پنجاب دھرتی کی پکار(حصّہ اوّل)۔۔حسن رانا

پنجاب کی یکطرفہ تقسیم کا ظلم:

انگریز کے دور سے اب تک پنجاب کی پانچویں بار تقسیم کی  نئی  کوشش و خواہش:
حصّہ اوّل:

پنجاب دھرتی کی تقسیم کی خواہشات و کوششیں کافی عرصہ سے چل رہی ہیں۔ اس شور میں پچھلے چند برسوں میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوا ہے۔

اصول اور انصاف کی بات تو یہ ہوتی کہ جتنے فیصد علاقہ پنجاب کا کاٹ کر علیحدہ صوبہ بنانا ہے، ساتھ اتنے ہی فیصد علاقے باقی تین صوبوں سے کاٹ کر وہاں بھی تین نئے  صوبے بنائے  جائیں، ورنہ اکیلے پنجاب کو توڑنا صرف پنجاب دشمنی اور نسلی و صوبائی  تعصب کہلاتا ہے، اور تحریک انصاف و پیپلزپارٹی دونوں اس تعصب میں ملوث ہیں۔
جبکہ نون لیگ اور قاف لیگ بھی اصولی اور واضح موقف نہ اپنا کر اس جرم و ناانصافی میں برابر کی شریک ہورہی ہیں۔

سیکرٹریٹ بھی یا تو چاروں صوبوں میں چار علیحدہ بنائے جاتے، ورنہ اکیلے پنجاب میں وہ بھی اسمبلی و سینٹ سے دوتہائی  ووٹوں کی منظوری کے بغیر غیرقانونی سیکرٹریٹ بنانا صرف تعصب ہے پنجاب کے خلاف۔

چونکہ علیحدہ سیکرٹریٹ بنانا علیحدہ صوبے سے جڑا ایک قدم ہے کیونکہ اس کے جو سول عہدے تخلیق کیے گئے ہیں پولیس سمیت وہ سب عہدے ایک علیحدہ صوبے کے ہوتے ہیں، لہذا کیا کسی اصول پرست بندے نے سوال اٹھایا کہ آئین کے تحت ایسے اقدام کے لیے متعلقہ صوبائی  اسمبلی، وفاقی اسمبلی اور سینٹ سے ہر جگہ دوتہائی  ممبران اسمبلی وسینٹ کے ووٹوں سے منظوری لینا لازمی ہے، جو نہیں لی گئی ، اس لیے یہ سیکرٹریٹ اور اس کے عہدے غیرقانونی و غیرآئینی ہیں۔ لیکن چونکہ یہ پنجاب کی یتیم دھرتی ہے اس لیے اس کے ساتھ نانصافی پر آواز نہیں اٹھتی۔

مگر ہم پنجاب دھرتی کے سپوت کے طور پر اس غیرقانونی غیرآئینی سیکرٹریٹ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہیں گے اس کے عہدوں سمیت، کیونکہ غیرآئینی ہونے کے ساتھ ساتھ اس سیکرٹریٹ کی کوئی  انتظامی ضرورت اور وجہ بھی موجود نہیں جس پر تفصیلی بات اس تحریر میں آگے کی گئی  ہے، لہذا یہ سیکرٹریٹ اور اس کے عہدے پنجاب کے پہلے سے محدود بجٹ پر صرف ایک بوجھ ہیں اس لیے ان کا خاتمہ ضروری ہے، یہ ہی پیسے عوام پر لگائے جاسکتے تھے۔

اگر اب بھی پنجاب سے ناانصافی پر ہمارے بزرگ، اساتذہ اور دوست نہ بولے تو پھر صم بکم، آپ لوگ پاکستان سے کشمیر اور مزید پانچ دریا چھن جاتے وقت خاموش رہے یا تاویلات و دفاع کرتے رہے اسٹیبلشمنٹ و مختلف سیاسی لیڈران کے حق میں۔۔ اب اپنے صوبے کے حق میں تو بولیں۔
اسٹیبلشمنٹ سے بھی پنجاب کے پھیلتے شہروں کا ووٹ کنٹرول نہیں ہورہا تو اب جاگیرداروں کا نیا صوبہ بنا کر اسے اپنے کنٹرول میں لانا چاہتی ہے. جبکہ پی پی پی اور پی ٹی آئی  کو بھی پنجاب کی تقسیم کی صورت جنوب کے جاگیرداروں کی شکل میں حکومتیں بنانے کی امید ہے۔

خوگر دو قومی نظریہ سے کافی سارا شکوہ بھی سن لے،

پنجاب کو ہر کوئی  مندر کے گھنٹے کی طرح بجاتا جارہا۔
عبداللہ بھٹی اور راۓ احمد خاں کھرل کے پنجاب کو جاگنا ہوگا، اپنی دھرتی کا وارث بننا ہوگا، اس کو ری کلیم کرنا ہوگا-

حصہ دوم:
پنجاب جو کبھی دہلی تا کابل اور کشمیر تا کشمور ایک لسانی و جغرافیائی  حقیقت تھا، یہ ہی وہ دھرتی ہے جہاں سے ہڑپہ  یا سپت سندھو دھرتی کی تہذیب کا آغاز ہوا جسے بعد میں پنج ندا اور دیگر کئی  ناموں سے پکارا گیا جو اس خطے کی تمام تہذیبوں کی ماں ہے جس  میں کشمیری سندھی اور مہرگڑھ کے براہوی و جاتکی وغیرہ سب شامل ہیں۔
، پنجاب یعنی پنج آب پانچ دریاؤں ستلج راوی چناب جہلم سندھ اور ان کے معاون دریاؤں بیاس، جموں توی، پونچھ، نیلم، سواں, کنہار, ہرو، کابل وغیرہ اور ان سب کی معاون ندی نالوں چشموں وغیرہ کی سرزمین، موجودہ افغانستان کے بھی بہت سارے علاقوں پر ہندکوہ و دیگر پنجابی آباد و حکمران تھے، جس کی لسانی شناخت و وسیع جغرافیہ ہزار سال قبل کابل سے پرے سے آنے والے حملہ آوروں کے حملوں کے بعد سے مسلسل سکڑتا و تبدیل ہوتا رہا، پھر انگریز نے اس کو ایک بار بھر تقسیم کرکے صوبہ سرحد نکالا، پھر پاکستان بنتے وقت سکھ مذہبی قیادت، یونیسنٹ و کانگریسی اتحادیوں کی وجہ سے انگریز کی ناانصافی کے باعث تقسیم ہوا، پھر مشرقی پنجاب کو بھارت نے مزید تقسیم کیا، اور اب پھر سے نسل پرست تعصبی اشرافیہ پنجاب کی تقسیم کے درپے ہے۔ باقی تعصبی وجوہات سمیت ایک وجہ جنوب کے جاگیردار سیاستدانوں کا وہ خوف بھی ہے جو ان کو پنجاب کے پھیلتے شہروں سے ہے کہ اس وجہ سے ان کی چودھراہٹ و جاگیر خطرے میں یا بے اثر ہوجاۓ گی۔

پنجابی زبان کے لہجوں میں ماجھی مالوی جٹکی جھنگوچی رچنا دوآبی ملتانی ریاستی ڈیرہ والی تھلوچی چولستانی ہریانوی رانگھڑی ڈوگری پہاڑی ہندکوہ چھاچھی پوٹھوہاری کوہاٹی ہزارہ سمیت کئی  دیگر  لہجے شامل ہیں۔

آخر ہم پنجاب دھرتی کی مزید تقسیم کے مخالف کیوں ہیں۔ خاص کر وہ پیارے دوست اور بھائی  جو نام نہاد انتظامی صوبے کے فریبانہ نعرے سے بہک رہے ہیں وہ ضرور غور فرمائیں۔
بہت ساری دوسری وجوہات سمیت ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب کو توڑ کر نیا صوبہ جو بنے گا یہ علاقائی  سرائیکی قوم پرستوں اور وہاں کے جاگیرداروں کے مشترکہ ایجنڈے کا گڑھ بنے گا، جہاں تمام غیرسرائیکی افراد کو دیوار سے لگایا جائے گا، ان کی زمینیں، جائیدادیں جان و مال غیرمحفوظ بنے گا، غیرسرائیکی یعنی پنجابی کے جٹکی، رانگھڑی، ہریانوی، ماجھی، مالوی، رچناوی،تھلوچی وغیرہ لہجوں والے افراد۔ جبکہ سرائیکی کا نام پنجابی زبان کے تین لہجوں کو دیا گیا ساٹھ کی دہائی  میں ایک نجی محفل میں، جسے جنرل ضیاءالحق نے بعد میں سرکاری کاغذات میں علیحدہ زبان قرار دیا۔ تین لہجے ملتانی، ریاستی، ڈیرہ والی۔

اور وہ سرائیکی افراد بھی ظلم کا نشانہ بنیں گے جو وہاں کے قوم پرستوں اور جاگیرداروں کے ایجنڈے کی حمایت نہیں کریں گے۔
جس طرح بلوچستان یعنی مہر گڑھ صوبہ بی ایل اے بی آر اے جیسے گروپس اور ایرانی کرد سرداروں کے ہاتھ یرغمال ہے، جس طرح سرحد میں ہندکوہ پنجابی، چترالی اور ڈیرہ وال زبانیں اکثریت سے اقلیت بناکر ڈیموگرافی تبدیل کردی گئی ، جس طرح اندرون سندھ قوم پرست گروپس اور جاگیرداری مضبوط ہے اور سماٹ سندھی کے اوپر عرب شاہ اور ایرانی کرد مسلط ہیں، اسی طرح اگر پنجاب ٹوٹا تو یہ ہی حال ملتان سے لیکر بہاولپور و رحیم یار خان اور ڈیرہ غازی خان و راجن پور تک ہوگا، اس لیے جو پیارے بھائی  اور دوست نام نہاد انتظامی صوبے کے فریب کے پیچھے بہہ رہے ہیں وہ وقت سے سنبھل جائیں اور پنجاب دھرتی کی مزید تقسیم کی مخالفت کریں۔

ایک اور حیرت انگیز بات یہ بھی قابل غور ہے کہ کئی  لوگ جو ویسے تو بہت جمہوریت کے چمپئن اور فوجی آمریت کے مخالف بنتے ہیں لیکن ایک فوجی آمر ضیاءالحق کی جانب سے پنجابی زبان کے تین لہجوں ملتانی ریاستی ڈیرہ والی کو سرائیکی نام کے ساتھ سرکاری کاغذات میں علیحدہ زبان قرار دینے کے فیصلے پر ان نام نہاد جمہوریت کے علمبرداروں اور آمریت مخالفین کو کوئی  اعتراض نہیں ہوتا۔ بھٹو صاحب کی سویلین حکومت اور ان کے دور کی منتخب پارلیمنٹ کو بھی یہ خیال نہ آسکا کہ یہ ایک علیحدہ زبان ہے۔ لہذا غور کریں کہ عوام کو تقسیم کرنے کے لیے یہ فیصلہ فوجی حکومت نے کیوں کیا۔

جبکہ اس حوالے سے بہت سے سرائیکی قوم پرستوں کا دوہرا معیار بھی ملاحظہ ہو، کہ یہ پنجاب میں علیحدہ صوبہ چاہتے ہیں لیکن سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں ایسا نہیں چاہتے، پنجاب میں سرائیکی کو علیحدہ زبان و قوم قرار دیتے ہیں لیکن سندھ اور بلوچستان میں اسے سندھی اور بلوچی قوم کا حصہ قرار دیتے ہیں، گویا ان کی نظر میں پنجاب کےراجپوت گجر اٹ شیخ  آرائیں صرف مختلف لہجے بولنے کی وجہ سے علیحدہ قوم ہیں، لیکن اگر بلوچستان اور سندھ میں علیحدہ لہجے بولیں تو ایک ہی قوم ہیں۔ ان کی نظر میں پنجاب کی سرائیکی علیحدہ زبان و قوم ہے لیکن سندھ بلوچستان کی سرائیکی ایک ہی زبان و قوم ہے۔

یہ پنجاب میں اپنی مرضی کے علاقوں کے لیے وسیب کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن شمالی سندھ، جنوبی خیبرپختونخواہ اور مشرقی بلوچستان کے لیے وسیب کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ حالانکہ وہاں بھی سرائیکی لہجہ بولا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply