• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے بلنڈرز ( حصہ سوم)۔۔عامر کاکازئی

مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے بلنڈرز ( حصہ سوم)۔۔عامر کاکازئی

کشمیر کے لیے سیاسی ، سفارتی کوششیں اور حماقتیں

چودھری محمد علی صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ دہلی میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں انڈیا کی طرف سے نہرو اور سردار پٹیل، جبکہ پاکستان کی طرف سے وزیر اعظم رانا لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی شامل تھے۔ اس میٹنگ میں لیاقت علی خان نے جوناگڑھ ، حیدر آباد اور کشمیر پر بات چھیڑی تو پٹیل نے کہا کہ جوناگڑھ کو بھول جاؤ مگر آؤ کشمیر اور حیدرآباد کی بات کرتے ہیں۔ اور ابھی کہ ابھی فیصلہ کرتے ہیں۔ پٹیل کے مطابق مسلم اکثریت کا علاقہ کشمیر پاکستان کے پاس اور حیدر آباد انڈیا کے پاس رہ جائے گا۔امن کے ساتھ فیصلہ ہو جاۓ گا اور اس فیصلہ میں دونوں ملکوں کا فائدہ ہے۔ مگر افسوس کہ لیاقت علی خان نے نہیں مانا۔ کیوں نہیں مانا ؟ اس کا ذکر اگلے پیراگراف میں موجود ہے۔

سردار شوکت حیات خان صاحب نے اپنی کتاب “گمشدہ قوم” میں بھی کچھ اس طرح  ذکر کیا ہے۔۔

کشمیر کے پاکستان کے حملے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پٹیل کا پیغام دیا کہ پاکستان کشمیر لے لے اور حیدرآباد دکن پر سے اپنا کلیم واپس لے کر اس ریاست کو انڈیا کو دیدے۔
جب سردار  شوکت صاحب نے لیاقت علی خان کو کہا کہ انڈین فوج کشمیر میں داخل ہو چکی ہے اور ہم قبائلیوں کے ساتھ مل کر ان کو باہر نہیں نکال سکتے اور نہ ہی ہم فوج کی مدد سے کشمیر لے سکتے ہیں ، اس لیے بہتر یہ ہے کہ پٹیل کی پیشکش پر غور کر لیں۔

لیاقت علی خان صاحب کا جواب کیا تھا؟ پڑھیے اور دیوار کے ساتھ اپنا سر ماریے۔۔

“سردار صاحب کیا میں پاگل ہو گیا ہوں کہ میں کشمیر کے پہاڑوں اور ٹیلوں کے بدلے ریاست حیدرآباد دکن چھوڑ دوں؟ جو کہ پنجاب سے بھی بڑی ریاست ہے

شوکت صاحب مزید لکھتے ہیں کہ حیدرآباد ایک سراب اور کشمیر ایک حقیقت تھی۔ ہمارا وزیر اعظم ملکی جغرافیہ سے اتنا بے خبر تھا اور ذہانت کا وہ معیار کہ حیدرآباد دکن کو کشمیر پر فوقیت دے رہا تھا یہ تو احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات تھی۔

اگر مسلم لیگ جونا گڑھ اور حیدراباد کے دعوے دار نہ بنتے جو کہ ان کو سرے سے ملنا نہیں تھا۔ تو کشمیر کا فیصلہ آسانی سے حل ہو جاتا۔ مگر مسلم لیگ ، جن میں محمدعلی جناح صاحب سے لے کر رانا لیاقت علی خان صاحب تک شامل تھے، کے احمقانہ فیصلوں کی وجہ سے کچھ بھی حصہ میں نہ آیا۔ کشمیر کا مسئلہ مکمل طور پر مسلم قیادت کا پیدا کردہ تھا۔ کسی اور کا نہیں۔

کلدیپ نئیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میرے خیال میں کشمیر کو ہر صورت میں پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔اگر پاکستان بے صبری نہ دیکھتا اور دہشتگرد کشمیر نہ بھیجتا تو کشمیر پاکستان کو خود بخود مل جاتا۔ کیونکہ کشمیر کا راجہ کسی بھی صورت میں اپنی مسلمانوں کی  آبادی کو نظر انداز  نہیں کر سکتا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ نہرو کشمیر کو انڈیا کا حصہ بناناچاہتاتھا، مگر پٹیل نے ہر بار اس آئیڈیا کی مخالفت کی، حتی کہ جب کشمیر کے مہاراجا کا انڈیا کے ساتھ انضمام کے لیے خط آیا تو اس وقت بھی پٹیل نے کہا کہ ہمیں کشمیر کو انڈیا کے ساتھ نہیں ملانا چاہیے کیونکہ ہمارے پاس پہلے ہی سے کافی علاقہ موجود ہے۔ پٹیل کا مزید یہ کہنا تھا کہ پاکستان اگر حیدر آباد کی ضد چھوڑ دے تو بدلے میں کشمیر لے سکتا ہے۔
اے جے نورانی نے کشمیر کے بارے میں اپنے ایک آرٹیکل ، دو ریاستوں کی کہانی ، میں لکھا کہ بائیس نومبر 1972، کو بھٹو نے لنڈی کوتل کے ایک جلسے میں بتایا کہ انڈین ہوم منسٹر سردار پٹیل نے پاکستان کو جوناگڑھ اور حیدرآباد دکن کے بدلے کشمیر کی پیشکش کی تھی، مگر بدقسمتی سے پاکستانی حکومت نا مانی، جس کے نتیجے میں نہ صرف جوناگڑھ، حیدر آباد ، کشمیر بلکہ مشرقی بنگال بھی ہاتھ سے چلا گیا۔

اب اس مسئلہ کا 2020 میں کیا حل ہو سکتا ہے؟
پاکستان کے لیے اصغر خان صاحب اپنی کتاب میں مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان کو ایمانداری سے اپنی خود سری کو چھوڑتے ہوۓ مسئلہ کشمیر پر از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ کشمیر کس کی غلطی سے ایک مسئلہ بنا۔ تب ہی پاکستانیوں کو سمجھ آئے گی کہ اس میں سب سے بڑا بلنڈر انہوں نے مارا تھا۔ جبکہ انڈیا کا قصور کم تھا۔ جب ہی پاکستان مسئلہ کشمیر کی ایک حقیقت پسندانہ تشخیص کر سکے گا ۔
اصغر خان کے الفاظ
He asked Pakistanis to examine the causes of the conflict and to engage in introspection. Only then would they realize that they too were at fault, and not just their arch-nemesis, India. He said only then would Pakistanis arrive at a realistic appraisal of the situation.\”
کشمیر یوں کے لیے
جواب یہ ہے کہ کشمیری اگر اپنا سر توڑ لیں یا پھر اپنی پوری نسل کو ختم کر لیں تب بھی وہ آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔ اس لیے کشمیریوں کو سٹیٹس کو کو مان کر اپنی دہشتگردانہ تحاریک ختم کرنی چاہیے ۔ اپنے ان جوانوں کو تعلیم اور تعمیر کے راستہ پر ڈالیے، تاکہ کشمیر ایک ترقی یافتہ اور پر امن علاقہ بن جاۓ۔ تعلیم، امن اور سیاست سے جو چیز حاصل ہو سکتی ہے، وہ جنگ سے نہیں ہو سکتی۔
مگر کشمیری مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے، کیونکہ ان کے پاس خودکشی کرنے کے ایسے شاندار نظریات موجود ہیں جن کو مزہب کا لبادہ اوڑ کر شہادت کا نام دے دیا جاتا ہے۔

حوالہ جات۔
a   memoir  by  sikander  Mirza
چوہدری محمد علی کی کتاب ظہور پاکستان 1967
تصویر کشمیر ۔پرتھوی ناتھ کول
جہاد کشمیر – 1947-48 میجر ریٹارڈ امیر افضل خان
مسئلہ کشمیر کا آغاز – زاہد چودھری
Understanding  Kashmir  and kashmiris by Christopher senedden
Interview of asghar khan with khyber TV
We have learnt nothing from the history by asghar khan
Defending kashmir
The nation that lost its soul by Sardar shaukat hayat khan
Emergence of Pakistan by choudry Muhammad Ali
Halfway to freedom by margarte bourke white
Making of pakistan by richard cayman
Beyond the Lines – An Autobiography
by Kuldip Nayar

Advertisements
julia rana solicitors london

A. G. Noorani article A Tale of Two States’

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔