حاجن کا ساجن۔۔ربیعہ سلیم مرزا

“آنٹی جی، ماما کہہ رہی ہیں تھوڑا سالن دے دیں”۔
باورچی خانے میں رات کے کھانے کی باقیات سمیٹتے کئی بار کی سنی آواز پھر سنائی دی۔میں نے گھوم کر دیکھا تو ساتھ والی حاجن کا بارہ سال کا حسن تھا۔اس کے ہاتھ میں چھوٹی سی پیالی تھی ۔
میں نے باورچی خانے سے اس سے بڑا پیالہ لیکر اس میں   سالن ڈالا ،اور پوچھا
“حسن ،آپ کی ماما نے آج کیا بنایا ہے؟”
حاجی صاحب کو بلڈ پریشر رہتا تھا ۔اور میرے کھانے میں نمک پتہ نہیں کیسے ہمیشہ زیادہ ہوجاتا۔۔
“کچھ نہیں آنٹی “حسن نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

میرے کانوں میں گزشتہ رات ہونے والے جھگڑے کا شور گونجنے لگا ۔آواز گلی کی  نکڑ والے مکانات تک بھی پہنچی ہو گی ۔حاجی کو چیختے سن کر اکثر حیرانی ہوتی کہ آواز اتنی اونچی بھی ہو سکتی ہے ۔؟.
حاجن کا گھر گلی میں بڑی کوٹھی، کے نام سے مشہور تھا۔پانچ سال قبل تیس لاکھ کے خریدے مکان کی قیمت پچاسی لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔آٹھ بچوں ، ساس سسر ملا کر گیارہ رہ افراد کے تمام کاموں اور روٹی پانی کا انتظام حاجن اکیلی کی ذمہ داری تھی ۔حاجن تھی بھی نام کی حاجن ۔ڈھلتی عمر اور اوپر تلے کی زچگیاں اپنا آپ دکھانے لگیں تھیں،پھر بھی سوہنی لگتی تھی ۔
حاجن نے ماں کا کہا پلو سے باندھا ہوا تھا کہ عورت کے پیروں میں بھی گن ہونے چاہئیں کہ چلتے پھرتے بھی کام نبیڑے۔
حاجن کی ماں کا خیال غلط ثابت ہوا۔ کام کی رفتار اور بچے بڑھنے کے ساتھ ساتھ گالیاں بھی بڑھتی گئیں ۔
حاجی نے شادی بچوں کیلئے نہیں کی تھی ۔بچے تو اس کا منافع تھے۔اوربیحد تابعدار بھی ۔
حاجن نے بھی اپنے بچوں کی بڑی اچھی تربیت کی تھی۔

ایک دن میں نے بڑی کوٹھی کا دروازہ کھولا،تو بڑی بچی صحن دھو رہی تھی۔خوبصورت اتنی کہ میدے میں سندور گھلا ہو۔
میں نے محبت سے کہا،” اتنی پیاری ماسی،
تو ہنس کر کہنے لگی
“آنٹی۔ماما کہتی ہیں پیسے بچیں گے اور گھر میں کام آئیں گے۔”
میں حاجن کی سمجھ پہ مسکرا دی اور اندر کی سمت چل دی۔

حاجن اور میں بہنیں کم پڑوسنیں تھیں ۔ایک دن میں نے حاجن سے ہر روز کے جھگڑوں کی وجہ پوچھی۔
حاجن کے چہرے پہ گلابو بن گئی ۔کہنے لگیں!
“بچے بڑے ہو رہے ہیں۔میں رات میں،انہیں وقت نہیں دے پاتی تو انکا موڈ بگڑ جاتا ہے ،ٹائم دیتی رہوں تو خوش رہتے ہیں”

اکثر لڑائی کھانا پکانے یا گھر کے اخراجات کے نام پہ ہوتی تھی ۔بال بچوں پہ خرچ کرنا تو اللہ کا حکم ہے ۔میں  اونچے مکان سے آتی اونچی آوازوں کو سن کر سوچتی ۔
سکول سے آنے کے بعد حاجن کا چھوٹا حسن سبزی منڈی میں چھابڑی والے کے ساتھ بیٹھتا تھا۔ رات میں کوئی سبزی وغیرہ لے آتا تھا۔چھوٹے دونوں بچوں کو پارٹ ٹائم حاجی صاحب نے گلی کی نکڑ پہ مچھر دانیاں ں بیچنے پہ لگایا ہوا تھا۔
حاجی صاحب کی دو ویگنیں بھی چلتی ہیں ۔

جب میں دیکھتی کہ  حسن ہاتھ میں ایک مردانہ شلوار قمیض پکڑے آتا اور کہتا “ماما جی !آج ابا کی یہ شلوار قمیض چھوٹی کر دینا،اب موٹے کپڑوں میں گرمی لگتی ہے” تو میری جھنجھلاہٹ بڑھ جاتی ۔
اس دن تو میرا صبر ہی ٹو ٹ گیا، حاجن کے سفید گال پہ انگلیوں کے ہلکے ہلکے نشان تھے۔سوالیہ نظروں سے حاجن کو دیکھا تو کہنے لگیں ۔!
” بچے پالنا آسان کام نہیں ۔رات کو آپکی طرف سے سالن منگوایا تھا۔حاجی صاحب کے لیے بچا نہیں ۔بس ناراض ہو رہے تھے۔آج میں انکو منا لوں گی۔تھوڑا غصہ کرتے ہیں پھر ٹھیک ہو جاتے ہیں ”

میری سننے کی سکت ختم ہو گئی۔دل چاہا حاجن کا دوسرا گال میں لال کردوں ۔

اگلے دن حاجن کے ہاں گئی تو بال سکھا رہی تھی، ہونٹوں پہ مٹی مٹی سی لالی اور آنکھوں میں چمک تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں سمجھ گئی کہ حسن آج سالن لینے نہیں آئے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply