• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مکالمہ اور تاریخ اسلام کا پہلا اسائلم ۔ راشد احمد

مکالمہ اور تاریخ اسلام کا پہلا اسائلم ۔ راشد احمد

لاکھوں سوشل میڈیا اکاونٹس، ہزاروں ویب سائٹس اور ان گنت بلاگز کے سیلاب بلا خیز میں ایک قطرے کا اضافہ ’’مکالمہ‘‘ کی صورت آپ کے سامنے ہے۔ ایشیائی مبالغہ نہ بھی کیا جائے تو اسے کم از کم ایک خوشگوار تبدیلی تو بہرحال کہا جا سکتا ہے۔ اس’’ قطرہ ‘‘کو اب گہر بنانا ہم سب کی ذمہ داری اور خواب ہے۔ نیت نیک ہو تو قافلہ بنتا چلا جاتا ہے اور مکالمہ کے اس سفر میں اگر کوئی انقلابی قسم کی تبدیلی نہ بھی آئی تب بھی کم از کم اپنے حصہ کی شمع تو جل ہی جائے گی۔ اس وقت ہمیں شمعیں جلانے کی ازبس ضرورت ہے کہ چارسو اندھیرے کا راج ہے۔ خدا نے چاہا تو یہ پلیٹ فارم مکالمہ کے سفر میں سنگ میل ثابت ہوگا۔

اس فقیر کو یوں بھی خاص خوشی ہے کہ اس’’مکالمہ‘‘ کی بنیاد دو عزیز دوستوں مجاہدحسین اور انعام رانا صاحبان کے ہاتھوں پڑرہی ہے اور اس دن پڑرہی ہے جس دن اس فقیر کی دنیا میں آمد ہوئی تھی۔مجھے اور ’’مکالمہ‘‘ کو جنم دن مبارک۔ خدا اسے آباد رکھے۔ آئیےذرا مکالمہ کی ضرورت اور اہمیت دیکھتے ہیں۔

منظر عرش کا ہے ۔ خدا فرشتوں کومخاطب کرکے فرماتا ہے، میں زمین میں خلیفہ بنانے لگا ہوں۔ فرشتوں کو اس امر پر انقباض ہے۔ اس موقعہ پر خدا بھی آپ کو فرشتوں کے ساتھ مکالمہ کرتا نظر آئے گا جو حضرت انسان کی پیدائش پر اپنے خدشات کا اظہار کررہے تھے۔ خدا نے مکالمہ کرکے فرشتوں کے ’’اعتراضات‘‘ رفع کئے۔ کچھ قدم آگے چلئے ۔ منظر کچھ یوں ہے کہ فرشتوں کو سجدہ کا حکم ہوتا ہے۔ ابلیس انکاری ہے۔ خدا ابلیس کے ساتھ مکالمہ کرتا نظر آئے گا۔ خداوند کی عظمت ذہن میں رکھئے اور پھر اسے مکالمہ کرتے دیکھئے تو مکالمہ کی اہمیت سمجھنا کچھ اتنا مشکل بھی نہیں رہ جاتا۔ معاشرہ میں بڑھتی گھٹن اور تنگ نظری کی جملہ وجوہات میں سے ایک وجہ سوال اٹھانے پر پابندی اور مکالمہ کو فروغ نہ ملنا ہے۔

منظر بدلتا ہے۔ عرش سے فرش پر آتے ہیں۔ جناب موسیؑ کو فرعون وقت کے دربار میں پیش ہونا ہے۔ معاملہ خدا کے حضور رکھتے ہیں،خداوند میری تو زبان بھی نہیں چلتی تو ہی کچھ رہنمائی کر ۔ حکم ہوتا ہے، اے موسی فرعون کے پاس جاو اور اسے سمجھاو کہ وہ باغیانہ روش چھوڑ دے اور یاد رکھنا بات نرمی سے کرنی ہے ۔اس کے بعد کتاب میں موسیؑ اور فرعون کا مکالمہ بھی ریکارڈ پر ہے جس کا بنیادی اصول خداوند نے خود نرمی کی صورت رکھ کر ہم سب کو یہ سبق دے دیا کہ مکالمہ کرنا ہے تو نرمی اور پیار سے کرو خواہ مقابل میں فرعون ہی کیوں نہ ہو۔

اسی کتاب ہدی میں انبیائے کرامؑ کے اپنے مخالفین کے ساتھ مکالمے ریکارڈ پر ہیں، مگر ہم چونکہ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں والے ہیں اس لئے ، ان حسین روایات کو بھلا کرمکالمہ پر یقین رکھنے کے بجائے لوگوں کی زباں بندی کی طرف زیادہ متوجہ ہوگئے جس کا نتیجہ سامنے ہے۔ معمولی اختلافات پر مقابل کے ساتھ دشنام طرازی ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر آنکھیں شعلے برسانے لگتی ہیں ، منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے اور نتیجہ ہمیشہ کی مقاطعت کی صورت میں نکلتا ہے۔

رسول اللہﷺ کا مبارک زمانہ ہے، کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر کچھ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں ۔ کفار پیچھے پیچھے جاتے ہیں۔ حکومت وقت کا دربار لگتا ہے۔ فریقین پیش ہوتے ہیں۔ سوال ہوتے ہیں۔ جوابات دیئے جاتے ہیں۔ مکالمہ جب اختتام پذیر ہوتا ہے تو فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آتا ہے۔ کفار اپنا سا منہ لیکر وہاں سے نامراد واپس لوٹ آتے ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے اس مقدمہ میں مکالمہ کرنے والے صحابیؓ نے اس قدر جاندار دلائل دیئے کہ مسلمانوں کو وہاں رہائش کی اجازت مل گئی۔ میں اگر لبرٹی لوں تو تاریخ اسلام کا یہ پہلا ’’اسائلم‘‘ تھا جو مکالمہ کی ’’برکت‘‘ سے کامیاب ہوا۔

مکالمہ کی اہمیت واضح ہے۔ اس کے فوائد سے انکار ممکن ہی نہیں۔ کرنا ہم نے بس یہ ہے کہ اسے رائج کرنا ہے۔ اسے اپنانا ہے اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ ابنائے آدم میں اختلاف اول دن سے چلا آرہا ہے اور دم آخر تک اسے برقرار رہنا ہے کہ یہ فطرت ہے لیکن اس اختلاف کو برداشت کرنا اور رواداری کے ساتھ سمجھنا اور سننا صرف مکالمہ سے ہی ممکن ہے۔منتظمین نے تو دیا جلا دیا ہے۔ اب اسے جلائے رکھنا ہماری بھی ذمہ داری ہے۔ اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کے سرعام رکھ دیا۔

راشد احمد ایسا صحرا نشیں ہے جو پانی دھونڈتے دھونڈتے سچ کی تلاش میں نکل پڑا۔ راشد کی تحریر میں صحرا کی اداسی بھی ہے، اور سچ کی پیاس بھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply