مندر یا مسجد: بات ہے اصول کی۔۔حسان عالمگیر عباسی

میں سمجھتا ہوں دین جذبات کی قدر کرتے ہوئے  ‘اصول’ کو فوقیت  دیتا ہے۔ معاشرتی برائیوں اور مذہبی روایت پرستی نے ہمیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ہمیں دین ،دماغ اور لاجکس کی ضرورت محسوس ہو۔ دین لاجیکل ہے جبکہ مذہب چند رسومات کی ادائیگی تک محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت سے اسلام ممتاز ہے۔ یہ اسلام کسی مخصوص وقت میں خدا کو یاد کر لینے کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر لمحہ خدا کے بتائے ہوئے اصولوں کو محور ماننے کا نام ہے۔

اصول یہ ہے کہ مندر کی حفاظت قرآن نے خود لی ہے۔ اس آیت کا نزول مندر کی حفاظت کے لیے کافی ہے کہ ‘لا اکراہ فی الدین’ یعنی دین جبر کا نہیں بلکہ دماغ سے سوچنے سمجھنے پرکھنے اور پھر اگر سمجھ آئے تو اسلام کو اپنانے یا ترک کرنے کا نام ہے۔ کسی کو زبردستی مسلم بنایا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ مسلم کا مطلب ہی سر تسلیم خم اور فرمانبرداری کا ہے۔ آپ ایڑی چوٹی  کا زور لگا لیں لیکن زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنا سکتے۔ آج کا مسلمان بظاہر ‘عبداللہ’ اور حقیقتاً ‘رام داس’ ہے۔ ہم نے اسلام کو منتخب نہیں کیا بلکہ مسلم گھرانے میں پیدائش تک اسلام سے رشتہ ناطہ ہے ورنہ ایسا کبھی نہ ہو کہ نمازی حضرات کے پڑوسی ان کی موت کے لیے ہاتھ اٹھائے بددعا کر رہے ہوں۔

ہم ملاوٹ ،حق تلفی اور دکھ و تکلیف دینے کو اسلام سے باہر سمجھتے ہیں اور مندر میں موجود بتوں کی مسماری ہمارا دین اور ترجیح ہے گویا جو آیت اچھی لگے اس پہ ایمان اور جو مشکل ہو اس کا کفر کرتے ہیں [افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض]۔

دوسروں کی قبر کی فکر میں اپنی آخرت بھول کر سمجھ رہے ہیں کہ نماز بچا لے گی۔ اگر ایسا ہے تو خدا نے اس کو کیوں عذاب کا زیادہ مستحق قرار دیا جو خود تو متقی بنا پھرتا ہے لیکن اس کو دنیا اور دنیا والوں کی فکر نہیں کھاتی؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم رہبانیت اپنائے دنیا (حقائق) سے دور اپنے سیاسی و مذہبی بابوں کی پوجا پاٹ میں بھول گئے ہیں کہ دنیا کے معاملات کن شریر لوگوں کے پاس ہیں۔

اصول یہ ہے کہ مندر کی حفاظت اسلام کے سپرد ہے کیونکہ ہمیں نہیں ملتا کہ بتوں کو پاش پاش کیا گیا ہو البتہ مکہ و مدینہ اسلام کا دارلخلافہ ہے اور وہاں اس قسم کا شرکیہ اڈا نہیں کھولا جا سکتا کیونکہ ارشاد ہے کہ ‘لا یجتمع دینان’ یعنی یہاں مختلف دین جمع نہیں ہو سکتے۔ بتوں کو پاش پاش تو دور یہ آیت ‘لا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللّٰہ عدوا بغیر علم’ ہمیں بتاتی ہے کہ ان بتوں کو گالی بھی نہیں دینی کیونکہ ممکن ہے وہ اصل خدا کو لا علمی میں برا کہنے لگ جائیں۔

اصول یہ ہے قومی ریاستی نظریہ یا نیشن اسٹیٹ تھیوری کی رو سے تو کوئی ریاست اس چیز کی متحمل ہو سکتی ہے کہ اپنی جیب خرچ سے یعنی عوام کے پیسوں سے مساجد ،کلیسا یا مندر بنائے جیسا کہ دنیا میں سیکولرازم کی رو سے مذہبی آزادی کی بنا پر اس چیز سے قطع نظر کہ ریاست مسلم ہے یا غیر مسلم ،تمام حضرات کو عبادات میں کسی قسم کی ٹوک نہیں ہے۔ جب ہم مساجد کی بات یورپ میں کر رہے ہیں تو ردعمل یہی ہوگا کہ دوسرے مذاہب پاکستان میں بھی اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے کا حق مانگیں گے۔ ہم قومی ریاستی نظریے کو مانتے ہوئے اور امت مسلمہ کا ‘نظریہ یک جہتی’ کب کا رد کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے لیے محض قرارداد لانے کے لیے ضروری ووٹس بھی امتیوں نے ہمیں نہیں دیے ۔

اس نظریے یعنی سیکولرازم (چونکہ اسلام بحیثیت دین یا نظام اجنبی ہے)کی رو سے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مندر نہ بنے؟

سیکولرازم یا قومی ریاستوں کے مقابل اگر مسلمان فرقہ واریت سے آزاد ہو کر سوچتے ہیں اور اسلام کا بحیثیت دین لوہا منوا لیتے ہیں تو اصول مختلف ہوں گے۔ پھر یہ ہو گا کہ اقلیتوں سے ‘ذمی محصولات’ لیے جائیں گے اور ان کی عبادت گاہیں محفوظ بنائی جائیں گی اور مذہبی آزادی کو یقینی بنا کر اسلام کا اصل چہرہ سامنے لایا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو گا کہ مسلمانوں کے محصولات سے شرک کے اڈے کھولے جائیں گے کیونکہ یہ ‘تعانوا علی الاثم و العدوان’ یعنی برائی اور گناہ میں حصہ داری اور تعاون ہو گا۔ ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت اس لیے کی جائے گی کیونکہ یہ اسلام بحیثیت نظام اس چیز کا مکلف ہے۔

حضور ﷺ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اسلام اجنبی تھا اور اجنبی ہو جائے گا۔ آپ کو بڑی بڑی مساجد کی شان و شوکت ،حفاظ کی بڑھتی تعداد ،پردہ پوشی ،اسلام دوسرا بڑا مذہب یا اس طرح کی دوسری چیزیں دھوکا دے سکتی ہیں کہ اسلام تو اجنبی نہیں ہے لیکن اسلام خلافت کے تیس سال بعد سے اب تک اجنبی ہی ہے۔

اگر روزے ،نوافل اور جج ہی اسلام ہے تو اس اسلام کی پیشن گوئیاں موجود تھیں کہ بڑی بڑی شان و شوکت کے ساتھ مساجد ہوں گی لیکن مساجد سے اونچی اونچی آوازیں آئیں گی۔ ہمیں علماء فرماتے ہیں کہ  بچوں کی اونچی آواز مساجد میں نہیں ہونی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے ،ان علماء کی دوسرے مسالک کے علماء کو گالیاں دینا اور منبر کو فرقہ واریت کے لیے استعمال کرنا اس سے مراد ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے روایت یا مذہب تو بڑی بڑی شان و شوکت والی مساجد کو بنانے کا قائل ہے لیکن دین مساجد کی تعمیرات میں اتنا پیسہ خرچ کرنے کی بجائے عوامی خوشحالی کی طرف مائل لگتا ہے۔ یہ غلاموں ،پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق پہ زور دیتا ہے۔ ان پر مال کو خرچ کرنے اور دفاعی مضبوطی کا قائل ہے۔ جب مساجد پہ پیسوں کا غلط اور بے دریغ استعمال اسلام کی رو سے غلط ہے تو کرتار پور پہ لاچار غریب مسلمانوں کا اربوں روپیہ خرچ کرنا کس شق کی رو سے درست عمل ہے۔ ہمارے ٹیکسز سے اتنے بڑے پیمانے پر بے دریغ شرک کے  اڈے پہ خرچ کیونکر صحیح ہے؟

اگر یہاں بازار میں موجود جامع مسجد پہ کروڑوں پیسہ لگانے کی بجائے گاؤں کی خوشحالی پہ لگایا جاتا تو کیا کسی کا گھر ہوتا جس کی چھت نہ ہوتی؟ کیا کوئی بھوکا سوتا؟ مسجد پہ خرچ سے کیا ہوگیا؟ غریب مسجد کے خوبصورت مینار اور تعمیر دیکھ کر پیٹ کی آگ بجھائے؟ اسلام آباد میں مندر سے زیادہ کیا ہندوؤں کے موجودہ عبادت گاہوں کو محفوظ بنانا ضروری ہے یا لاکھوں روپیہ ایک نئے مندر پہ خرچ کرنا جہاں بتوں کو پوجنے بھی شاید کوئی نہ آئے ،خرچ لازم ہے؟ تو بات ہے اصول کی۔

اصول یہ ہے کہ بھوک کا بندوبست ہونا چاہیے ،تن کو ڈھانپنے کی ضرورت ہے ،یتیم کی کفالت اہم ہے ،بیوہ کے سر پہ ہاتھ رکھنا افضل ہے اور بے بس اور مجبور نوجوانوں کی شادیاں ضروری ہیں۔ مسجد تو کچی ہی ٹھیک ہے ،نماز تو وہاں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جماعت اسلامی نے اصول کی بات کی ہے۔ ہم لاک ڈاؤن میں ہندؤں کے مندروں میں گئے ،سکھوں کو فوڈ پیکجز دیے ،مندر کو جراثیم کش کیا اور کل ہی کی خبر ہے کہ پشاور میں سکھوں کی میتیں الخدمت ایمبولینس میں لے جا کر متعلقہ جگہوں تک پہنچائی گئی ہیں۔ تو یہ ہے کرنے کا کام۔ اس پہ بات ہونی چاہیے۔ مندر ،مسجد اور دیگر عبادت گاہیں پہلے ہی ڈھیر ہیں جہاں عبادت کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ تو بات ہے اصول کی!

Facebook Comments