سوال اور وسوسے میں فرق/ڈاکٹر اظہر وحید

پنجاب یونیورسٹی سے رائے محمد شعیب شیبی کا سوال ہے ”السلام علیکم سر! میرے ایک دوست جو ایف سی یونیورسٹی میں ہوتے ہیں، ان کا سوال ہے کہ Genuine intellectual question اور وسوسے میں کیسے فرق کریں؟ اسی سے منسلک میرا بھی سوال ہے، ہم بہت کنفیوژ ہو جاتے ہیں، ایک جگہ ہمیں Western philosophy پڑھائی جاتی ہے جو ہر چیز پر یہاں تک کہ مذ ہب پر بھی Critical thinking apply کرتی ہے، جبکہ دوسری طرف قرآن ہمیں ”سمعنا واطعنا“ کا کلیہ بتاتا ہے؟ کس طرف جائیں؟
اس نوجوان کا سوال کافی دنوں بلکہ ہفتوں سے سر پر سوار تھا، بار بار یاد دہانی بھی کرائی جاتی تھی۔ مصروفیت کے سبب بڑی دیر سے اسے کل پر ٹالنے کا کام جاری تھا کہ آج منگل کا دن آن پہنچا، اور یہی اس قلم کار کا کالم ڈے ہوتا ہے۔ سوچا کہ اس سوال ہی کو کالم کا موضوع بنا لیا جائے، ممکن ہے شیعب شیبی کی طرح اور بھی بہت سے نوجوانوں کا بھلا ہو جائے۔
اگر انسان صرف جسم اور دماغ کا مجموعہ ہو تو شعیب میاں، یقین جانو، کام بہت آسان ہو جائے۔ ایک روبوٹ کی طرح ہم اپنے یا کسی بھی اور انسان کے ذہن میں سوال فیڈ کریں اور کسی منطقی کلیے کے تحت دوسری طرف اس کا جواب موصول ہو جائے، اور پھر اس جواب پر سب اہلِ عقل متفق بھی ہو جائیں۔ زمین گول ہے، پانی نشیب کی طرف بہتا ہے، سورج مشرق سے اور چاند مغرب سے طلوع ہوتا ہے …… اور اسی قبیل کے بے شمار کلیات ہیں جن پر بنی نوعِ انسان متفق ہے۔ کوئی مائی کا لال اس سے اختلاف کرنے کی جسارت نہیں کرتا کیونکہ ان سوالات کا جواب دینے والوں کے پاس ایسے ٹھوس دلائل ہوتے ہیں، جن کے جواب میں اختلاف کرنے والے کے پاس دلائل نہیں۔ کوئی کج بحث اگر اختلاف کرنے پر کمر باندھ لے تو بھی اسے فی الفور جواب دینے کے لیے سائنسی تجربات موجود ہیں۔ اسے کسی سائنسی تجربے کے ذریعے باور کرایا جا سکتا ہے کہ تمہارا اختلاف بے معنی ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ انسان کے ساتھ جذبات، احساسات اور دل نام کی کوئی چیز بھی منسلک ہے۔ اگرچہ کریٹیکل اینالیسس والے ذہین لوگ جذبات کو دماغ کے اندر کسی کیمیکل نیوروٹرانسمٹر کے اتار چڑھاؤ سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور دل نام کی کسی صلاحیت کو دماغ ہی کے ہائرسینٹر لوب کی صحت کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں، لیکن اس دنیا کی تاریخ، انسان کی بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں، مذہب، تصوف اور ایک تسلسل کے ساتھ روحانی تجربات اس وضاحت کی مسلسل نفی کر رہے ہیں۔ اگر کسی مابعد الطبیعات تجربے کو سائیکیٹری پڑھنے والے شیزفرینیا سے جوڑنے کی کوشش کریں، اس کے
اندر ہمہ حال موجزن کیفیاتِ بیم و رجا کو سیروٹونین لیول کی کمی بیشی سے متعین کریں تو یہان کی ایک اکیڈمک ایکسرسائز ہے، انہیں کرنے دیں، ان سے الجھنے کی کیا ضرورت ہے؟ بعید نہیں کہ ایک بائیو کیمسٹری لیب میں کام کرنے والا کوئی شخص مرزا غالب اور خسرو کے پُرکیف اشعار کو بھی کسی دماغی خلل کا نتیجہ قرار دے۔ جس زمانے میں روس ایک سپر پاور ہوتا تھا اور لادینیت اس کا سرکاری ”مذہب“ تھا، اس زمانے کی رشین سائیکاٹری ایسوسی ایشن خدا پر ایمان کو انسانوں کی ایک ذہنی بیماری Delusion کے طور پر شمار کرتی تھی، اس وجہ سے دنیا بھر کی سائکاٹرسٹ تنظیموں نے رشین سائکاٹری ایسوسی ایشن کو اپنی تنظیم میں شامل نہیں کیا تھا، دنیا بھر کے ماہرین نفسیات کا خیال تھا کہ خدا کے وجود پر یقین رکھنے والے کروڑوں انسان نفسیاتی مریض نہیں ہو سکتے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ادویات کی مدد سے علاج کرنے والے سائکاٹرسٹ بھی دوا تجویز کرنے کے بعد مریض کو سائکالوجسٹ کے پاس بھیج دیتے ہیں، یعنی دوا کی مدد کے بغیر نفسیاتی امراض کی تشخیص اور علاج کرنے والے ماہرین کے پاس۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ برین کیمسٹری ہی کا کرشمہ ہے تو پھر درمیان میں نفسیات دانوں کا ٹنٹنا کیوں پالا جاتا ہے؟
عجب بات ہے، دل والوں کے سوالات کا جواب دماغ والوں کے پاس نہیں ہوتا، اور دماغ والوں کی تنقید کا جواب دینے کی فرصت دل والوں کے پاس نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں؟
ماننے اور جاننے میں فرق اگرچہ بعد المشرقین کا نہیں، لیکن یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ ماننے والا لازم نہیں کہ جاننے والا بھی ہو اور جاننے والا بعض اوقات ماننے کو اپنے لیے لازم نہیں سمجھتا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں الٰہیات پر ایک پی ایچ ڈی پروفیسر اسلام کی تاریخ، فقہ اور عقائد کے بارے میں کسی عام کلمہ گو مسلمان سے کہیں زیادہ معلومات رکھتا ہے، لیکن ماننے کے باب میں وہ بیچارہ بالکل فارغ ہے۔ دوسری طرف ایک کلمہ گو دیہاتی، صرف کلمہ جانتا ہے اور صرف کلمہ مانتا ہے، اسے فقہ، تاریخ اور مسائلِ تصوف کا مطلق علم نہیں، لیکن ماننے کے میدان میں وہ ایک شہسوار ہے۔ ماننے کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور جاننے کا دماغ کے ساتھ۔ اب یہ ماننے اور جاننے کی طلب اور تڑپ رکھنے والے کا انتخاب ہے کہ اس نے اپنے وجود کے کس حصے کو بیدار و توانا کرنا ہے اور کس حصے کو کمزور و خوابیدہ رکھنا ہے۔ دل اور شکم، دل اور دماغ، بدن اور روح …… کس نے اپنے لیے کس چیز کا انتخاب کیا ہے، یہیں سے ایک انسان کا احساس، منظر، فکر، اندازِ فکر، عمل اور لائحہ عمل سب کچھ بدل جاتا ہے۔ رومیؒ، اقبالؒ اور واصفؒ کی کائنات اور ہے، مارکس، لینن اور ڈارون کی کائنات بالکل اور۔ رومیؒ کی کائنات جمالیاتی ہے، مارکس کی جدلیاتی۔ سوال یہ ہے کہ آپ کس کائنات میں قدم رنجہ فرمانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
انسان کا انسان سے ربط اور رابطہ جدلیاتی بنیادوں پر ہو گا تو عارضی ہو گا، جمالیاتی بنیاد پر ہو گا تو ہمیشہ کے لیے ہو گا۔ جمال کو ہمیشگی ہے …… اللہ جمیل و یحب الجمال۔ مفاد کی کشش عارضی ہوتی ہے، جبکہ عارض کی کشش قدرے مستقل!! اس کائنات میں جب کوئی منظر انسان کے احساسات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے تو وہ خارج سے نکل کر باطن میں قیام پذیر ہو جاتا ہے۔ خارج متغیر ہے، عارضی ہے، فانی ہے، باطن قیام میں ہے، مستقل ہے اور باقی کے ساتھ نسبت کی وجہ سے باقی ہے۔
سوال اور وسوسے میں فرق ہے …… اور یقیناً فرق ہے۔ وسوسے کا تعلق یقین کے ساتھ ہوتا ہے، اور سوال کا تعلق تحقیق کے ساتھ۔ دراصل سوال بھی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک دل کی تائید حاصل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں، قربت کی سند لینے کے لیے کیے جاتے ہیں …… یہ تصدیق والے سوالات ہوتے ہیں۔ دوسرے دُوری کا جواز پانے کے لیے کیے جاتے ہیں، وہ تشکیک والے سوالات ہوتے ہیں۔ کچھ سوالات اپنی کم علمی دور کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں، اور کچھ دوسرے کی کم علمی آشکار کرنے کے لیے …… ان دونوں میں بھی بہت فرق ہے۔ جس کی کتاب مکمل ہو چکی ہو، اس کے لیے کوئی سوال بھی غیر متعلق نہیں ہوتا …… اس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہوتا ہے۔ اس نے کسی بیرونی تصنیف سے استفادہ کرنے کے بعد جواب نہیں دینا ہوتا بلکہ اپنی ہی کتاب کا ورق پلٹتے ہوئے جواب دینا ہے …… اس لیے اس کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ جن کا یقین کامل ہوتا ہے، ان کی کتاب مکمل ہوتی ہے۔ ناقص یقین رکھنے والے، وسوسوں کا شکار دوسروں کی کتابوں سے اپنے سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں، اور پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ موحد کے سوال اگر ملحد کی کتاب میں تلاش کیے جائیں گے تو جواب ایک خوابِ پریشاں کے علاوہ کیا ملے گا؟
خواب ہو یا خیال …… اس کی تعبیر کسی معتبر معبر سے دریافت کرنی چاہیے۔ جس پر اعتبار نہ ہو، اس کے پاس سوال لے کر نہیں جاتے۔ دربدر نہیں پھرتے۔ اپنے سوال کا جواب یا خود دریافت کرو یا پھر کسی جواب یافتہ سے دریافت کرو۔ دونوں طریقے رائج ہیں۔ تشکیک والے سوال بھی جب کسی تسلیم والے کے پاس پہنچتے ہیں اس کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر لیتے ہیں۔ بس! سوال اپنا اپنا …… جس طرح سفر اپنا اپنا ہے، خواب اپنا اپنا ہے اور منزل اور چہرہ بھی اپنا اپنا! ایک مخلص انسان فکر کے جس موڑ پر بھی ہو، اس کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ شرط اخلاص ہے!!
مرشدی واصف علی واصفؒ کا کیا کہنا ہے!
درِ عطا پہ ہوں میں آخری سوال، مگر
اسی سوال کا اک آخری جواب ہوں میں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply