چوری اور سینہ زوری۔۔ محمد اسد شاہ

تحریک انصاف کا ایک اہم اجلاس گزشتہ روز عمران خان کی صدارت میں ہوا – جس میں فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس کا فیصلہ رکوانے کے لیے فوری طور پر مزید سخت اقدامات کا فیصلہ کیا گیا – خیبر پختونخوا کی حکومت تو گزشتہ 9 سالوں سے عمران ہی کے پاس ہے – پنجاب میں بھی گزشتہ پونے چار تک مسلسل انھی کی حکومت رہی – اس سال مارچ میں بزدار کے استعفیٰ کے بعد اسمبلی ووٹنگ میں لگاتار دو مرتبہ مسلم لیگ نواز کے حمزہ شہباز بطور وزیرِ اعلیٰ منتخب قرار پائے ، پہلے 16 اپریل کو ، اور پھر 22 جولائی کو – دونو مرتبہ انھوں نے وزارت اعلیٰ کا حلف بھی اٹھا لیا – لیکن دونو مرتبہ ان کے خلاف عمران خان اور پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کیں اور دونو مرتبہ ان کی اپیلیں منظور کی گئیں – گزشتہ ہفتے انھی کی اپیل پر جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ قرار دے دیا – اپیل کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کی مخالف تمام سیاسی جماعتوں نے درخواست کی کہ اس حساس معاملے پر فل کورٹ بنایا جائے جس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز شامل ہوں لیکن ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی – چناں چہ اس وقت پنجاب میں بھی عمران خان کی پارٹی اقتدار میں ہے – اس اقتدار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس کے فیصلے کو مزید موخر کروانا چاہتے ہیں – انھوں نے الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لانے ، اور اس کی حیثیت کو مصنوعی طور پر متنازعہ اور کمزور بنانے کے لیے گزشتہ روز کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف عدم اعتماد کی قراردادیں منظور کروائی جائیں – اسی طرح چیف الیکشن کمشنر پر مزید اور شدید دباؤ ڈالنے کے لیے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا بھی اعلان کیا – امکان یہی ہے کہ اس مقصد کے لیے ایوان صدر کو بھی استعمال کیا جائے گا جہاں تحریک انصاف کے ہی ڈاکٹر عارف علوی پہلے سے موجود ہیں –
عمران خان کے خلاف فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس تحریک انصاف ہی کے بانی رکن جناب اکبر شیر بابر نے 2014 میں الیکشن کمیشن میں دائر کیا – اس کیس میں کسی دوسری سیاسی جماعت کا کوئی کردار نہیں – جناب اکبر ایس بابر تحریک نصاف کے بانی رکن ہیں – وہ عمران کے قریبی ساتھی ، اور پارٹی کے مالی معاملات کے نگران بھی تھے – انھیں جب محسوس ہوا کہ پارٹی کے مالی معاملات میں عمران کا کردار شفاف نہیں تو انھوں نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا – کمیشن نے جب تحقیقات کا آغاز کیا تو ایک پنڈورا باکس کھلتا چلا گیا – الیکشن کمیشن نے عمران خان کو کئی بار طلب کیا لیکن عمران نے کبھی پیش ہونے اور اپنا موقف بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی – اس کی بجائے انھوں نے تحقیقات رکوانے کے لیے بے شمار حربے استعمال کیے – بار بار وکیل تبدیل کیے اور لمبی تاریخیں مانگی گئیں – مختلف عدالتوں میں کئی بار درخواستیں دائر کر کے الیکشن کمیشن کو تحقیقات سے روکنے کی کوششیں کی گئیں – بار بار عدالتوں میں یہ درخواستیں بھی دائر کی گئیں کہ اس کیس کی سماعت عوام اور میڈیا سے خفیہ رکھی جائے – کیس شروع ہونے کے چند سال بعد عمران خان نے ایک نیا کام یہ کیا کہ اس کیس کا تاثر زائل کرنے کے لیے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے خلاف بھی فارن فنڈنگ کے الزامات کے تحت درخواستیں دائر کر دیں – حال آں کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کا کوئی کردار نہ تھا ، بل کہ یہ تو پی ٹی آئی کے اپنے ہی بانی رکن نے دائر کیا تھا – مدعی اور تفتیشی افسران کو کس کس طرح دھمکایا گیا ، یہ بھی ایک حیرت انگیز اور افسوس ناک تاریخ ہے – سماعت ، تحقیقات اور فیصلہ رکوانے کے لیے خاں صاحب اور ان کی پارٹی نے کتنے اور کیسے کیسے حربے استعمال کیے ، اس پر تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے – خاں صاحب اس دوران وزیراعظم کے منصب پر بھی فائز کیے گئے – ان کے بعض ایسے قریبی ترین ساتھی بھی اعلیٰ ترین مناصب پر پہنچائے گئے جن کے نام اسی کیس میں شامل ہیں – چناں چہ گزشتہ 8 سالوں سے خاں صاحب اور ان کے سرپرستوں کی طرف سے اس قدر شدید دباؤ ہے کہ ثبوتوں کی بھرمار کے باوجود الیکشن کمیشن اس کیس کا فیصلہ جاری نہیں کر پایا – اس دوران خاں صاحب جب وزیراعظم رہے تو انھوں نے اپنی پسند کے مطابق جناب سکندر سلطان کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا- انھوں نے اور ان کی کابینہ کے ارکان نے جناب سکندر سلطان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے – خاں صاحب نے یہ بھی کہا کہ سابقہ کمشنر مسلم لیگ نواز کے پسندیدہ تھے لیکن سکندر صاحب انتہائی ایمان دار اور دیانت دار شخصیت ہیں جو کسی دباؤ میں نہیں آتے – اب جب کہ تمام جماعتوں اور طبقات کی طرف سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس کا فیصلہ فوری طور پر سنایا جائے ، اور خاں صاحب کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان کو فیصلے سے مزید روکنا مشکل ہے تو انھوں نے ان کے خلاف شدید الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے – شنید ہے کہ ملک کے اندرونی اور بیرونی بہت سے حلقوں کی طرف سے بھی ان پر دباؤ ڈلوایا جا رہا ہے کہ وہ فیصلہ نہ سنائیں ، بل کہ عہدے سے استعفیٰ دیں – اس وقت چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان جس قدر شدید دباؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں ، یہ ان کی ہمت اور حوصلہ ہے – اسی دوران عمران خان کی اولاد کے دیس برطانیہ سے بھی دھماکہ خیز انکشافات نے تلاطم برپا کر دیا ہے اور الیکشن کمیشن کے پاس اب کوئی جواز نہیں رہ گیا کہ وہ فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس کے فیصلے کو مزید ملتوی کرے – عالمی سطح پر موقر ترین برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو برطانیہ سے غیر قانونی فنڈنگ کی گئی اور متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے رکن و وزیر شیخ مبارک النہیان نے بھی عمران کو 20 لاکھ ڈالرز دیئے –
متحدہ عرب امارات کی حکومتی و سیاسی شخصیت کی طرف سے پاکستان میں ایک سیاسی شخصیت کو خطیر رقوم دینے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟ حالات پر نظر رکھنے والے پاکستانی و عالمی حلقوں کا خیال ہے کہ اس بھاری غیر قانونی فنڈنگ کا مقصد پاکستان میں سی پیک پر کام کو روکنے کے لیے منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کی پارٹی مسلم لیگ نواز کو کمزور کرنا اور عوام میں غیر مقبول بنانا تھا – کیوں کہ سی پیک کی وجہ سے عرب امارات کی حکومت کو دولت کمانے کے ایک بڑے ذریعے ، یعنی دبئی کی بندرگاہ کی اہمیت کم ہونے کا شدید خطرہ درپیش ہے – اسی طرح امریکہ بھی نواز شریف سے سخت پریشان تھا، ایک تو 1998 کے ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے ، دوسرا بجلی کے منصوبے لگا کر امریکا پر انحصار کم کرنے کی وجہ سے ، اور تیسرا سی پیک کے ذریعے چین کے ساتھ تعاون بڑھانے کی وجہ سے – فنانشل ٹائمز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچز کروائے گئے – اس مقصد کے لیے دبئی کے ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی نے برطانیہ میں ووٹن کرکٹ لمیٹڈ کے نام سے کمپنی بنائی – کھیل کے ذریعے ، خیراتی مقاصد کا نام لے کر جمع شدہ دولت پاکستان میں سیاسی مقاصد اور اقتدار کے حصول پر خرچ کی گئی – خصوصی تقریبات کو “پینے اور مزہ کرنے” کا عنوان دیا گیا – ٹیموں کے نام بعض پاکستانی شہروں کے ناموں کے ساتھ انتہائی نازیبا الفاظ جوڑ کر رکھے گئے – خود عمران خان بھی اس میں شامل ہوئے – شائقین کو بتایا گیا کہ جمع ہونے والی تمام آمدن پاکستان میں خیراتی مقاصد ، خصوصاً غریب مریضوں کے علاج پر استعمال ہو گی – لیکن خیراتی مقاصد کے لیے جمع ہونے والے یہ لاکھوں ڈالرز پاکستان میں عمران خان کو اقتدار میں لانے ، اور ان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں میں استعمال ہوئی – یہاں کئی باتیں بہت اہم ہیں – ایک تو یہ کہ فنڈز جمع کرنے کے لیے غریب مریضوں اور خیراتی اداروں کا نام لیا گیا لیکن سارا پیسہ عمران خان کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوا – دوسری بات یہ کہ وہاں “پینے اور مزہ لینے” کا عنوان تھا اور پاکستانی شہروں کے ناموں کے ساتھ شرم ناک الفاظ جوڑے گئے ، لیکن پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعوے دار عمران خان مبینہ طور پر ان تقریبات میں خود شامل رہے – اخبار نے خاں صاحب کی موجودگی کی تصویر بھی شائع کی ہے – تیسری بات یہ کہ پاکستان میں کام کرنے والی سیاسی جماعتوں کو غیر ممالک سے پیسہ لینا منع ہے – سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو یہ لاکھوں ڈالرز منتقل کرنے کے لیے منی لانڈرنگ کی گئی؟ غیر ممالک سے خطیر رقوم کی وصولی کے لیے بہت سے خفیہ بینک اکاؤنٹس بھی استعمال کیے گئے جن کو پی ٹی آئی اور خاں صاحب نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں کبھی ظاہر نہیں کیا لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تحقیقات میں یہ سامنے آ چکے ہیں – بے شمار سوالات ہیں ، جن کا جواب دینا پی ٹی آئی اور عمران خان کے ذمے ہے – سب سے اہم بات یہ کہ یہ سارا مقدمہ اس شخص اور اس جماعت کے خلاف ہے جو دوسروں کو کرپٹ ، چور ، بددیانت ، بدمعاش ، منی لانڈرر اور ضمیر فروش کہنے میں مشہور ہیں، اور اس کام میں تین چھوٹی جماعتیں یعنی عوامی لیگ ، جماعت اسلامی اور ق لیگ کا پرویز الٰہی گروپ بھی ان کے ساتھ ساتھ ہیں – الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ اب مزید ایک دن کی بھی تاخیر کیے بغیر فیصلہ سنائیں – اطراف کے دباؤ سے نکلنے کے لیے بھی یہی طریقہ سب سے بہتر رہے گا –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply