• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا ہمیں سبق دے رہا ہے۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

کرونا ہمیں سبق دے رہا ہے۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

الحمدللہ پاکستان میں کرونا پر خاصی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔یہ بھی شکر ہے کہ پاکستان میں کرونا نے وہ تباہی نہیں مچائی جو دنیا کے کئی ممالک میں نظر آئی ہے۔ کاروبار کافی حد تک بحال تھے لیکن اب تعلیمی اداروں کے علاوہ ہر چیز کھول دی گئی ہے۔ زندگی بحال ہو رہی ہے اور اگلے مہینے تعلیمی ادارے کھلنے سے انشااللہ مکمل بحال ہو جائے گی، صد شکر-

کرونا نے جہاں خوف اور دہشت پھیلائی، وہیں بہت سی مثبت چیزیں بھی ہوئیں۔ خاص طور پر تین ہفتے کے اوّلین لاک ڈاؤن میں کئی سالوں بعد صاف شفاف اور نکھرا ستھرا آسمان نظر آیا، وجہ صاف ظاہر ہے کہ ٹریفک کم ہونے سے، لوگوں کے گھروں میں رہنے سے، سرِشام دکانوں کے بند ہونے سے ماحول پر بہت ہی مثبت اثرات پڑے۔ افسوس کہ ہم اس سب کو مستقل نہ کر سکے حالانکہ یہ کوئی بہت مشکل کام بھی نہیں ہے۔

ہماری ٹریفک کا ایک بہت بڑا حصہ ہیوی ٹریفک پر مشتمل ہے، ٹرکوں، ٹرالیوں، ڈمپروں اور بائیس وہیلرز کی ایک بہتات ہے جو نہ صرف ٹریفک کے ہموار بہاؤ میں خلل انداز ہوتی ہے بلکہ سڑکوں کی توڑ پھوڑ کا باعث بھی ہے اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی ہے۔ اس ہیوی ٹریفک کو ریل کی مال گاڑیوں کے نظام سے بدل دیا جائے تو ہم اس عذاب سے بہت آسانی سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ ایسا ہونے سے ہم تین طرح کے فائدے حاصل کر سکیں گے ، ایک تو ٹریفک کی روانی متاثر نہیں ہو گی، دوسرا انفراسٹرکچر تباہ ہونے سے بچے گا اور تیسرا ماحول پر بہتر اثر بھی پڑے گا۔

مارکیٹوں کے اوقات کار طے کرنا انتظامی معاملہ ہے لیکن حکومت چاہے تو اس پر قانون سازی بھی کر سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک دن کی روشنی کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں اور سر ِشام وہاں دکانیں اورمارکیٹیں بند ہو جاتی ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک جہاں گرمیوں میں سورج شام ساڑھے نو بجے تک ڈوبتا ہے، چھے بجے ہی وہاں کاروبار بند کر دیا جاتا ہے۔ کرونا کے دنوں میں پہلے پانچ بجے اور پھر سات بجے کاروبار بند کرنے کے اوقات نے معاشرتی زندگیوں پر بہت مثبت اثرات چھوڑے۔ خاندان کے لوگوں کو آپس میں مل بیٹھنے کے پہلے سے زیادہ مواقع میسر آئے، خاص طور پر ناشتے اور رات کے کھانے ایک عرصے بعد خاندان بھر میں اکٹھے کھائے جانے لگے۔ دن کے اوقات میں کاروبار سے جہاں بجلی کے استعمال میں نمایاں کمی آئی وہیں شام دیر تک باہر رہنے کا رواج بھی ختم ہوا اور سر شام ہی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے پورچوں میں کھڑے رہنے سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی آئی۔ اس سے پہلے جب بھی کسی حکومت نے مارکیٹوں کے اوقاتِ کار کو محدود کرنے کی کوشش کی، تاجر تنظیمیں ایک مافیا کی طرح اُن فیصلوں کو ماننے سے انکار کرتی رہیں۔کرونا نے یہ بھی ثابت کیا کی حکومت جب اور جہاں چاہے، اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کا اختیار اور صلاحیت دونوں رکھتی ہے۔ حکومت کرونا کے دوران اپنائے گئے کاروباری اوقات کو مستقل قرار دے دے تو توانائی میں بچت اور آلودگی میں کمی کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔

وبا کے دنوں میں ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس بند ہونے کی وجہ سے گھر کے کھانوں کی پذیرائی میں اضافہ ہوا۔ بڑے بڑے سیلبرٹیز جو باورچی خانوں کا رخ بھی نہیں کرتے وہ بھی باورچی خانوں میں کام کرتے ہوئے سیلفیاں اپلوڈ کرتے پائے گئے۔ باہر کے غیر صحتمند کھانوں کی بجائے گھر میں تیار کردہ صاف ستھرے اور صحتمند کھانے کھانے سے بیماریوں میں نمایاں کمی آئی اور لوگوں کو ہسپتالوں کا بہت کم رخ کرنا پڑا۔ ہم اپنے رویوں میں ازخود تبدیلی لائیں اور گھر کے کھانے کو باہر کے کھابوں پر ترجیح دیں تو جیب اور صحت دونوں پر اچھا اثر پڑے گا۔

کرونا وبا نے بہت حد تک ہمیں نمودونمائش سے بھی دور کر دیا۔ ہم جو سمجھتے تھے کہ شادی بیاہ کی رسومات گجے وجے بغیر ہو ہی نہیں سکتیں، وہ اس وبا کے دوران سادگی سے گھروں کے اندر انجام پاتی رہیں۔ شادیوں کو ہم نے ایک تو بہت مہنگا کر دیا ہے اور دوسرا دنیا بھر سے لوگوں کو شادی میں دعوت دینا بھی انتہائی ضروری قرار پایا ہے، جتنے زیادہ مہمان ہوں گے اُتنی واہ واہ بھی زیادہ ہو گی۔ کسی بڑی مذہبی شخصیت کو بلا کر نکاح پڑھوانا بھی فیشن بن گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی شخصیت کس کی ہو سکتی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ شادیاں کر لیا کرتے تھے اور نبی علیہ السلام کو بعد میں خبر ہوتی تھی۔ ثابت ہوا کہ نکاح کے لیے کسی بڑی شخصیت کو بلانا اور آٹھ سو ہزار مہمانوں کو بلا کر پچاس طرح کے کھانوں سے تواضع کرنا قطعی ضروری نہیں ہے۔

عید کے تیسرے روز ایک شادی میں شرکت کی، شادی ہالز بند ہونے کی وجہ سے شادی کا انتظام گھر پر ہی تھا۔ شادی راولپنڈی کے ایک پوش علاقے میں تھی۔ جس گھر میں شادی تھی، اُس گھر میں خواتین کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا، سامنے والے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیس سے پچیس لوگوں کی موجودگی میں نکاح کی تقریب ہوئی اور ایک اور پڑوس کے گھر کے ڈرائنگ روم میں کھانے کا بندوبست تھا۔ شادی ہالز کے رواج سے پہلے یہ ایک بڑی خوبصورت روایت تھی کہ اس طرح شادی بیاہ کی تقریبات میں پورا محلہ شریک ہوتا تھا، ایک عرصے بعد کرونا نے پھر سے شادی بیاہ کی رسومات میں پورے محلوں کو اکٹھا کر دیا۔ اسی طرح محدود شادیاں کرنے کی وجہ سے یہ خوف بھی جاتا رہا کہ اگر فلاں کو نہ بلایا تو خاندانوں میں ناراضگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ہر معاملہ حکومت کے سدھارنے کا نہیں ہوتا، عوام کو خود یہ بات سمجھتے ہوئے سادگی سے شادیوں کے رواج کو مستقل اپنا لینا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تجاویز تو بہت دی جا سکتی ہیں لیکن سر دست حکومت اور عوام مل کر یہ بھی کر لیں تو ہمارے بہت سے معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی مسائل میں کمی ہو سکتی ہے۔ کرونا نے بے ہنگم اور ہڑبونگ سے نکال کر پرسکون زندگی گزارنے کے راستے ہمیں پھر سے دکھائے ہیں۔ سرکار اور سماج میں کیا کوئی بھی رجل رشید نہیں جو غور کرے؟؟

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply