بدن (24) ۔ کان (۱)/وہارا امباکر

کسی کی نرم سرگوشی، ہوا کی سرسراہٹ، نلکے سے ٹپکتے قطرے کی آواز، چڑیا کی چہچہاہٹ، موسیقار کی دھن، بارش کے پتوں پر گرنے کا شور ۔۔۔ ہماری دنیا آوازوں کی خوبصورتی سے لدی پڑی ہے اور سماعت کا یہ معجزہ محض تین چھوٹی سی ہڈیاں، باریک سے مسلز اور لیگامنٹ، نازک سے جھلی اور چند اعصابی خلیات ممکن بناتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کان کے تین حصے ہیں۔ اس کا سب سے باہر والا حصہ سر کی دونوں اطراف پر لگا ہے جس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس کا ڈیزائن کچھ عجیب سا ہے۔ اگر کوئی انجنئیر اسے ڈیزائن کرتا تو کوئی بڑی اور سخت چیز بناتا۔ جیسا کہ سیٹلائیٹ ڈش۔ لیکن کانوں کے یہ گداز چکر گزرتی آوازوں کی لہروں کو پکڑنے میں بہت موثر ہیں۔ اور اس سے زیادہ یہ معلوم کرنے میں کہ آواز آئی کہاں سے ہے تا کہ یہ فیصلہ لیا جا سکے کہ توجہ کہاں دینی ہے۔ اگر کسی محفل میں کہیں پر آپ کا نام لیا جائے تو نہ صرف آپ اس شور میں اسے سن لیتے ہیں بلکہ اپنا سر اس جانب موڑ کر بولنے والے کی ٹھیک شناخت کر لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک کے کان منفرد ہیں۔ ویسے ہی جیسے انگلیوں کے نشان۔ لیکن خواہ کان کی لویں لٹکی ہوں یا ساتھ جڑی ہوئی، کوئی بھی ڈیزائن ہو ۔۔۔ تمام کان ایک ہی طرح فنکشن کرتے ہیں۔
بیرونی کان سے اندر کان کی نالی ہے۔ یہ ایک تنے ہوئے اور سخت ٹشو پر ختم ہوتی ہے جسے tympanic جھلی یا عام زبان میں کان کا پردہ کہا جاتا ہے۔ یہ باہری کان اور درمیانے کان کے درمیان کی سرحد ہے۔ یہاں ہونے والا ارتعاش تین ہڈیوں کو منتقل ہوتا ہے۔ یہ جسم کی سب سے چھوٹی ہڈیاں ہیں اور انہیں مجموعی طور پر ossicles کہا جاتا ہے۔ ان کے انفرادی نام malleus, incus, stapes ہیں۔ یہ ارتقا کے عمل کی ہوشیاری کی زبردست مثال ہیں۔ ارتقا کے عمل میں دستیاب مادہ نت نئی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ یہ قدیم جانداروں میں جبڑے کی ہڈی سے رفتہ رفتہ سفر کرتے اندرونی کان کی جگہ سنبھال لی ہے۔ اپنی تاریخ میں ان ہڈیاں کا سماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ان ہڈیوں کا کام آواز کو بڑھا کر کوکلیا (cochlea) کے ذریعے اندرونی کان تک پہنچانا ہے۔ کوکلیا میں بالوں کی طرح کی 2700 نازک تاریں ہیں جنہیں سٹیریوسیلیا کہتے ہیں۔ جس طرح سمندری گھاس سمندر کی لہروں کے ساتھ لہراتی ہے، ویسے ہی یہ آواز کی لہروں کے ساتھ۔
ان تمام سگنلز کو دماغ اکٹھا کر کے یہ اخذ کرتا ہے کہ اس نے سنا کیا ہے۔ اور یہ بڑی چھوٹے پیمانے پر ہوتا ہے۔ کوکلیا سورج مکھی کے بیج سے بڑا نہیں ہے۔ تینوں ہڈیاں ملا کر قمیض کے بٹن پر پوری آ جائے اور پھر بھی یہ سب زبردست طریقے سے کام کرتا ہے۔ کان کے پردے پر خفیف پریشر ویو ۔۔ جو اسے ایک ایٹم کی چوڑائی سے کم فاصلے تک حرکت دے ۔۔ اوسکلیز کو فعال کر دیتی ہے اور یہ دماغ میں صوتی لہر بن کر پہنچتی ہے اور یہ ہمیں سنائی دی جانے والی آواز ہے۔
اور یہ کام اس سے بہتر طریقے سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ آواز کے ماہر سائنسدان مائیک گولڈسمتھ کہتے ہیں۔ “اگر ہم اس سے زیادہ خفیف آواز سن سکتے تو ہم مسلسل شور کی کیفیت میں رہ رہے ہوتے۔ کیونکہ اس صورت میں ہوا کے مالیکیولز کی رینڈم حرکت سنائی دی جاتیں۔ ہماری سننے کی صلاحیت کا ڈیزائن موجودہ سے بہتر نہیں کیا جا سکتا تھا”۔ ہماری سننے کی رینج بھی وسیع ہے۔ کم سے کم سنائی دی جانے والی آواز سے اونچی آواز میں ایک ہزار ارب گنا کا فرق ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply