تعمیر پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں۔۔رابعہ وحید

وہ گندمی رنگت والے باشندوں پر مشتمل کرہ ارض پر خشکی کا ایک بڑا خطہ تھا۔ جسے بر صغیر کہا جاتا تھا۔ وہاں بہت ساری قومیں آباد تھیں ۔ اور مختلف چھوٹے بڑے مذاہب کے لوگ بسا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا کہ اس خطے پر وہاں کے سب سے بڑے مذہب کی پیروکار قوم حکومت کرتی تھی۔ ایک بڑے عرصے تک برصغیر پر حکومت کرنے والی قوم کی قسمت کا ستارہ گردش میں آیا تو حکومت ختم ہو گئی۔ اور گوروں نے وہاں حکومت کے لیے اپنے پنجے گاڑ دیئے۔ گوروں کی حکومت بھی ایک لمبے عرصے تک رہی۔ گوروں سے قبل برصغیر پر حکومت کرنے والی بڑی قوم کو ایک بڑا عرصہ غلامی کی زندگی کی صورت گزارنا پڑا۔ غلامی کے دور میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ غلامی کی زندگی کا ایک طویل عرصہ کاٹنے کے بعد رحمت خداوندی اور برصغیر کے مسلمانوں کی دیرینہ خواہش اور کوشش سے ان کو آزادی کا دن دیکھنا نصیب ہوا۔ اس دن کو دیکھنے کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کئے گئے۔ ہجرت جیسے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑا۔ تب جا کر گلشن میں چاندی کے پھول مہکے۔

آزاد اسلامی ریاست حاصل ہو جانے کے بعد بھی اس قوم کو بہت عرصے تک مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لڑکھڑاتا ، کپکپاتا ، کمزور سا آدھی ادھوری دیواروں پر مشتمل گھر بن تو گیا تھا مگر وہ اتنا مضبوط نہیں تھا۔ اور گھر میں ضرورت کا تمام سامان بھی موجود نہیں تھا۔ بیرونی حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس گھر کا کچھ حصہ اس سے جدا ہو گیا تھا۔ یہ صورت حال اس گھر کے باسیوں کے لیے شدید تکلیف دہ تھی۔ اپنے گھر کا ایک حصہ کھو دینے کا غم اس قوم کو آج تک نہیں بھولا۔ جی ہاں ! ہم ہی وہ قوم ہیں۔

تکالیف سہہ کر آسانیاں حاصل کرنے والی قوم۔۔۔ جس کے رہنماؤں نے پوری قوم کا خواب پورا کرنے کے لیے پوری قوم کو ولولے اور عزم کے ساتھ یہ ریاست حاصل کرنے کے قابل بنایا تھا۔
اتنی مشکلات اور تکالیف کے بعد حاصل ہونے والی ریاست کو کوئی بھی کھونا نہیں چاہے گا۔ اس آزادی کی بقا کے لیے کچھ ضروری ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔
اب یہی اس قوم کا اولین فرض ہے۔

کوئی بھی عمارت جب تعمیر کی جاتی ہے تو اس کی پائیداری اور تا دیر سلامتی کے لیے بہترین مواد کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمارت تعمیر ہو جانے کے بعد اس کے اندر رہنے والوں پر اس کی حفاظت کی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کو اگر احسن طریقے سے پورا کیا جائے تو عمارت تا دیر سلامت رہ سکتی ہے۔ عمارت کی سلامتی کے لیے جتنے حفاظتی اقدامات کئے جائیں وہ عمارت اس قدر باہر کے حملوں ، طوفانوں اور بلاؤں سے محفوظ رہتی ہے۔ اور اگر اس کی خوب صورتی میں اضافہ کرنا مقصود ہو تو اعلیٰ حکمت عملی اور بہترین لائحہ عمل سے اس عمارت کی تعمیر کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اور اس کی خوب صورتی میں نئے رنگ شامل کیے جا سکتے ہیں۔

ہمارا پیارا ملک پاکستان ایک عمارت کی مانند ہے۔ جس کی تعمیر کا آغاز ہمارے بزرگوں نے کیا تھا۔ انہوں نے اس عظیم اسلامی ریاست کی تعمیر میں خلوص ، محبت، وفا ، قربانی، عشق اور جوشِ جنوں جیسا نایاب اور بے مثل مواد شامل کیا تھا۔ اس ریاست کو تعمیر کرنے والے اس میں آزاد اور خودمختار زندگی گزارنے کے خواب پورا کرنے کی کوشش کرتے کرتے دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اور اس ریاست کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہمارے کاندھوں پہ ڈال گئے۔ وطن عزیز کی حفاظت اب ہمارے ذمہ ہے۔ اس چمن کی آب یاری کا فریضہ اب ہم نے سرانجام دینا ہے۔ اس اسلامی عمارت کو اس طرح پختہ کرنے کی ضرورت ہے کہ بیرونی حملوں کو ناکامی و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ نشیمن پہ نشیمن تعمیر کرنے کا ایسا فریضہ ہمیں سونپا گیا ہے کہ ہمیں عزم مصمم سے بجلی کو گرنے سے بیزار کرنے کا منصوبہ پورا کرنا ہے۔

جس طرح ایک عمارت کی صفائی ستھرائی اس میں پیدا ہونے والی گندگی کا قتل کرتی ہے اسی طرح ہمیں بھی اپنی اسلامی ریاست کو بدعنوانی ، جھوٹ کھسوٹ ، لوٹ مار ، عریانی ، دہشت گردی ، ناانصافی ، بے راہ روی ، اور منافقت جیسے جراثیم پھیلانے والے گندے کیڑوں سے پاک صاف کرنے کا بڑا فریضہ سونپا گیا ہے۔

جس طرح ایک باغ میں اگنے والی فالتو جھاڑیوں اور پودوں کا بروقت صفایا نہ کیا جائے تو باغ کی نہ صرف خوب صورتی متاثر ہوتی ہے بلکہ خود ساختہ اگی بد صورت جھاڑیوں کی افزائش میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔اسی طرح اگر وطن عزیز سے فالتو عناصر کا بروقت خاتمہ نہ کیا گیا تو ان کی بڑھتی ہوئی تعداد سے چھٹکارا ناگزیر ہو جائے گا۔
آئیں ! وطن عزیز کی اس سالگرہ کے موقع پر اس کو نئ امنگوں، نئے ولولوں اور نئے جوشِ جنوں کے ساتھ ایک ایسا بہترین تحفہ پیش کریں کہ جو اس کی بقا اور سلامتی کے بہترین اقدامات کے طور پر سامنے آئے۔

وطن عزیز کو صفائی اور پاکیزگی کا مرقع ثابت کرنے کے لیے اپنے گھروں ، گلی کوچوں ، دفتروں ،  سکولوں، ہسپتالوں، گاؤں، قصبوں اور شہروں کو ہر قسم کی روحانی و جسمانی ، دیدہ و نادیدہ ، نہاں و عیاں گندگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

اپنی اسلامی ریاست کو خلوص ، عزم صمیم، وفا ، حق ، ہمت اور حوصلے سے بنے خالص مواد سے مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی انتھک کوششوں کو تیز سے تیز کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آؤ ! اس  ملک  کو  مثلِ  ارم  کریں،
کچھ کام آپ کیجیے ، کچھ کام ہم کریں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply