کورونا وائرس اور سوشل میڈیا۔۔عدیلہ ذکا بھٹی

نوول کرونا وائرس کا مرض پوری دنیا میں پھیل چکا ہے جس نےدنیا بھر کے ممالک کی صحت، معشیت اور استحکام کو شدید خطرات سے دوچار  کیا ہے۔
آپ نے گزشتہ مہینوں کے دوران کروناوائرس کے حوالے سے بہت کچھ سنا ہو گا۔اس وائرس نے کسی بھی دوسرے مرض یا آفت کی نسبت لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے انہیں گھروں پر رہنے  پر مجبور تو کیا ہی ہے ساتھ ہی اس سلسلے میں لوگوں کا وائرس پر قابو پانے کے لیے الگ تھلگ رہنا اور جسمانی رابطہ سے گریز بھی ضروری ٹھہرا، لہٰذا لوگوں نے تعلقات کو برقرار رکھنے، وقت گزارنے اور تفریح تک رسائی کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کیاہے۔

کالجوں،یونیورسٹیوں کی بندش کے بعد تعلیم کو ڈیجیٹل میڈیم میں منتقل کرنا، کاروباری سرگرمیوں ، دوست رشتہ داروں سے بات چیت، تفریح وغیرہ کے سلسلے ،لوگوں کا سوشل میڈیا کا استعمال ۴گھنٹوں سے تجاوز کر گیا ہے جو عام اوقات سے ٧٦% زیادہ ہے۔ وبا سے پہلے کے مقابلے، خاص طور پر مارچ کے تیسرے ہفتے میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے رجسٹرڈ صارفین کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے،جنہوں نے ما ئیكروسافٹ ٹیمس،ذوم،كلاوڈ میٹنگ وغیرہ گوگل پلے اور ایپ سٹور سے ٦٢١ ملین بار ڈاون لوڈ کی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا آج کل خبريں شیئر کرنے کا بہترین ذریعہ ہے (کچھ لوگوں کے لیے تو واحد راستہ بھی ہو سکتا ہے )۔خاص طور پر جب آپ لوگوں کو کسی بہت ہی سنجیدہ چیز سے متبّنہ کرنا چاہتے  ہوں ،چاہے وہ انفرادی ریاستوں کی کوویڈ ١٩ کی خبر ہو یا قومی دائرہ کار سے متعلق خبریں، کوویڈ١٩ کے متعلق سیفٹی ٹپس ہوں یا لوگوں کا آپس میں پر امن اور تعمیری تبادلہ خیال،الغرض سوشل میڈیا خبريں پہنچانے کے لیے بہت اچھا ہے۔لیکن بد قسمتی سے بعض واقعات کے حوالے سے  سوشل میڈیا اتنا ہی بُرا ثابت ہو سکتا ہے جتنا کہ  اچھا !

مثلاًجیسے اس وبائی دور میں، وائرس سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس میں ایسے دعوے کیے جا رہے ہیں جو حقیت سے کوسوں دور ہیں اور لوگوں میں وائرس سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔آج کل لوگ فیس بک،یوٹیوب، انسٹاگرام جیسے چینلز کے ذریعے ميسّر معلومات سے حیران و پریشان ہیں کیوں کہ  ان کے لیے یہ طے کرنا بڑا مسئلہ ہے کہ  کونسی خبر قابل اعتماد ہے۔
بہت سارے لوگ تو وائرس کے متعلق غیراراداتاً غلط معلومات بانٹ رہے ہیں کیوں کہ  وہ سوچنے  اور تحقیق  کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ  مواد درست ہے یا نہیں۔
ہم نا صرف ایک بیماری میں رہ رہے ہیں بلکہ “انفیوڈیمک” میں بھی جی رہے ہیں جہاں جعلی خبریں عام ہوتی جا رہی ہیں ۔

میں پچھلے کچھ مہینوں سے سوشل میڈیا پوسٹس کا مطالعہ کر رہی ہوں جہاں بہت سے لوگ اپنی ذہنی حالت کے مطابق کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے نسخے اور علاج تجویز کر رہے ہیں۔ نمکین پانی سے ناک دھونے سے وائرس سے بچاؤ  سے لے کر سنامكی کا قہوہ،لہسن،وہسکی،اور گرمی کی شدّت سے وائرس کا خاتمہ،مچھر سے وائرس کی منتقلی اور نمونیا سے بچاؤکے استعمال سے وائرس کے خا تمے تک کے نسخےآنکھوں کے سامنے سے گزرے۔اس طرح کے غلط عقائد اور غلط معلومات کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسےہی ایرانی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے “میتھانول” سے وائرس کے خاتمے کے خیال کو فروغ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  ٣٠٠سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے  اب لوگوں پر منحصر ہے کہ  وہ اسے افواہوں کے لیے استعمال کرتے ہیں یا قابلِ عمل اور قابلِ اعتماد باتوں کے لیے!!
تاہم صحتِ عامہ کی تنظیموں کو سوشل میڈیا پر موثر مواصلات کی خبر رکھنی چاہئیے تا کہ اس بات کی نگرانی کی جا سکے کہ عوام کو کونسی افواہوں،نظریات سے زیادہ پریشانی کا سامنا ہے اور مختلف علاج اور بیماریوں کے بارے میں کیا سمجھا جاتا ہے یا معاشرے میں کونسی خرافات گردش کر رہی ہیں اور کونسی سرگرمی کو فروغ دیا جا رہا ہے تا کہ اس کے مقابلے میں حکمت عملی تیار کر سکیں۔

Facebook Comments

Adeela Zaka bhatti
Mphil scholar department of sociology Qau Islamabad

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply