• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔۔نصرت جاوید

بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔۔نصرت جاوید

کئی نسلوں سے میری جبلت کا کلیدی عنصر ہوئی “خوئے غلامی” کی وجہ سے میں اکثر کئی اہم معاملات پر تبصرہ آرائی سے گریز کرتا ہوں۔ قانون اور ضوابط کے تحت نکالے اور اور چلائے اخبار کیلئے لکھتے ہوئے چند محدودات کا ویسے بھی احترام لازمی ہوتا ہے۔ خود کو “حق گو” ثابت کرنے کے چکر میں اپنائی عدم احتیاط صحافتی ادارے کو بالآخر مجبور کردیتی ہے کہ وہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ایسے صحافی کو فارغ کردے۔

اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے ماحول میں یہ فراغت محض وقتی “ہیرو” بناتی ہے۔ خلق خدا کو البتہ “نئے چہرے” مل جاتے ہیں۔ مظہر شاہ کا بڑھک باز انداز سکرین سے غائب ہوجائے تو مصطفیٰ قریشی “نواں آیا اے سوہنیا” ادا کرتے ہوئے رونق لگادیتا ہے۔ اپنی “اوقات” ہر کارکن صحافی کے لئے لہٰذا جلد از جلد دریافت کرلینا ضروری ہے۔

جبلت کا حصہ بنے خوف کے علاوہ “اُکتاہٹ” بھی ایک حقیقت ہے جو سوشل میڈیا کے پھیلائے ہیجان میں تکرار اور یکسانیت کی وجہ سے صحافی کو نئے موضوعات تلاش کرنے کو اُکساتی ہے۔ ہماری روزمرہّ زندگی کے بے شمار حقائق پر توجہ دینا شروع کریں تو عوام کے وافر حصے کے ساتھ کم از کم “دُکھ سکھ پھولنے”والا اطمینان بھی نصیب ہوتا ہے۔ اسی باعث بارہا اس کالم میں مصررہا ہوں کہ “اور بھی قصے ہیں سوشل میڈیا کے سوا”۔ لکھنے والے کی نظر اس جانب بھی لوٹنا چاہیے۔

عمران خان صاحب مگر اپنی ذات اور فرمودات سے توجہ ہٹنے ہی نہیں دے رہے۔ رواں برس کے اپریل میں تحریک عدم اعتماد کی بدولت وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد اپنے دعوے کے مطابق “مزید خطرے ناک” بن چکے ہیں۔ ساڑھے تین کروڑ پاکستانی گزشتہ کئی دنوں سے ریکارڈ بناتے سیلاب کی وجہ سے بے گھر وبدحال ہیں۔ بے تحاشہ مقامات پر غذائی رسد اور فوری طبی امداد پہنچانے میں بھی شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔

تحریک انصاف کے قائد مگر سیلاب سے بچے شہروں میں جلسے پہ جلسہ کئے چلے جارہے ہیں۔ ان کے جلسوں میں موجود افراد کی تعداد اور جنونی جوش بھی دیدنی ہے۔ مذکورہ تعداد اور جوش یہ ثابت کررہا ہے کہ سیلاب سے بچے علاقوں میں”امپورٹڈ حکومت” کے خلاف بھڑکائی آگ عوامی جذبات کو تسکین فراہم کررہی ہے۔ ان کے شہر پہنچ کر براہ راست خطاب کے ذریعے عمران خان صاحب آئندہ انتخاب کے دوران اپنے نامزدہ کردہ افراد کی جیت بھی یقینی بنانا چاہ رہے ہیں۔ وسطی پنجاب میں اس کی بدولت نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کا “ووٹ بینک” فضا میں تحلیل ہورہا ہے۔

بطور سیاستدان عمران خان صاحب اس کا بہت مہارت سے فائدہ اٹھانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ ان کے رویے کو انسانی دُکھوں سے لاتعلق ٹھہراتے ہوئے تنقید کی زد میں لانا سادہ لوحی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت آپ کو تخت یا تختہ والی جنگ کے لئے یکسو ہونے کو مجبور کرتی ہے۔ آپ اپنے “ویری” کی کامل شکست ورسوائی کے علاوہ کسی اور معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ کوئی پسند کرے یا نہیں عمران خان صاحب نے اپنے “ویری” کے خلاف نفرت سے مغلوب ہوا ایک بھرپور جتھہ تیار کرلیا ہے۔ دیکھنا ہوگاکہ وہ کب “لشکر” کی صورت اختیار کرتے ہوئے اسلام آباد پر حملہ آور ہوگا اور پاکستان کو “حقیقی آزادی” کی جانب لے جانا شروع ہوجائے گا۔

گزشتہ چند دنوں سے لیکن مجھے گماں ہورہا ہے کہ “حقیقی آزادی” کا حصول اب عمران خان صاحب کایک وتنہا ہدف نہیں رہا۔ کائیاں سیاست دان کی طرح وہ اپنے حتمی ہدف تک پہنچنے کے لئے مختلف مراحل کی نشان دہی کے بعد انہیں عبور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حتمی ہدف کے تناظر میں رواں برس کا نومبر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینے ریاست کے اہم ترین ادارے کی سربراہی کا فیصلہ ہونا ہے۔ خان صاحب کی لہٰذا اولین ترجیح یہ تھی کہ انہیں اس ماہ سے قبل صاف شفاف انتخاب مل جاتے۔ انہیں کامل یقین تھا کہ مطلوبہ انتخاب ان کی جماعت کو بآسانی دوتہائی اکثریت فراہم کردیں گے۔ اس کی بدولت وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹنے کے بعد ہماری تاریخ کے طاقت ور ترین سیاستدان ثابت ہوں گے۔ ان کے اختیار کا اولین اظہار نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی بدولت بھرپور انداز میں ہمارے سامنے آجائے گا۔

عمران خان صاحب مگر فوری انتخاب کا ہدف حاصل نہیں کر پائے۔ خیبرپختونخواہ میں ان کی جماعت 2013سے برسراقتدار ہے۔ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں انہیں یہ موقعہ 2018میں نصیب ہوا۔ انہیں وزارت عظمیٰ سے فارغ کردینے کے بعد مسلم لیگ (نون) نے پنجاب بھی ان سے چھیننا چاہا۔ طویل سیاسی اور عدالتی کش مکش کی وجہ سے مگر یہ ہدف حاصل نہ کرپائی۔ عمران خان صاحب نے چودھری پرویز الٰہی کو اپنے ساتھ ملا کر پنجاب میں اپنی حکمرانی برقرار رکھی۔ پنجاب میں حکومت کے حصول کے بعد خان صاحب کو وہاں کی سرکاری مشینری اور وسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد پر حملہ آ ور ہوجانا چاہیے تھا جہاں خیبرپختونخواہ اور آزادکشمیر سے فیصلہ کن کمک کا مہیا ہونا پہلے ہی سے یقینی تھا۔

تحریک انصاف نے اس جانب مگر توجہ ہی نہ دی۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے “ووٹ بینک” کو سرکاری سرپرستی میں مستحکم کرنے کی کاوش میں مصروف ہوگئے۔ فرض کیا وہ اگر اب فوری انتخاب کے حصول کی جانب لوٹ بھی آئیں تو نئے انتخاب کے لئے کم از کم اگلے برس کے فروری /مارچ تک انتظار کرنا ہوگا۔ دریں اثناء نومبر2022گزرجائے گا۔ اس مہینے جو “تعیناتی” ہونا ہے وہ وزیر اعظم شہباز شریف کا کامل اختیار ہے۔ ہمارا آئین اس ضمن میں بہت واضح ہے۔ اس میں نئی توجیہات کی گنجائش موجود نہیں۔ آصف سعید کھوسہ صاحب جیسے جید جج بھی جو حقارت سے “حیف ہے اس قوم پہ” کا ورد کیا کرتے تھے “توسیع” کے متعلق اٹھائے سوال کو پارلیمان کے سپرد کرنے کو مجبور ہوئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فوری انتخاب کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے عمران خان صاحب “تعیناتی” کے ضمن میں آئینی اعتبار سے اب قطعاََ غیر متعلق شخص بن چکے ہیں۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے کو لیکن آمادہ نہیں ہورہے۔ اتوار کے دن فیصل آباد میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے “تعیناتی” کے حوالے سے بلکہ “ویٹو” جیسا اختیار اجاگر کرنے کو بے چین سنائی دئے۔ مجھے خدشہ ہے کہ “تعیناتی” کے حوالے سے ہماری ریاست کا طاقت ور ترین ادارہ ایسے اختیار کی طلب ہضم کرنے کو آمادہ نہیں ہوگا۔ عمران خان صاحب نے مگر پتہ کھیل دیا ہے۔ بات چل نکلی ہے دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

Facebook Comments

نصرت جاوید
Nusrat Javed is a well-known Pakistani columnist, journalist, and anchor who writes for the Express News, Nawa e Waqt, and Express Tribune.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply