بے سروپا لبرل پروپیگنڈے کے جواب میں

حال ہی میں ایک مضمون نظر سے گزرا، پڑھ کر حیرت ہوئی کہ مصنف کے دلائل اس دنیا سے تعلق ہی نہیں رکھتے۔ جو اعداد و شمار مہیا کیے گے ان کا حوالہ سرے سے ناپید ہے۔ کچھ دلائل تو ایسے ہیں کہ کوئی بھی ذی شعور شخص انھیں بلاتصدیق رد کرسکتا ہے۔ مضمون کا آغاز ایک ایسے بھونڈے الزام سےکیا گیا جو لبرلزم کی پرپیگنڈہ مشینری کا عام وتیرہ رہا ہے۔
بقول مصنف دنیا کے ۱۹۵ ممالک میں سے چند اک ہی کیمونسٹ ہیں اور باقی دنیا اس ممالک میں شامل ہونے کے لیے بےتاب ہے۔ یہ طنزیہ کلمات ایسے ہیں کہ پڑھنے والے کو ایک منٹ کے لیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف شاید نہایت عالم وفاضل ہے۔ سوکچھ باتوں کی وضاحت کرنا نہایت ضروری ہے۔
اول اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جن ممالک کو کیمونسٹ کہا جاتا ہے وہ درحقیقت کیمونسٹ نہیں سوشلسٹ ریاستیں ہیں۔ کیمونزم اور ریاست دو الگ چیزیں ہیں۔ اشتمالی سماج میں ریاست کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ یہ تمام ریاستوں کے عوام نے بھی ان کو اشتمالی کبھی نہیں کہا بلکہ اشتراکی کہا ہے۔ تو یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا میں ابھی تک کوئی اشتمالی یعنی کیمونسٹ ریاست تشکیل نہیں پائی اور پا بھی نہیں سکتی کیوں کہ ریاست اور کیمونزم کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔کمیونزم سوشلزم کے اگلے مرحلے کا نام ہے ۔
دوم یہ کہ کسی بھی ریاست کی خوشحالی یا بدحالی کا اندازہ اس بات سے نہیں لگایا جاتا کہ ان ممالک میں کتنے لوگ جانا پسند کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ ریاستوں کی خوشحالی یا بدحالی کا اندازہ وہاں رہنے والے لوگوں کے معیار زندگی سے لگایا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں اشتراکی ریاستوں کی طرف، بقول مصنف دنیا میں اب صرف دو ہی اشتراکی جنتیں بچی ہیں، کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ چین، ویت نام وغیرہ ترمیم پسندی کی طرف مائل ہوئے اور منڈی کی معیشت یعنی سرمایہ دار معیشت کو اختیار کر لیا گیا۔ بقول مصنف چین، ویت نام، سوویت یونین، کمبوڈیا، کیوبا اور مشرقی یورپ کی اشتراکی ریاستوں میں بسنے والے لوگوں کی بدحالی کی مثال نہیں ملتی، لیکن مصنف جو منصف بحی بنے ہوئے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ اب وہاں لبرل سرمایہ دارانہ جنت میں ان کا کیا حال ہے ؟۔
مضمون کے مطابق اشتراکی ممالک میں لوگوں کو داخلے کی ممانعت ہے اور وہاں کی عوام کو بھی بیرونی دنیا سے روابط کی اجازت نہیں۔ تھوڑا سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر امریکہ بہادر میں چینی سائنسدان کیا کر رہے ہیں، کیوبا کے ڈاکٹر پوری دنیا میں کیسے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، سوویت روس کی پیٹرس لممبا فرینڈشپ یونیورسٹی میں شائد مریخ سے طالب علم آتے تھے، آج بھی امریکہ سے طالب علم اشتراکی کیوبا میں میڈیکل سائنس کی تعلیم کیونکر حاصل کرتے ہیں (قریبا ۱۰,۰۰۰ امریکی طالب علم)؟
پھر مصنف لکھتے ہیں کہ کیوبا کی عوام کو ملک سے باہر جانے کے لیے ویزہ کی ضرورت پڑتی ہے، تو مصنف بتانا پسند کریں گے کہ کہ دنیا کی کون سی ریاست ہے جو بغیر ویزہ کے غیر ملکیوں کو داخلے کی اجازت دیتی ہے اور شائد مصنف کا اس بات کا بھی علم نہیں کہ ویزہ کا اجرا وہ ریاست کرتی ہے جس “میں” جانا مقصود ہو نا کے وہ جو جانا چاہے۔
دو ہزار پانچ میں پاکستان میں آنے والے زلزلے کے دوران دنیا بھر سے آنے والے امدادی کارکنوں کے دستوں میں سب سے بڑا دستہ کیوبا کا ہی تھا جس میں ۲۰۰ کے قریب ڈاکٹر بھی شامل تھے۔ اسی طرح لگ بھگ ۱۰۰۰ سے زائد پاکستانی طالب علم سکالرشپ پر کیوبا کی درس گاہوں میں زیر تعلیم ہیں۔ مصنف کا یہ بھونڈا دعوی کہ کیوبا نا تو اپنے شہریوں کو بیرونی دنیا سے میل ملاپ رکھنے دیتا ہے اور نا ہی بیرونی دنیا کے لوگوں کو، اس چھوٹی سی مثال سے یہ دعوی رد اور زمیں بوس ہو جاتا ہے۔
بقول مصنف دنیا کی پہلی اشتراکی ریاست کوئی سو سال قبل دنیا کے نقشے پہ روس کی شکل میں نمودار ہوئی۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مصنف اس بات سے بھی لاعلم ہے کہ پہلی اشتراکی ریاست ۱۸۷۱ میں پیرس کمیون تھی جو تقریبا ۷۲ دن تک رہی اور جسے یورپ کے سامراجی ریاستوں نے بزور طاقت وخوں ریزی ختم کیا۔ سوویت یونین دوسری اشتراکی ریاست تھی ۔
۔ سوویت یونین کے وجود میں آنے کے بعد ۱۶ سامراجی ممالک کی روس پر فوج کشی اور ان کے گماشتوں کے ملک میں خانہ جنگی اور انارکی پھیلانے کی کوششیں نہ تو ہمارے لبرل دوستوں کو نظر آتی ہیں اور نہ ہی مصنف نے ان کا ذکر کرنے کی جسارت کی۔ ان حالات میں بھی اگر سوویت روس کی معاشی ترقی کا جائزہ لیا جائے تو سرمایہ دار و سامراجی دنیا کے چیمپین ریاستوں سے تگنی ترقی سوویت یونیں کا ورثہ ہے اور اس سے انکار حقیقت سے انکار کے مترادف ہے۔یعنی جو ترقی سامراجی سرمایہ دار ممالک نے ایشیا ،افریقہ اور جنوبی امریکا کو پانچ سو سال تک لوٹنے کے بل بوتے پر کی ،وہ ترقی سوویت یونین نے محض تیس سال میں منصوبہ بند معیشت کے بل بوتے پر کی۔
اگر اعداد و شمار کا مطالعہ کیا جائے تو سوویت انقلاب سے پہلے روس کا عالمی پیداوار میں مجموعی حصہ صرف ۴ فیصدی کے لگ بھگ تھا جو کہ ۱۹۸۵ء تک ۲۰ فیصد ہو گیا۔ صنعتی اشیاء کی مجموئی پیداوار ۱۹۱۳ء کی نسبت ۱۹۷۵ء میں ۱۳۱ گنا بڑھی۔ ۱۹۵۰ء میں سوویت یونین کی مجموئی قومی آمدنی ۶۶۵ اور آبادی میں فی کس قومی آمدنی ۴۷۵ جبکہ لبر لامریک ہ میں میں میں قومی آمدنی کی شرح ۲۲۳ اور آبادی میں فی کس قومی آمدنی کی شرح ۱۶۰ فیصد تھی، برطانیہ میں ۱۷۳ اور ۱۶۱، فرانس میں ۳۴۰ اور ۲۲۰، جبکہ وفاقی جمہوریہ جرمنی میں ۳۶۷ اور ۲۸۹ فیصد تھی۔ ۱۹۶۱ سے ۱۹۷۱ کے عشرے میں سوویت قومی آمدنی دوگنی ہوئی جبکہ پیداوار دگنی کرنے کے میں سرمایہ دار طاقتوں کو کہیں زیادہ عرصہ لگا۔ امریکہ کو ۲۰ سال، جرمنی کو ۱۵ سال اور برطانیہ کو ۳۰ سال سے زائد کا عرصہ لگا۔
سائنسی و تکنیکی میدان میں سوویت ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا سائنسی کارکن روسی تھا جبکہ انقلاب سے پہلے یہ تعداد صرف۱۱ ہزار تھی۔
یہ تو رہی ماضی کی بات، آئیے حال کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ دور حاضر میں کیوبا اشتراکی ریاست کی ایک اعلی مثال ہے۔کیوبا کی تمام تر بین الاقوامی پابندیوں اور ناکہ بندیوں کے باوجود اس کا موازنہ لبرل امریکہ سے نہیں کیا جا سکتا۔
اشتراکی ممالک میں شہریوں کی حالت کا جائزہ لیا جائے تو دور حاضر میں کیوبا کی مثال کافی ہوگی۔
کیوبا پر پچھلے ۵۶ سالوں سے سماجی و اقتصادی پابندیوں، اشتراکی ریاست کا گلا گھونٹنےاور سازشوں کے باوجود معاشی و اقتصادی ترقی، تعلیم اور صیحت کے شعبوں میں ترقی کی مثال نہیں ملتی۔ امریکی محکمہ خوراک کے مطابق ۲۱ فی صد بچے امریکہ میں خوراک کی قلت کا شکار ہیں، ۴ کروڑ ۳۰ لاکھ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔ دی اکانومسٹ کے مطابق ۴ کروڑ ۳۰ لاکھ طالب علم تعلیمی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ۲۱ فی صد شہری پڑھنا لکھنا نہیں جانتے جبکہ کیوبا میں تعلیم و صحت کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے ۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNESCO
کے مطابق کیوبا میں بچوں میں خوراک کی کمی کو ختم کر دیا گیا ہے اور شرح خواندگی تقریبا ۱۰۰
فی صد ہے۔ یہ ایسے اعداد و شمار ہیں جو کسی اشتراکی ریاست کے نہیں بلکہ خود اقوام متحدہ اور دیگر لبرل ذرائع کے جاری کردہ ہیں۔
پھر الزام لگایا گیا کہ سٹالن، ماو وغیرہ نے ۷ کروڑ سے زائد کا قتل عام کیا۔ یہ الزام ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک کالم نگار نے کیوبا کے راہ نما کامریڈ فیدل کاسترو پر ۳۵,۰۰۰ خواتین سے جنسی تعلقات قائم کرنے کا بے سروپا الزام لگایا ہے ۔
۱۹۲۶میں سوویت یونین کی کل آبادی ۱۴ کروڑ ۷۰ لاکھ تھی یعنی نصف آبادی سٹالن کی نذر ہو گئی جبکہ سوویت یونین کی آبادی میں بتدریج اضافہ ہی ہوا ہے۔ یاد رہے کہ اس دوران دوسری عالمی جنگ میں شہید ہونے والوں کی تعداد بھی شامل ہے۔ رہی بات چین کی بچے مارنے کی پالیسی تو اس کے ماسوائے وکیپیڈیا کے کہیں شواہد نہیں ملتے۔
پھر انقلاب دشمن عناصر کو ترک وطن اور جبری محنت کے کیمپوں میں بھیجا گیا، تو مجھے اس سوال کا جواب مصنف سے درکار ہے کہ خود امریکا میں ریاست دشمن عناصر کے ساتھ ریاست کیا سلوک کرتی ہے ؟ کیا ضیاالحق کے دور میں متعدد کیمونسٹوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو جلاوطن نہیں کیا گیا؟ انھیں بر سر عام کوڑوں اور پھانسیوں سے لیکر عقوبت خانوں تک میں قتل نہیں کیا گیا ؟ کیمونسٹ پارٹی کے کارکنوں کو شہید نہیں کیا گیا؟ کیا امریکہ میں لوتھرکنگ جیسے کردار کو سرعام قتل نہیں کیا گیا ؟۔اسی طرح جان لینن جیسے گلوکار کا قتل ہے صرف اس بنا پر کہ اس کے کیمونسٹوں کے ساتھ روابط ہیں ۔سو سوویت نوخیز ریاست اور انقلاب کو بچانے کے لیے اگر طبقاتی دشمنوں ، سازشیوں اور فاشسٹوں کے ایجنٹوں کو اگر لیبر کیمپوں میں بھیجا گیا تو یہ کروڑوں روسی مزدوروں اور ہاریوں کی طباقاتی جدوجہد تھی۔
پھر گلاگوں کا زکر کیا گیا، مصنف شائد لاعلم ہیں یا ہٹ دھرمی پر قائم ہیں اور اس بات کی وضاحت کرنا نہیں چاہتے کہ امریکہ بہادر کو قیدیوں کی قوم کیوں کہا جاتا ہے، ۲۲ لاکھ امریکی شہری امریکی جیلوں میں کیوں قید ہیں؟ یہ تعداد دنیا کے کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ ہے، قریبا ایک چوتھائی۔ سال ۲۰۱۶ میں کل ۸۷۰ سے زائد شہری خاص کر سیاہ فام باشندےماورائے عدالت قتل کر دیے گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب شائد مصنف دینے سے قاصر ہے۔ اس کا جواب شائد یہ بھی ملے کہ یہ جرائم پیشہ افراد ہیں جو قیدخانوں میں ہیں۔ اس پہ ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر گلاگوں کا شکوہ کیوں؟ شائد اس کا جواب مصنف نا بھی دے پائیں یا پھر جواب آئے کہ سوویت یونین اشتراکی تھا اس لیے اپنی سڑاند نکالی جا رہی ہے۔ گلاگوں میں لوگوں کی زبوں حالی اور گوانتانامو بے کے قید خانے کا موازنہ کیا جائے تو سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔
جان ٹولینڈ اپنی کتاب ایڈولف ہٹلر کے صفہ نمبر ۲۰۲
پر لکھتا ہے کہ “ہٹلر کے ھراستی کیمپوں کا تصور اور عملی نسل کشی ،جیسا کہ ہٹلر دعوی
کرتا ہے، برطانوی اور امریکی تاریخ کے مطالعہ سے حاصل ہوا۔ ہٹلر جنوبی افریقہ کے بوئر قید خانے امریکی باسیوں کے حراستی کیمپوں کی افادیت کو سراہتا تھا۔ امریکی حکومت کے جبری اقدامات جن کی بنا پر مقامی باشندوں کو بھوکوں مار کر اور بیماریوں میں مبتلا کر کے نسل کشی سے بے حد متاثر تھا۔”
ان سطور سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لبرل امریکہ مقامی باشندوں کی نسل کشی میں ہٹلر سے کم نہیں تھا۔ اگر گلاگ اتنے ہی بھیانک ہوتے تو ہٹلر بجائے امریکی ماڈل کے گلاگوں کو فوقیت دیتا۔ چناچہ مصنف کا دعوی برائے گلاگ بھی یہاں زمیں بوس ہو جاتا ہے۔
بقول مصنف اشتراکی ممالک کے عوام اشتراکیت اور اشتراکی حکومتوں سے تنگ تھے اور آج بھی ہیں، اگر ایسا ہے تو میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کے سوویت یونین میں ہونے والے ۱۷ مارچ ۱۹۹۱ کے ریفرنڈم میں عوام کی کثیر تعداد اشتراکی سوویت یونین کو برقرار رکھنے پر کیوں بضد تھی اور آج بھی سوویت یونین کی بحالی کا انتخاب کرتی ہے جبکہ آج، بقول مصنف، روس اور چین کی عوام زیادہ خوشحال ہے؟ کیوبا اور شمالی کوریا کی عوام آج بھی “جابر آمروں “کی وفات پر کیوں روتی ہے؟ بقول مصنف چین اب سرمایہ داری کی طرف راغب ہے اور اس میں صداقت بھی ہے لیکن دور حاضر کے چین میں غربت اور امارت کے درمیان خلیج کیوں وسیع ہوتی چلی جا رہی ہے اور وہاں مزدوروں کی ہڑتالیں کیونکر ہو رہی ہیں؟ ان سوالات کے جوابات شائد مصنف کے پاس نا ہوں لیکن ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے، یہ لبرل منڈی کی معیشت کا خاصہ ہے جو غربت اور امارت کی درمیانی خلیج کو بڑھاتی ہے اور طبقات کو جنم دیتی ہے جس کے نتیجے میں امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اشتراکی نظام کی شکست ہو چکی ہے اور لبرل سرمایہ داری فتح یاب ہوئی ہے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سرمایہ داری ایک بہتر نظام ہے۔ کوئی میرا لبرل دوست یا مصنف خود میرے اس سوال کا جواب دے کہ جاگیرشاہی نظام کے خلاف بورژوا یعنی سرمایہ دارنہ انقلابات کو کتنی بار شکست ہوئی اور بلآخر سرمایہ داری بطور بہتر نظام فتح یاب رہا؟ اسی طرح اشتراکیت کو پہلی شکست ۱۸۷۱ میں پیرس کمیون میں ہوئی جسے پورے یورپ کے اجارہ دار سرمایہ دار ملکوں نے مل کر کچل ڈالا۔ دوسرا تجربہ سوویت یونین کا ہے جو ماضی کے تمام تجربات سے سبق سیکھ کر کیا گیا اور جسے شکست فاش سے دوچار کرنے کے لیے سرمایہ دار و سامراجی برادری کو ۷۰ دن کے بجائے ۷۰ سال لگے۔ اسے اشتراکیت کی شکست نہیں کہا جا سکتا، اس قسم کی شکستیں ہر انقلاب کو ہوتی ہیں اور بلآخر جیت بہتر نظام کی ہوتی ہے۔ اشتراکیت بڑے پیمانے پر عوام کی فلاح کے لیے سرمایہ داری سے ایک بہتر نظام ہے۔ اس کی زندہ مثال کیوبا ہے ۔ اس کے برعکس لبرل و سرمایہ دار امریکہ تمام تر سامراجی ہتھکنڈوں کے باوجود اپنی عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ غریبوں بے گھروں اور فاقہ کشوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
مصنف کی طرف سے ایک الزام یہ عائد کیا گیا کہ اشتراکی ریاستیں مذہب دشمن ریاستیں ہوتی ہیں ہر قسم کے مذہب پر پابندی لگائی جاتی ہے اور سوویت یونین اور دیگر اشتراکی ممالک میں مذہب پر پابندی تھی۔ یہ الزام بھی سرا سر جھوٹ ہی ہے۔ نا تو مارکس، اینگلز اور لینن نے کبھی بزور شمشیر مذہب کو ختم کرنے کا کہا اور نا ہی سٹالن نے ایسا کہا یا کیا۔ اس کے شواہد لینن و سٹالن کی تقاریر و تحاریرمیں بخوبی ملتے ہیں اور سوویت دستور میں بھی پائے جاتے ہیں۔ چند ایک مثالیں آپ کے سامنے پیش خدمت ہیں۔
“آپ کی وہ تمام مساجد اور عبادت گاہیں جو تباہ کر دی گئی تھیں اور آپ کے عقائد اور رسوم جو زار اور روسی استحصالیوں کے دور میں دھتکارے گئے، اب وہ تمام مساجد، رسوم و رواج اور عقائد آزاد اور ناقابل پامال ہیں”
(لینن کا عوامی پیغام برائے روسی مسلمانان دسمبر ۱۹۱۷)
“سوویت روس کی حکومت تمام اقوام کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنا نظام حکومت چلائیں۔ سوویت روس کی حکومت سمجھتی ہے کہ شریعہ کو عام قانون برائے داغستان تسلیم کر لیا جائے کیونکہ داغستان کے عوام اسے خود کے لیے بہتر اور فائدہ مند سمجھتے ہیں”
(جوزف سٹالن: داغستانی عوامی کانگریس دسمبر ۱۳، ۱۹۲۰)
“تمام اقوام خواہ وہ چیچن ہیں، انگوش ہا کبارڈین، اوشیشن، کاراچائی یا قازق جو پہاڑی علاقہ جات میں رہتے ہیں اور سوویت یونین کے شہری بھی بننا چاہتے ہیں وہ اپنے طرز حیات کے مطابق زندگی بسر کر سکتے ہیں اور یہ بات بتانے میں کوئی مذائقہ نہیں کہ یہ لوگ سوویت یونین کے وفادار بیٹوں کی طرح ہیں اور یہ سوویت یونین کے مفادات کا دفاع کرتے رہیں گے۔ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ شریعہ ضروری ہے تو اسے رہنے دیا جائے اور ہماری شریعہ پہ کسی بھی قسم کی جنگ مسلط کرنے کا ارادہ نہیں”
(جوزف سٹالن: ترک علاقے کے لوگوں کی کانگریس دسمبر ۱۷ ، ۱۹۲۰)
یہ چند ایک حوالہ جات اس بات کی تصدیق کرتےہیں کہ اشتراکی ریاست سوویت یونین پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔
یہاں ایک سوال اور بھی سامنے آتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دیگر یورپی لبرل سرمایہ دار ریاستوں میں مذہب کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ یورپ کے متعدد لبرل اور نام نہاد سیکولر ریاستیں بشمول فرانس، جرمنی اور برطانیہ میں ایک مخصوص مذہب کے لوگوں کے لباس پر پابندی عائد کی گئی۔ اسی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک مخصوص مذہب کے لوگوں کے خلاف حالیہ صدارتی انتخابات میں اشتعال انگیز تقاریر اور پابندیوں کی دھمکیاں دی گئیں۔ میرے محترم مصنف جن کا مضمون “کیمونسٹ تو اچھے ہوتے ہیں” شاید اس امر سے ناواقف ہیں یا پھر واقفیت کے باوجود ان حقائق کو چھپانا چاہتے ہیں تاکہ عوام الناس میں کنفیوژن اور اشتراکیت کے خلاف زہر گھولا جائے۔ رہی بات مارکس کی تو جس نے مارکس کی تصانیف کا بغور مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ مارکسی تصانیف کوئی الہامی کتب نہیں بلکہ سماجی سائنسی کا علم ہے۔
بقول مصنف سوویت روس نے مشرقی یورپ اور دیگر ریاستوں میں بزور شمشیر اشتراکی نظریات پھیلائے اور ریاستوں کا نظام اشتراکیت میں تبدیل کیا تو ان کے شواہد اور حوالہ جات بھی تحریر کر دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
دوسری عالمی جنگ میں سوویت سرخ فوج نے جرمن فاشزم کو شکست دی اور جرمن تسلط سے تمام علاقوں کو آزاد کرایا۔ یہ اشتراکی نظریہ کی برتری ہی تھی جو مشرقی یورپی ممالک کی عوام نے اس نظریہ کی پزیرائی کی اور اسے تسلیم کیا۔ امریکی سامراج کی تمام تر طاقت ویت نامی عوام کے سامنے مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ اسی طرح کیوبا پر بےشمار کوششوں کے باوجود امریکی سامراج کو شکست فاش سے ہمکنار ہونا پڑا۔ اگر بزور شمشیر اپنے نظریات مسلط کر سکتا تو امریکہ بہادر، ویت نام، چین، کیوبا،لاوس وغیرہ میں رسوا نہ ہوتا۔
دوسری عالمی جنگ میں سوویت سرخ فوج نے جرمن فاشزم کو شکست دی اور جرمن تسلط سے تمام علاقوں کو آزاد کرایا۔ یہ اشتراکی نظریہ کی برتری ہی تھی جو مشرقی یورپی ممالک کی عوام نے اس نظریہ کی پزیرائی کی اور اسے تسلیم کیا۔ امریکی سامراج کی تمام تر طاقت ویت نامی عوام کے سامنے مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ اسی طرح کیوبا پر بےشمار کوششوں کے باوجود امریکی سامراج کو شکست فاش سے ہمکنار ہونا پڑا۔ اگر بزور شمشیر اپنے نظریات مسلط کر سکتا تو امریکہ بہادر، ویت نام، چین، کیوبا،لاوس وغیرہ میں رسوا نہ ہوتا۔

Facebook Comments

ضیغم اسماعیل خاقان
میں اسلام آباد میں مقیم ہوں اور سماجی علوم کے مطالعہ اور تحریر و تقریر میں مصروف ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply