• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیاست میں عام آدمی کی شمولیت کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔۔ غیور شاہ ترمذی

سیاست میں عام آدمی کی شمولیت کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔۔ غیور شاہ ترمذی

احوال کچھ یوں ہیں کہ وطن عزیز میں ٹھنڈی پڑی سیاست میں متحدہ اپوزیشن کی جانب ہلچل مچائے جانے کے اعلانات ہو چکے ہیں۔ ماہ ستمبر کے آخری ہفتہ میں موسم بھی اب گرمی کی بجائے آہستہ آہستہ سردی کی طرف بڑھنا شروع ہو چکا ہے۔ اگلے مہینے اکتوبر سے جب لوگ ٹھنڈی قلفیوں اور شربت سے لطف اندوز ہونے کی بجائے گرم سوپ اور چائے پینے کا سوچ رہے ہوں گے، تو عین اسی وقت اپوزیشن جماعتیں بھرپور طریقہ سے ملک بھر میں طبل سیاست بجا رہی ہوں گی۔
نامور صحافی سید طلعت حسین اپنے ایک ویڈیو بلاگ میں کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنے ایلچی کے ذریعہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پیغام بھجوایا تھا کہ انہیں اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف کو سیاست کرنے دی جائے اور ان کا راستہ مت روکا جائے مگر سپہ سالار پاکستانی فوج نے انہیں واشگاف الفاظ میں بتا دیا کہ عمران خاں حکومت کو اس کے باقی ماندہ 3 سال پورے کروانے کی ضمانت خود جنرل باجوہ نے دی ہے۔۔ طلعت حسین کے مطابق اس میٹنگ میں بعد ازاں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی شامل ہو گئے جنہوں نے اپنا موقف بھی پیش کیا جو جنرل باجوہ کی اختیار کردہ لائن کا عکس ہی تھا۔
بڑے جنرلز کی طرف سے صاف اور واضح طور پر بتا دیا گیا کہ میاں نواز شریف اپنے لئے کسی قسم کے مزید عدالتی ریلیف کی توقع نہ رکھیں۔ اس موقع پر میاں نواز شریف کے نمائندے نے واضح کیا کہ میاں صاحب اپنے خلاف درج کسی بھی قسم کے کیسوں میں کوئی بھی ریلیف نہیں مانگ رہے بلکہ وہ سیاست میں اپنے اور اپنی بیٹی کے کردار کو محدود کئے جانے کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں جنرل صاحبان نے کہا کہ عمران خاں حکومت کا یہ سسٹم ایسے ہی چلنے دیا جائے گا اور اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی توقع نہیں رکھی جائے۔
میاں نواز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ وہ مزید سیاسی پابندیاں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اس کے خلاف وہ اب عوام کو احتجاج کے لئے باہر سڑکوں پر نکالیں گے۔ جس کے جواب میں جنرل صاحبان کی طرف سے واضح کر دیا گیا کہ مال روڈ لاہور پر 2 بندوں کو بھی احتجاج کے لئے اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس طرح کی کسی بھی کوشش کو سختی سے نمٹا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اب یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں کسی بھی طرح کے دھرنوں اور لانگ مارچ کی احتجاجی سیاست کرنا چاہیں گی تو حکومت اس کی اجازت نہیں دے گی۔
میاں نواز شریف کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ حکومت نا اہل ہے اور اس نے گزشتہ دور حکومت کے دوران ہوتی تیز رفتار ترین ترقی کی شرح کو منفی شرح میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس ترقی معکوس کی وجہ سے ضروریات زندگی کی اشیاء ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور جب ملتی بھی ہیں تو انتہائی مہنگے داموں انہیں خریدنا پڑتا ہے۔ اس حکومت میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ یہ رسد اور سپلائی کے آسان سسٹم کو بھی قابو رکھ سکے۔ ذرائع کے مطابق جنرل صاحبان نے تحریک انصاف کی نا اہلی کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ تمام تر مسائل کے باوجود بھی عمران خاں حکومت کو اپنا وقت مکمل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
طلعت حسین کہتے ہیں کہ مقتدرہ کے اس قدر سخت موقف کے بعد میاں نواز شریف نے سیاسی عمل میں کھل کر حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ نون کی شمولیت اور میاں نواز شریف کی سخت تقریر کی بنیاد بھی اپنے نمائندہ کے ذریعہ جنرل صاحبان سے ہونے والی یہ سخت گفتگو ہی ہے۔ اگر طلعت حسین واقعی ہی سچے کہتے ہیں تو یہ صورتحال بہت ہی افسوس ناک ہے کہ مقتدرہ کھل کر ملکی سیاسی معاملات میں مداخلت کو تسلیم بھی کر رہی ہے اور اسے اپنا حق سمجھ رہی ہے کہ وہ ایسا کریں۔
مسلم لیگ نون نے جنرل صاحبان کے اس سخت موقف کے بعد ہی پیپلز پارٹی کی متحدہ اپوزیشن میں مقتدرہ کے خلاف دوٹوک سٹینڈ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں میں یہ تاثر بھی موجود تھا کہ احتجاجی تحریک کے عروج پکڑتے ہی ماضی کی طرح نون لیگ درمیان سے نکل جاتی ہے۔ اسی لئے تمام جماعتوں کے درمیان ہوئے عہد و پیماں کو تحریری شکل دی گئی ہے تاکہ کوئی بھی جماعت اس معاہدہ سے نکل نہ سکے۔ پیپلز ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی احتجاجی تحریک کی بنیادی طاقت مولانا فضل الرحمان کے مدارس کے طلبہ کی شمولیت ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے پشتون قبائلی علاقوں میں بھی مولانا فضل الرحمان کی عوامی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی اس تحریک کی بنیاد عوامی ہونے کی بجائے صرف مدارس کے طلبہ اور مولانا فضل الرحمان کے مذہبی ووٹ بنک کے ہونے کو سیاست میں بہتری پر مبذول نہیں کیا جا سکتا۔ عام آدمی کا اپوزیشن احتجاجی تحریک میں شمولیت نہ کرنا سیاست اور جمہوریت کے مستقبل کے لئے سخت نقصان دہ ہو گا۔
دوسری طرف یہ ہمارے سیاستدانوں کی کمزوریاں ہی ہیں کہ وہ سیاسی معاملات میں جنرل صاحبان سے ملاقاتیں کرتے ہیں مگر عام آدمی سے رابطہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اگر سیاستدان عوامی ہوں اور عام آدمی کے ساتھ منسلک ہوں تو وہ اپنے سیاسی فیصلے خود کیا کرتے ہیں جو عوام۔کی امنگوں اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر کئے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے لیڈران اب عام آدمی سے کٹ چکے ہیں۔ ملکی سطح کا ایک بھی لیڈر ایسا نہیں ہے جو عام آدمی سے ملتا جلتا ہو۔ سیکورٹی کے مسائل یقیناً موجود ہیں اور شاید یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے کہ ملکی سطح کا کوئی لیڈر عوام سے براہ راست مل سکے۔ لیکن اس کے لئے کوئی راستہ اور کوئی طریقہ تو بنانے کی اشد ترین ضرورت موجود ہے۔ پارٹی ورکروں میں بھی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ عام آدمی کی بات لیڈر تک پہنچا سکیں کیونکہ ورکر اور لیڈر کے درمیان بھی پارٹی عہدے داروں کی وسیع ترین خلیج حائل ہے۔
اگر اپوزیشن واقعی ہی بھرپور تحریک چلانا چاہتی ہے تو ماحول میں گنجائش موجود ہے۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے۔ وہ بہت کٹھن حالات میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ مگر وہ اپوزیشن کے ساتھ سڑکوں پر دھرنا دینے اور لانگ مارچ کرنے کے لئے صرف تب ہی تیار ہو گا جب وہ لیڈروں کے ساتھ براہ راست رابطہ میں آئے گا۔ لیڈروں کو چاہئے کہ وہ عوام تک براہ راست اپروچ کرنے کا کوئی میکنزم تشکیل دیں کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس سے عام آدمی جو سیاست میں شامل کیا جا سکتا ہے وگرنہ مدارس کے طلباء جیسے لانگ مارچ اور دھرنوں سے سیاست میں مذہبی عنصر شامل ہوتا جائے گا جس سے مذہبی منافرت ہی بڑھے گی۔ سیاست میں مذہبی عناصر کی بجائے عام آدمی کو شامل کیجئے وگرنہ سیاست کا ماحول کبھی بھی عامۃ الناس کے مفادات کی طرف نہیں تبدیل ہو گا بلکہ لیڈروں کے ذاتی مفادات کے حصول اور مخصوص طاقتوں کے ایجنڈہ کی تکمیل میں ہی ڈھلا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply