سانحہ ایبٹ آباد اور پاکستانی سیاستدان۔۔محمد اسلم خان کھچی

2 مئی 2011 کو امریکی صدر باراک اوبامہ نے دنیا کو یہ خبر دی کہ رات 2 بج کر 35 منٹ پر امریکی خفیہ ایجنسی نے پاکستان کے شہر ایبٹ کے ایک کمپاؤنڈ نما گھر پہ حملہ کیا اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تین بیٹوں سمیت شہید کر دیا۔ امریکی ہیلی کاپٹرز نے افغانستان سے اڑان بھری اور پاکستانی ریڈار سسٹم سے اوجھل پاکستانی حدود میں داخل ہوئے اور تقریباً 45 منٹ میں آپریشن مکمل کیا۔جاتے ہوئے تمام شہید افراد کے جسد خاکی بھی ساتھ لے گئے۔ اس آپریشن میں لینڈنگ کے دوران ایک امریکی ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہوا اور ممکنہ طور پہ کچھ امریکی فوجی بھی مارے گئے۔

پاکستانی ائیر فورس اور مسلح افواج کے الرٹ ہونے تک امریکن افواج پاکستان چھوڑ چکی تھیں۔ یہ دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کیلئے چونکا دینے والی خبر تھی۔

حسب عادت پاکستان کے تمام نامور سیاستدانوں اور میڈیا نے بہت شور مچایا اور پاکستانی افواج کی اہلیت پہ بے پناہ سوال اٹھائے گئے۔ حسب عادت پاکستانی خفیہ ایجنسی کی تضحیک کر کے مورال ڈاؤن کرنے کی کوشش کی گئی۔تمام وہ حربے استعمال کئے گئے کہ جس سے فوج کی تضحیک کی جا سکے اور فوج کا مورال ڈاؤن کیا جا سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ملکی تاریخ میں بہت بڑا بلنڈر تھا۔ مکمل سکیورٹی لیپ تھا۔ زرداری حکومت اور جنرل کیانی کو اسکا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ یہ تمام واقعہ حکومت وقت اور پاکستان آرمی کی ملی بھگت سے ہوا ہے۔ حکومتی سازش اور ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹنے میں خواجہ آصف صاحب جو بولنے کے بعد تولتے ہیں, مولانا فضل الرحمان اور اسامہ بن لادن سے ڈیڑھ ارب لیکر  بینظیر صاحبہ کی 28 کروڑ روپے مالیت کی حکومت گرانے والے پیش پیش تھے۔ حالات سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی گئی ،یہاں تک کہ میاں نوازشریف صاحب نے ایک دھمکی آمیز بیان بھی جاری کر دیا کہ تین دن کے اندر اندر ایک عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے اور اسکی رپورٹ پبلش کی جائے۔

کہنے کو تو یہ ایک نارمل ڈیمانڈ تھی لیکن اگر میاں صاحب کی ذاتی شخصیت پہ نظر ڈالی جائے تو اس میں فوج کے خلاف تعصب کی بو آتی ہے۔ میاں صاحب کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہمیشہ سازشی سیاست کے پیروکار رہے ہیں۔ فوج کے کندھوں پہ سوار ہو کے آئے لیکن ہمیشہ موقع ملتے ہی فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ۔جس کی وجہ سے جلاوطن ہوئے۔ در بدر کی ٹھوکریں کھائیں لیکن کبھی فوج کی اہمیت کو تسلیم نہیں کر سکے۔ یہاں پہ میں زرداری صاحب کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دوں گا کہ انہوں نے پانچ سال حکومت کی۔ لاتعداد بحرانوں کے باوجود فوج کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر رہے،بس ایک بار ذرا غلطی ہوئی اور” ٹْن ” ہو کے بیان داغ بیٹھے۔ کچھ عرصہ باہر رہے،لیکن معافی تلافی سے جاں چھوٹ گئی۔

میاں صاحب نے اس بار بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور جوش جذبات میں میں مطالبہ کر بیٹھے کہ فوجی قیادت پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے، لہذا پارلیمنٹ میں آ کے جواب دے۔ فوج پہ بہت پریشر ڈالا گیا۔ جناب یوسف رضا گیلانی صاحب پرائم منسٹر تھے۔ انہوں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے۔ جگ ہنسائی ہوگی۔ لہذا آپ مہربانی فرمائیں لیکن میاں صاحب ہمیشہ کی طرح بضد رہے،بلاآخر ان کا مطالبہ مان لیا گیا۔اور ملٹری کے سینئر جنرلز کو جواب دہی کیلئے طلب کر لیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع  تھا کہ جب آپ کے سکیورٹی اداروں کے کمانڈرز ان پڑھ جاہل ,کرپٹ سیاستدانوں کے سامنے مجرم بنا کے پیش کیے گئے اور یہ تماشا  پوری قوم نے دیکھا۔

14 مئی 2011کو عسکری سربراہان کو طلب کیا گیا کہ وہ پارلیمنٹ کو بتائیں کہ کیسے 2 مئی کو امریکیوں نے ایبٹ آباد میں اتنا کامیاب آپریشن کیا اور پاک فوج کیوں کوئی رد عمل نہ دے سکی ۔
یہ سیشن اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ پہلی مرتبہ پارلیمنٹ جرنیلوں سے سوال پوچھنے جا رہی تھی
آرمی چیف جنرل کیانی ، آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا پارلیمنٹ میں حاضر ہوئے ۔
اس موقع پر سیاستدانوں نے کیا کِیا ۔
یہ جاننا نہایت دلچسپ ہو گا۔۔

ن لیگ کے سربراہ نواز شریف تماشا لگا کے دم دبا کے بھاگ گئے ۔وہ نہ خود پارلیمنٹ میں آئے ،بلکہ اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو بھی اجلاس میں شرکت کرنے سے روک دیا ۔
مولانا فضل الرحمان صاحب جنہوں نے اپنے خطابات سے پورے ملک میں آگ لگا رکھی تھی۔ عین وقت پہ اپنی پارٹی سمیت اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کوئی سوال نہیں پوچھا بلکہ پاک فوج کی تعریف کی ۔ اور قوم سے درخواست کی کہ پاک فوج کا مورال بلند کیا جائے ۔

وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ نقصان کا خطرہ تھا، اس لئے فوری جوابی کاروائی سے گریز کیا گیا ۔
میڈیا میں سوالات اور تنقید کا انبار لگانے والے سیاست دانوں نے عسکری قیادت سے کسی قسم کا کوئی سوال نہیں پوچھا ۔
ایئر چیف نے آفر کی کہ اگر پارلیمنٹ حکم دے تو وہ امریکی ڈرون گرا بھی سکتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے سیاسی قیادت کو اس آفر پہ سانپ سونگھ گیا ۔
پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز میں کالم لکھ کر امریکہ کی تعریف کی ۔

امریکی سینٹر جان کیری اس حملے کے بعد پاکستان آئے ، جنرل کیانی کو مطالبات کی فہرست پیش کی ، پاکستانی سیاسی قیادت سے ملے اور امریکہ جا کر رپورٹ پیش کی کہ پاکستانی سیاسی قیادت نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا۔
تو دوستو! یہ ہے پاکستانی موقع پرست سیاست دانوں کی کارکردگی ۔
جب ان کو موقع دیا جاتا ہے تو یہ کسی بھی کاروائی سے گریز کرتے ہیں اور بعد میں میڈیا کو بلا کر بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ فلاں نے یہ کر دیا اور وہ کر دیا اور ہمیں علم ہی نہیں تھا ورنہ ہم تو بہت کچھ کر سکتے تھے ۔

یقین رکھیے ، یہ کبھی بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ریمنڈ ڈیوس کیس بھی ایسے ہی سیاسی بلنڈرز کی ایک روشن مثال ہے۔۔۔
ہم پاکستانی بڑی بھولی قوم ہیں۔ہمارے پاس شیر کی کھال میں گیدڑ ہیں۔ جنہیں ہم پاکستان کا نیلسن منڈیلا سمجھتے ہیں،دراصل وہی پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔
آجکل ہر جگہ رونا رویا جارہا ہے کہ پاکستان بہت ترقی کر رہا تھا۔
سوچیے بھلا۔۔۔
قرضے کے پیسوں سے بھی ترقی ہوتی ہے ؟ ہم قرضوں کی دلدل میں اتنے دھنس چکے ہیں کہ جس کی قیمت آپکی نسلوں کو چکانی پڑے گی۔ 7400 ارب ٹوٹل بجٹ والا ملک چاند کو تسخیر کرنے کے دعوے کرتا ہے۔

مان جائیے کہ آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے، آپ کی نسلوں کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔ ہزاروں ارب قرضہ لیکر   موٹر وے پہ گاڑی چلا کے خوش ہونے والوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ میٹرو بن گئے۔ میٹرو ٹرینیں بن گئیں لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ سارا قرضہ کون واپس کرے گا۔

یہاں پر تو قرضہ لیکر  شادی کرنے والے کے بچے اپنے باپ کی شادی کا قرض اتارتے رہتے ہیں، یہی سچائی ہے۔

آپ نکال دیجیے عمران خان کو۔۔نواز شریف آئے گا اور دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گا۔ چاہے موٹر وے گروی رکھ کے ایسا کرنا پڑے۔
کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر بچے بھوک سے مر جائیں گے لیکن عمران خان سے نفرت تو پوری ہو جائے گی۔

سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کس ڈگر پہ چل رہے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی ذہنی صلاحیت کھو دی ہے، یا ہم صرف نام کے  تعلیم یافتہ  ہیں۔ 70 سال کی تباہی کو پل بھر میں ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارا پیسہ  لوٹنے والے ڈاکوؤں کو کچھ نہ کہا جائے۔ وہ ہمارے مائی باپ ہیں۔

کیا ہو گیا ہے اس قوم کو۔۔۔ کیوں ذہنی تنزلی کا شکار ہے ؟
اپنے حصے کا کام کوئی نہیں کرتا، رشوت لینے والا رشوت لے رہا ہے۔۔۔ خودساختہ مہنگائی عروج پہ ہے۔ ہر آدمی شارٹ کٹ کے چکر میں ہے۔ٹیکس دینے کو گناہ سمجھا جاتا ہے، لیکن عمران خان کو گالیاں دی جارہی ہیں کہ وہ قرضہ کیوں نہیں اتار رہا۔
31 ہزار ارب روپیہ پاکستانی سکہ رائج الوقت،ذرا گن کے تو دکھائیں۔۔۔ کتنے پیسے سابقہ حکومتوں نے لیے  اور ان پہ کتنا سود دینا پڑتا ہو گا۔

یہ پیسے ہم سب نے کھائے۔۔۔ ہم نے اپنی آسائشوں کیلئے موٹر وے بنائے کہ ہماری گاڑی کا نقصان نہ ہو۔میٹرو بنائیں کہ ایر کنڈیشنڈ بس میں سفر کرنا ہے ۔میٹرو ٹرین بھی بنا دی،لیکن روزگار نہیں دیا۔ تعلیم نہیں دی, عقل شعور سے عاری رکھنے کی کوشش کی, چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیپ ٹاپ دیا تاکہ وہ انٹرنیٹ پہ دنیا سے کنیکٹ رہیں۔۔صحراؤں میں اربوں روپے لاگت سے دانش سکول بنا دیئے کہ یہاں ہم سائنس دان پیدا کریں گے لیکن بچے اکٹھے نہیں ہو رہے اور سکول ویران پڑے ہیں۔

ڈیم نہیں بنائے, ہسپتال نہیں بنائے, پرائمری سکول نہیں بنائے, ہائی سکول نہیں بنائے, کالجز نہیں بنائے, میڈیکل کالجز نہیں بنائے,یونیورسٹیز نہیں بنائیں۔بزنس مین حکمرانوں نے تعلیم کو بھی پرائیوٹ بزنس بنا دیا۔

بلکہ پرائیویٹ سیکٹرز میں پارٹنرز بن کے انہیں پروموٹ کیا کہ غلام اور آقا کا فرق قائم رہنا چاہیے، اور یہی انکی کامیابی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے عمران خان سے کوئی ہمدردی نہیں لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سابقہ حکمران ہی اس ملک کو ترقی کی راہ پہ گامزن کر سکتے ہیں تو اسکی اس بہیمانہ اور ظالم سوچ پہ افسوس کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر یہ سچ ہے کہ آپ اسی قابل ہیں۔ غلام پیدا  ہوئے ہیں اور غلام ہی مریں گے اور آئندہ نسل بھی ان کی غلامی کرے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply