• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیر بھارتی عفریت کے جبڑوں میں/پروفیسر رفعت مظہر

کشمیر بھارتی عفریت کے جبڑوں میں/پروفیسر رفعت مظہر

جولائی 2019ءمیں عین اُس وقت جب پاکستانی وزیرِاعظم عمران خاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کشمیر پر ثالثی کا وعدہ لے رہے تھے، بھارتی گجرات کا ”بوچر“ نریندر مودی کشمیر ہڑپ کرنے کے منصوبے باندھ رہا تھا۔ عمران خاں جب امریکی دورہ کرکے لوٹے تو ایئرپورٹ پر اُن کا شاندار استقبال ہوا جس پر اُنہوں نے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک دفعہ پھر 92 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہوںلیکن اُنہیں شاید نہیں معلوم تھا کہ چند دنوں بعد ہی بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے کا مصمم ارادہ کر چکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

ماہِ اگست شروع ہوتے ہی قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں پر جبروتشدد کی انتہا شروع کر دی اور 5 اگست کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کر دیا۔آرٹیکل 370 کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ظاہر کرتا تھا اور 35-A میں وضاحت کردی گئی تھی کہ کوئی غیرکشمیری نہ تو کشمیر کا مستقل شہری بن سکتاہے اورنہ ہی وہاں جائیداد خرید سکتا ہے۔ گویا بھارتی آئین ہی کے مطابق کشمیر کوایک آزاد ریاست کی حیثیت حاصل تھی۔ جب اِن آرٹیکلز کا خاتمہ ہوا تو مقبوضہ کشمیر کی بطور خودمختار ریاست کی حیثیت بھی ختم ہوگئی اور یوں مودی نے کشمیر ہڑپ کر لیا۔ دراصل انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے رکن مودی کو مقبوضہ کشمیر میںمسلمانوں کی غالب اکثریت کھٹکتی تھی اوروہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا چاہتاتھا۔ اُس کے مشن کی راہ میں آرٹیکل 35-A حائل تھا کیونکہ اِس آرٹیکل کی موجودگی میں کوئی بھی بھارتی ہندو نہ توکشمیر کا شہری بن سکتا تھا اور نہ ہی وہاں جائیداد خرید سکتاتھا۔ اِن آرٹیکلز کے خاتمے کے بعد اب صورتِ حال یہ ہے کہ آر ایس ایس نامی ہندو تنظیم کے غنڈے مقبوضہ کشمیر میں دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ غنڈے گھروں میں گھُس کر خواتین کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔ کشمیریوں کے کاروبار بند کرواتے، املاک کو نذرِآتش کرتے اور جابجا تشدد کی خونچکاں داستانیں رقم کرتے نظر آتے ہیں۔ 5 اگست سے اب تک اِن 4 سالوں میں بیشمار شہادتوں کے علاوہ لگ بھگ 1200 گھر جلائے جا چکے ہیںپھر بھی عالمی ضمیر خاموش جبکہ سات عشرے پہلے اقوامِ متحدہ میں کشمیریوں کا حقِ خودارادیت تسلیم کیا گیا۔
نریندر مودی کشمیری اکثریت کو اقلیت میں بدلنا
چاہتاہے اِسی لیے آر ایس ایس کے غنڈے کشمیر میں زبردستی زمینیں اور باغات اپنے نام لگوا رہے ہیں اور غیر ریاستی افراد کو دھڑادھڑ ملازمتیں بھی دی جارہی ہیں تاکہ مقبوضہ کشمیر پرمکمل قبضہ کیا جاسکے۔ اُدھر ہمارا یہ حال کہ ”کشمیر ہماری شہ رَگ“ جیسے بلند بانگ نعرے اور دعوے جابجا مگر عمل مفقود۔ جب 5 اگست 2019ءکو بھارت نے کشمیر ہڑپ کیا تو 6 اگست کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اعظم سواتی نے مذمت کی قرارداد پیش کی جس میں آرٹیکل 370 اور 35-A کا ذکر تک نہ تھا۔ اِس قرارداد کے پیش ہونے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور اُس وقت کے قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے جذباتی خطاب کرتے ہوئے سخت تنقید کی۔ اِس کے جواب میں عمران خاں نے چِڑ کر کہا ”مجھے بتا دیں کہ میں کیاکروں، کیا ہندوستان پر حملہ کر دوں؟“۔
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو سات دہائیوں سے زائد ہو چکے پھر بھی بھارتی مظالم کشمیریوں کا حوصلہ نہ توڑ سکے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق گزشتہ 3 دہائیوں میں ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ 25 ہزار خواتین بیوہ ہوئیں ور صرف 5 اگست 2019ءکو اپنے غیرقانونی قبضے کو دوام بخشنے کے لیے 308 کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ خواتین کی بے حرمتی اور بچوں پر بہیمانہ تشدد کی دل گداز داستانیں سن کر انسانیت بھی شرمانے لگتی ہے۔ نوجوانوں کو اغوا کرکے اُن پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ہیں اور بعدازاں اُن کی مسخ شدہ لاشیں توہین آمیزانداز میں پھینک دی جاتی ہیں۔ خواتین پر جنسی تشدد اور ہنستے بستے گھروں کو اجاڑنا بھارتی فوج کا مشغلہ بن چکا ہے۔ بھارتی مظالم سے تنگ آکر ہزاروں کشمیری کنٹرول لائن کے اُس پار ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ بھارت یہ سب کچھ آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے کر رہا ہے تاکہ کل کلاں اگر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کی نوبت آئے تو ثابت ہو سکے کہ کشمیر میں غیرمسلموں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں 7 دہائیاں پہلے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ 80 فیصد تھی اب گھٹ کر 65 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اتنے ظلم وستم کے باوجود بھی کشمیریوں کے حوصلے جواںاور وہ آزادی کی طلوع ہوتی صبح دیکھنے کے لیے بیتاب جس کی درخشندہ مثال 22 سالہ نوجوان برہان مظفر وانی۔
برہان مظفر وانی کی شہادت نے تحریکِ آزادی کشمیر میں نئی روح پھونک دی جس کے بعدیہ تحریک ایسے نوجوانوں کے ہاتھ میں آچکی جن کا نعرہ ”ابھی یا کبھی نہیں“۔ 15 سال کی عمر میں بھارتی مظالم کے خلاف عَلمِ آزادی بلند کرنے والے ہونہار طالب علم برہان مظفر وانی کشمیریوں کے نزدیک جدوجہدِ آزادی کی علامت بن چکے ہیں۔ 8جولائی 2016ءکو بھارتی فوج نے فائرنگ کرکے برہان مظفر وانی سمیت 3 نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ برہان مظفرنے جدوجہدِ آزادی کی نئی طرح ڈالتے ہوئے بندوق سے زیادہ انٹرنیٹ کے استعمال سے کشمیر میں ہونے والی ظلم وبربریت کی داستانیں دنیا تک پہنچائیں۔ اِسی لیے اُسے ”پوسٹر بوائے“ بھی کہا جاتا تھا۔ جب اُسے صرف 22 سال کی عمر میں شہید کیا گیاتو مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کا آتش فشاں پھٹ پڑا جس پرمقبوضہ وادی میں مسلسل 6 ماہ تک کرفیو نافذ رہا۔ اِس دوران لگ بھگ 1400 شہری شہید ہوئے، 4000 سے زائد زخمی اور سینکڑوں گھر نذرِتش کیے گئے۔ اِس کے علاوہ اسرائیل سے درآمد کی گئی پیلٹ گنوں کا بے دریغ استعمال بھی ہواجس سے سینکڑوں بیگناہ کشمیری اندھے اور معذور ہوئے۔ پیلٹ گنوں کے استعمال کی اقوامِ متحدہ نے بھی شدید مذمت کی لیکن گجرات کے بُوچڑلازمہ انسانیت سے تہی نریندرمودی پر اِس مذمت کا پرکاہ برابر اثر نہیں ہوااور آج بھی قابض بھارتی افواج پیلٹ گنوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
کشمیری ہر سال برہان مظفر وانی کی شہادت پر 8 جولائی کو ”یومِ مزاحمت“ مناتے ہیں اور 5 اگست کو ”یومِ استحصال“۔ برہان مظفر کے ساتویں یومِ شہادت پرہر سال کی طرح 313 نوجوانوں نے سلامی دی اور قبر پر پھول چڑھائے۔ مقبوضہ کشمیر میں اِس موقعے پر مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال کی جاتی ہے جو اِس امر کی علامت ہے کہ کشمیریوں میں جذبہ حریت جواں ہے۔ ”یومِ استحصال“ علامت ہے اِس امر کی کہ کشمیری بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو بقدرِاشکِ بُلبل بھی حیثیت نہیں دیتے۔ اُن کا جذبہ حریت مکمل آزاداور خودمختار کشمیر کی جانب گامزن ہے۔ تاریخِ عالم گواہ کہ آزادی کی ایسی تحریکیں جلد یا بدیر ثمرآور ہوتی ہی ہیں۔ ان شاءاللہ وہ دن ضرور آئے گا جب کشمیری نوجوان طلوع ہوتی صبحِ آزادی کا نظارہ کریںگے۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply