملے گی، چلے کاٹنے اور ترکِ جمالی و جلالی سے نہیں۔

اگر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ صوفی ازم اسلام کا رومانوی چہرہ ہے جس کی ابتدا و انتہا مجازی سے حقیقی کا سفر کرتے ہوئے خدا کے عشق میں ضم ہوجاتی ہے۔ اسی کو بنیاد بناکر صوفی شعراء عارفانہ کلام لکھتے رہے اور قوال سماع کی محفلیں سجاتے رہے اور عاجزی، انکساری، درد مندی، صبر، اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغِ زندگی، وغیرہ کو اپنا motto بناکر عملی زندگی کو بالکل ہی خیرباد کہہ گئے۔ اقبال بھی یہ کہنے پہ مجبور ہوگئے

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

اگر تصوف اسلام سے متصادم نہیں ہے تو یھر جون آف آرک (Joan of Arc) کو بھی کسی سلسلۂ طریقت کا سرٹیفکیٹ دیا جائے۔ وہ انیس سال کی فرانسیسی لڑکی جس کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور جس کا دعویٰ تھا کہ اسے خواب میں خدآئی احکامات ملتے ہیں کہ اینے وطن کو انگریزوں کے قبضے سے آزاد کرو اور جس کی سپہ سالاری میں فرانسیسی لشکروں نے جنگ لڑی۔ فرانس میں اب اسے Saint Joan of Arcپکارا جاتا ہے۔

نبی کریم علیہ السلام کا ارشادِ پاک ہے الدین النصیحة۔ اس حدیث کی گہرائی اگر اہلِ علم جان لیں اور عام لوگوں تک یہنچا دیں تو کہر میں ڈوبے ہوئے بہت سے راستے صاف دکھائی دینے لگیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تصوف صرف ایک فن نہیں، اس میں گستاخی بھی ہے اور بلاواسطہ ہونے کی جسارت بھی۔ اگر نبی کریم علیہ السلام کی ذاتِ حسنہ سے شناسائی اور عقیدت موجود ہے تو پھر جان بوجھ کر دوسرا راستہ لینا آپ سے بے وفائی اور بدعہدی ہے۔ یہ راستہ وہ اختیار کرے جو بے محمدا ہے یا جسے محمد کافی نہیں ہیں۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply