ریفیوجی۔۔روبینہ فیصل

نومبر 2020کے دن تھے اور ہم مسزگا سے اووکول مووہو رہے تھے، میرے گھر کے دروازے پر دستک ہو ئی۔دروازہ کھولا تو میرے سامنے وہ مسافر کھڑا تھا، جس کی پیدائش کے وقت نجومی نے پیشن گوئی کی تھی کہ اس بچے کے ہاتھ میں دنیا بھر کا سفر ہے۔ وہ مسافر سفر کرتا ہوا میرے دروازے تک آگیا تھا یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں ایک ایسے انسان کے ساتھ مل رہی تھی جو تاریخ کے ان ابواب کا اہم اور چشم دید گواہ تھا، جنہیں پرا پیگنڈا کی دھول نے تاریخ کے اوراق سے مٹا ہی دیا تھا مگر یہ اُس مسافر کی بدقسمتی تھی کہ وہ ایسی خون آلود تاریخ کا نہ صرف گواہ تھا بلکہ اس کا شکار بھی تھا۔

عظمت اشرف، اپنی سوانح عمری ” ریفیوجی” تھامے میرے سامنے کھڑے تھے۔ یہ کر ونا کے آغاز کے دن تھے۔ ان کا آدھا چہرہ ماسک میں چھپا ہوا تھا اور آدھے چہرے سے جھانکتی ہو ئی ان کی آنکھوں میں ایک گہری خاموشی اور کر ب تھا جس کو میں اس وقت تو نہیں سمجھ پائی مگر آج جب(کوئی ایک سال بعد) ان کی آپ بیتی کو اپنے اوپر بیت چکی ہوں تو نہ صرف ان آنکھوں کے کرب کی وجہ جان چکی ہو ں بلکہ حیران ہو ں کہ انہوں نے زندگی کے ایسے خونی باب کو الفاظ میں کیسے ڈھا ل لیا؟۔ ان یاداشتوں کو لکھنے کے لئے خون کے اس دریا،جس میں ان کے کتنے ہی پیارے ڈوب گئے تھے، پھر سے کیسے پار کر لیا؟ اتنی ہمت کہاں سے آئی ہو گی؟

عظمت اشرف نے مجھے بتایا کہ ہمارے سابقہ قونصل جنرل عمران صدیقی (جو اس وقت بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر ہیں)، اور ہمارے محترم دوست جناب رفیع مصطفے صاحب نے انہیں میرے بارے میں بتایا تھا۔ میں ان دونوں کی تاعمر ممنون رہوں گی کہ ان کی وجہ سے ایسی محترم اور عظیم شخصیت سے میری نہ صرف ملاقات ہو گئی بلکہ ان کی تاریخی خود نوشت کے ذریعے مجھے1971کی ٹریجڈی کے کئی ایسے پہلوؤں سے بھی آشنائی ہو گی جو ہم مغربی پاکستان والوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھے۔

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد۔۔میں دو راتوں سے سو نہیں پائی۔۔ ان مصائب کو فقط سوچ کر۔۔ سوچیے وہ جو ان مصائب سے گزرے ہو ں گے، ان کی آنکھوں میں نیند کہاں اترتی ہو گی۔۔ اسی لئے وہ آنکھیں کوئی عام آنکھیں نہیں تھیں۔۔ میں اس پروقار اور اپنے نام کی طرح عظیم انسان کے آگے شرمندہ ہوں کہ ان کے دکھوں کو پڑھنے اور بانٹنے میں، میں نے پورا ایک سال ضائع کر دیا۔۔گھر کی شفٹنگ اور دیگر دنیاوی مصروفیات کو قصور وار اس لئے نہیں ٹھہرا سکتی کہ یہ سب اس کتاب کے سامنے ہیچ ہو نا چاہیے تھا اور مجھے سب سے پہلے اس کو اہمیت دینا چاہیئے تھی۔لیکن میں نے بھی وہی کیا جو ان محب وطن پاکستانیوں کے ساتھ مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کیا، انہیں محب وطنی کی سزا موت یا بے گھری کی صورت میں ملی تو کسی کے پاس ان کو بچانے کا وقت نہیں تھا کیونکہ کاموں کی فہرست میں اور بڑے کام تھے جو ہونے والے تھے، ہمارے پاس تو آج بھی ان محب وطنوں کی پکار سننے کا وقت نہیں۔

تاریخ کو تاریخ کی کتابوں میں دیکھیں گے تو مورخ کے تعصب میں بھٹک جائیں گے، تاریخ کو اُس وقت کے عام انسانوں میں کھوجیں گے تو شاید سچ تک پہنچ سکیں گے۔

آئیے! سن 1971 کو فاتح کے پرو پیگنڈہ سے ہٹ کر اس عام انسان کی نظر سے دیکھتے ہیں جس کی آنکھوں کے سامنے سب مناظر بت بنے کھڑے ہیں اور وہ خود بھی اسی وقت میں منجمدکھڑا ہے کیونکہ جو ستم اس پر ٹوٹ چکے ہیں وہ اس کو آواز دیتے ہیں،وہ مڑ کر دیکھتا ہے اور پتھر کا ہو جاتا ہے۔

آئیے! میں آپ کو اس مہاجر کی کہانی سناتی ہوں جس نے زندگی میں چھ ہجرتیں کی تھیں۔۔ ہر ہجرت کے بعد اس کے ذہن میں سوال اٹھتا تھا؟ میرا وطن کو ن سا ہے۔۔ اور آخر میں جب اسے جواب ملتا ہے تو میں آپ سے پو چھوں گی کہ کیا اس سوال کا یہی جواب بنتا ہے؟

عظمت اشرف (مصنف) کے ابو, حیات اشرف، خوابوں سے بھرے ہوئے مگر ایک متحرک انسان تھے۔ انہوں نے اپنی محنت سے خود کو بنایا تھا۔ وہ انڈیا کے صوبہ بہار کے شہر مظفر پور میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ تقسیم ہندوستان کے بعد صوبہ بہار میں اینٹی مسلم فسادات پھوٹے تو 1952میں اس کی آگ ان کے گھر تک یو ں پہنچی کہ ان کی چھوٹی بچی جو صرف دو سال کی تھی سخت بیمارہوگئی۔ باہر کرفیو کی وجہ سے بچی کو طبی امداد نہ مل سکی اور وہ ماں کی گود میں ہی اس دنیا کو الواداع کر کے چلی گئی اور عظمت اس وقت ماں کے پیٹ میں تھے۔ دو بڑے لڑکے حشمت اور اقبال بھی اتنے چھوٹے تھے کہ وہ اس تکلیف کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ حیات اشرف پر اس سانحے کا بہت اثر ہوا اور انہوں نے ہندوستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے بڑے کزن ذکی نے (حیات اور ان کی بیگم جنہیں سب بی بی کہتے تھے، ان دونوں کے ہی والد فوت ہو چکے تھے، ا س لئے یہی کزن باپ کی جگہ تھا) اور بی بی جی کے میکے والوں نے ان کو ایسا کر نے سے بہت روکا مگر وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔

1953 کو ایسٹ پاکستان ریلوے سے جو پہلے ایسٹ بنگال ریلوے تھی اور جس کے Bکا نچلا حصہ کاٹ کر اسی کو Pبنا لیا گیا تھا۔۔اسی EPR میں سوار ہو کر، اپنی جمع پونجی سرحد پار کر نے کے لئے انڈیا کے باڈر پر کھڑے لٹیروں کے حوالے کر کے مشرقی پاکستان میں ٹھاکرگاؤں میں اپنا نیا آشیانہ بنانے کے لئے آگئے۔ اس چھوٹے سے شہر کا انتخاب انہوں نے عقل مندی اور دور اندیشی سے کیا تھا۔ ایک تو یہ ان کے آبائی گاؤں (انڈیا میں) کے قریب تھادوسرا ان کو وہاں نوکری مل گئی تھی۔۔۔ یہ ان کا پاکستان تھا۔۔جہاں سب مسلمانوں نے مل جل کر رہنا تھا اور جہاں ان کو مذہبی بنیاد پر اقلیت ہو نے کا اور مارے جانے کا خوف نہیں تھا، یہاں اس زمین کو ان کے بچے اپنا گھر کہیں گے۔۔

حیات اشرف کا خیال تھا کہ ہجرت کر نے والوں کو نئی جگہ پر جا کر، ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر رہنے کی بجائے، وہاں کے رسم و رواج اور ثقافت میں ضم ہو جانا چاہیئے۔ انہوں نے اپنی اس سوچ کو عملی جامہ بھی پہنایا، بچوں کو بنگالی میڈیم سکولز میں داخل کر وایا۔ جب وہ چالیس سال کے ہو ئے تو انہوں نے نوکری چھوڑ کر بزنس کر نا شروع کر دیا۔ اب ان کے سات بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ جب انہوں نے چاول کی مل لگائی تو لوگوں نے کہا حیات تمہارے پاس ایک چاول کی مل نہیں بلکہ سات سات ہیں۔ اس وقت ان کابڑا بیٹا حشمت ڈاکٹر بن رہا تھا،دوسرا اقبال گریجویشن کر رہا تھا اور ساتھ بزنس میں ان کا کا ہاتھ بٹانے لگاتھا، عظمت اور شاہدایوب کیڈٹ سکول میں پڑھ رہے تھے، چھوٹے زاہد، ساجد، حامد اور منی بیٹی ابھی گاؤں ہی کی سکولز میں تھے۔50اور 60 کی دہائیوں میں صوبہ بہار ہندوستان سے مشرقی پاکستان ہجرت کر کے آنے والوں کے لئے وہ ایک مثال بن چکے تھے، ایک مشعل راہ بن چکے تھے۔ وہ مشرقی پاکستان میں ایک کامیاب، خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ اور ان کے دم سے کئی اور لوگوں کو روزگار مل رہی تھی۔

ملکی اور سیاسی سطح پر تبدیلیاں آرہی تھیں۔ صدر ایوب اقتدار،جنرل یحیی کے حوالے کر کے رخصت ہو گئے۔70 میں پہلی دفعہ ملک میں ون ووٹ ون پرسن کی بنیاد پر عوامی الیکشن ہو ئے، جو شاید پاکستان کی تاریخ کے پہلے اور آخری شفاف الیکشن کہے جا سکتے ہیں۔ اس کے نتائج سامنے آئے تو مغربی پاکستان میں 120 میں سے 81 سیٹیں لے کر ذوالفقار علی بھٹو ایک سیاسی طاقت بن کر ابھر آیا اور مشرقی پاکستان میں 162میں سے 160سیٹیں جیت کر عوامی لیگ کا شیخ مجیب سپر مین بن گیا۔ ان دو سپر مینوں کے درمیان صدر یحیی پنگ پانگ کا گیند بن کر لڑھکنے لگا۔ لڑھکنا اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کو اقتدار میں سے حصہ چاہیئے تھا۔ وہ چاہتا تھا صدر اسی کو رکھا کیا جائے، باقی سب کچھ جائے بھاڑ میں۔ شیخ مجیب،پاکستان کو توڑنے کی اگر تلہ سازش رچا چکا تھا اورپہلے ہی غداری کے الزام میں جیل کاٹ چکا تھا، اپنے چھ نکاتی ایجنڈے پر عوام کی بھرپور حمایت کے زور پر الیکشن کی کایا پلٹ چکا تھا۔ ایجنسیوں نے صدر یحیی کو اس خوش فہمی میں رکھا تھا کہ دونوں بڑی جماعتوں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے کوئی بھی اکثریت نہیں لے سکے گی۔ اس پیشن گوئی کے غلط ثابت ہو نے پر صدر یحیی اب ان دونوں لیڈروں کے رحم و کر م پر تھے۔ الیکشن کے نتائج آنے کے بعدشیخ مجیب کو وزیر اعظم بنانے کی بجائے ٹال مٹول شروع ہو گئی۔الیکشن کے تین مہینے بعد دو مارچ کو قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس طلب کر کے اور پھر بھٹو اور شراب کے زیر اثر آکر اس کو ملتوی کر کے یحیی خان نے ایسی غلطی کی جس کا کفارہ کئی نسلوں کو چکانا پڑا۔۔ آج تک۔ اس غلطی نے نہ صرف پاکستان کو توڑنے والوں کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا بلکہ لاکھوں بے قصور بنگالی اور غیر بنگالی انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سیاست کی اس بساط پر پٹنے والے مہرے عوام تھے۔۔ بنگالی عوام۔۔ بہاری عوام۔۔

حیات اشرف حیران کھڑے تھے۔۔ مسلمان ہندو کی مذہبی بساط سے وہ نکل آئے تھے۔ اب لسانی بساط بچھ چکی تھی۔ ان کے پرانے دوست انصاری نے،جو ہندوستان سے ہجرت کر کے آیا تھا، وہاں ایک ہندو نے اس کی جان بچائی تھی، یہاں وہ حیات اشرف کو کہہ رہا تھا؛
“اس دھرتی پر بھی وقت پو را ہو گیا ہے۔ اب یہاں بھی تقسیم کی قینچی چلے گی، ہمیں مغربی پاکستان کی طرف نکل جانا چاہیے۔۔ ”
حیات اشرف پر اعتماد تھے؛ “یہ کیسے ہو سکتا ہے، اس گاؤں میں میں نے پیسہ اور وقت لگایا ہے۔ میں اپنی محنت کا پھل یہیں پر گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ کر کہیں اور نکل جاؤں۔ یہ میرا ملک ہے، یہ پاکستان ہے، ہم سب مسلمان ہیں اور جیسے ہی شیخ مجیب وزیر اعظم بنے گا۔ سب کچھ معمول پر آجائے گا۔ ”
انصاری نے کہا: “وہ وزیر اعظم بھی بن گیا تو حالات اب کبھی معمول پر نہیں آئیں گے۔۔ وہ یہ ملک توڑ کر دم لے گا۔۔ ”

حیات اشرف نے ان کی بات نہیں مانی۔۔ اور اس اندھے اعتماد نے ان کو ایسے اندھے کنوئیں میں گرا دیا جہاں ان کی سب جمع پو نجی جان سمیت گم ہو گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے ملتوی ہونے کے بعد عوامی لیگ کے غنڈے بے قابو ہو گئے۔ بنگالی حقوق کا نعرہ بنگالی عوام کی زبان پر تھا، اور بہاری عوام نے لاکھ ان کا ساتھ دینے اور ان کے ساتھ مل مل کر” جوئے بنگلہ” اور” بنگو بندو “کے نعرے لگائے مگر بنگالیوں کی یہ بد گمانی کہ وہ پاکستان اور پاک آرمی کا ہی ساتھ دیں گے،ختم نہ ہوسکی۔ ایسٹ پاکستان رائفلز، باغی پولیس، مکتی باہنی، عوامی لیگ کے سچاسبھوک ۔۔ ان سب نے ہر غیر بنگالی کو ختم کر نے کی ٹھان لی اور ان دنوں ان چھوٹے چھوٹے گاؤں کی گلیوں کوچوں نے خون کی وہ ہو لی دیکھی جو ethnic cleansing کے نام پر پہلے ہٹلر نے ہی بس کی ہوگی۔

جب ان باغیوں نے اعلان کیا کہ سب بہاری گھروں کے سربراہان اپنے آپ کو اور اپنے گھروں میں موجود اسلحے کو ہمارے حوالے کر دیں تو حیات اشرف نے بھی اپنے بچوں کی خاطر دکھاوے کے امن کے اس اعلان پر عمل کیا اور خود کو ان کے حوالے کردیا۔ وہیں پر انہیں اپنے دوست انصاری اور اس کے بیوی بچوں کی قتل کی خبر ملی۔۔ انصاری کو ہندوستان میں ایک ہندو نے قتل ہو نے سے بچا لیا تھا مگر یہاں اپنے پاکستان میں وہ نہ بچ سکا۔ حیات اشرف کا حوصلہ ٹوٹنے لگا۔ وہ جیل آنے سے پہلے اپنے بچوں کو اپنے مختلف اعتباری بنگالی دوستوں میں بانٹ آئے تھے۔ ان کے ساتھ کیا ہوا۔۔ کس کس طرح ان پر ظلم ڈھائے گئے۔۔ یہ سب میں نے پڑھا، میری راتیں بر باد ہو گئیں، جنہوں نے وہ سب جھیلا، خدا نے ان کو اتنی طاقت بھی بخش دی ہو گی ورنہ میرے جیسے تو پڑھ کر ہی اتنے نڈھال ہو گئے ہیں کہ وہ سب لکھنے کی ہمت بھی باقی نہیں رہی۔۔ مگر یہ کہانی۔۔

عظمت اشرف کی یہ کہانی ہم سب کے لئے پڑھنی اس لئے ضروری ہے کہ یہ وہ سچ تھے جن کو حکومت ِ پاکستان نے بھی نہیں اپنایا تھا۔
عظمت اشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں؛ جب ہر طرف بنگالیوں کی اموات کا ذکر ہو رہا تھا اورانٹرنیشنل میڈیا ان کی ہمدردیوں میں ڈوبا ہوا تھا، ان بہاریوں کی اموات کا ذکر کر نے والا کوئی نہیں تھا جو تعداد میں ان سے کہیں زیادہ تھے۔ عظمت اشرف کے سات بھائیوں اور ایک بہن میں سے صرف تین بھائی بچ گئے تھے۔ ان کے ابو حیات اشرف ان کی بی بی اور ٹھاکر گاوں اور دیناج پور دونوں شہروں میں ان کے پو رے کے پو رے کنبوں کو قتل کر دیا۔ پاکستان آرمی جب وہاں پہنچی تو بے گور و کفن لاشوں کے ڈھیر انہیں ملے۔ انہیں دفناتے دفناتے وہ تھک جاتے تھے اور ستم ظریفی یہ کہ ان اموات کا بوجھ بھی انٹرنیشل پر وپیگنڈہ کرتے کرتے پاک آرمی کے ان جوانوں پر ڈال دیا گیا تھا۔ عظمت اشرف نہ بچتے تو ہم غیر بنگالیوں پر ہو نے والے اندھے ظلم کے خلاف کبھی بھی نہ جان پاتے۔ کیونکہ یہ وہ سچ تھا جس کا کوئی والی وارث نہیں تھا۔۔ یہ ان محب وطنوں کا سچ تھا جن کو ان کے وطن میں آج بھی پناہ نہیں ملی۔۔۔ جن کے قتل ِ عام کو اس لئے خبروں میں نہیں آنے دیا کہ دو قومی نظریے کو چوٹ لگتی تھی۔ عظمت اشرف وہ تھے جن کا سارا خاندان بلکہ سارا قبیلہ مار ڈالا گیا لیکن اگران کا دل کسی کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھنے کو کرے تو ان کے پاس کوئی ایک قبر بھی نہیں۔

عظمت اشرف،71 میں ہی کر اچی یو نیورسٹی میں تھے، اس لئے بچ گئے۔ وہاں سے اپنوں کی موت کا بوجھ اٹھائے اٹھائے انگلینڈ اور پھر وہاں سے سعودی عرب چلے گئے۔ وہاں انہوں نے کیا محسوس کیا کہ واپس کر اچی آنے کو ترجیع دی۔۔ کر اچی۔۔ پاکستان سے محبت شائید اپنے ابو سے وراثت میں ملی تھی مگر جب کراچی کے حالات 90,sمیں بگڑ گئے تو انہوں نے اپنے ابو کی طرح ہجرت کر نے میں دیر نہیں کی اور اچھے حالات کی امید اور انتظار میں اپنی تین بیٹیوں کی زندگیوں پر جوا نہیں کھیلا۔عظمت اشرف،اپنی سائکی میں بیٹھی اس بات کو جھٹلا نہیں سکے کہ جب زمین تنگ پڑنے لگ جائے اور بر وقت ہجرت نہ کی جائے تو دامن خالی اور دل درد سے بھر جاتا ہے۔وہ اپنے ابو والی غلطی دہرانا نہیں چاہتے تھے۔
آخری ہجرت کینیڈا کی طرف کرتے ہو ئے، عظمت اشرف خود سے سوال پو چھ رہے تھے۔۔میرا وطن کون سا ہو گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہندوستان؟ جہاں میں پیدا ہوا؟ مشرقی پاکستان؟ جہاں میں ایک سال کی عمر میں چلا گیا اور وہیں سے گر یجویشن کی؟ کر اچی جہاں باقی ایجوکیشن مکمل کی ؟ انگلینڈ، جہاں ہائر ایجوکیشن لی؟ سعودی عرب جہاں بیوی ملی، نوکری ملی مگر مستقل گھرنہ ملا؟ پھر کراچی، جہاں اپنا گھر بنایا،بزنس کیا، نوکر چاکر رکھے، عیش کی زندگی گزاری، لیکن پاکستان میں یہ سب کچھ ہو تے ہو ئے بھی جان و مال و عزت کی خاطر یہ سب چھوڑنا پڑا۔؟ اور اب کینیڈا۔۔ ایک خوبصورت ملک، دنیا میں جنت نما جگہ جہاں انسان برابر ہیں۔۔ کوئی کسی کو مذہبی، لسانی، اور جغرافیائی بنیادوں پر نفرت کا نشانہ نہیں بنا سکتا ہے۔۔
عظمت اشرف خود کو جواب دیتے ہیں کہ میراوطن وہ ہو گا جس کو میرے بچے اپنا وطن کہیں گے اور جہاں کی سر زمین پر میری قبر پر کتبہ لگا ہوگا اور وہ میرے ماں باپ کی طرح بے نام نہیں ہو گی۔۔۔ میرے بچوں کا جب دل کرے گا وہ میری قبر پر آکر فاتحہ پڑھ سکیں گے، میرے والی حسرت ان کا مقدر نہیں ہو گی۔۔ بس وہی میرا وطن ہو گا!

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply