• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک جنگ سڑکوں اور چوک چوراہوں پر بھی لڑی جائے۔۔۔قیصر عباس فاطمی

ایک جنگ سڑکوں اور چوک چوراہوں پر بھی لڑی جائے۔۔۔قیصر عباس فاطمی

جہانِ وسیع میں تیرتی ہوئی ہماری اس چھوٹی سی زمین پر مختلف الانواع جانداروں میں سے کئی ایک کی نسلیں معدوم ہو چکی ہیں۔ انسانون نے جہاں معدوم شدہ جانداروں کی باقیات سے ان کا سراغ لگا کر ان کے ڈھانچوں سے فرضی بدن بنایا اور حسن دنیا کو اور بھی بڑھانے کی کوشش کی، وہاں ہی دیگر معدوم ہوتی نسلوں کے جانداروں کو باقی رکھنے کی تگ و دو بھی جاری ہے۔ بی بی سی پر سائنس کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں جانداروں کی لگ بھگ 87 لاکھ انواع موجود ہیں۔ جن میں رنگ برنگے پرندے، عجیب الوجود حیوانات اور- ایک نوع انسان- شامل ہیں۔ ایک بات عجیب ہے، اور وہ یہ کہ باقی انواع کی نسلیں قلیل ہونے کی وجہ سے خطرے میں ہیں، جب کہ انسان کثرت آبادی کی وجہ سے ایسے مسائل کا شکار ہوتا جا رہا ہے جو کسی بھی بڑی جنگ جیسے خطرے سے ہر گز کم نہیں۔

بے ہنگم اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل ایک الگ موضوع ہے۔ اور اس پر دو آرا ہو سکتی ہیں کہ آبادی کا بڑھنا واقعی خطرہ ہے یا نہیں۔ مگر ایک خطرہ جو ہر انسان روز اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے وہ ہے سڑکوں، گلیوں اور چوک چوراہوں پر ننھے منے بچوں کا کم تر معیار زندگی میں سانسیں لینا اور انتہائی کسم پرسی، مفلسی اور مستقبل سے بے خبر رہتے بے مقصد زندگی کے اس کھیل کو جاری رکھنا۔

نسل انسانی کے سات ارب کے ہجوم میں کم از کم ڈیڑھ کروڑ بچے ایسے ہیں جن کی زندگی، رہن سہن، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا۔ سب کچھ کھلے آسمان کے نیچے گلیوں بازاروں سے وابستہ ہے۔ جن میں سے اکثر شاید یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ انہیں کس نے اور کیوں پیدا کیا۔ اپنی جبلی ضروریات کی تسکین کے لیے بھلے ہی وہ عام جانوروں سے کچھ زیادہ مہذب معلوم ہوتے ہوں، مگراجتماع انسانی میں جس طرح ان کو لاوارث کر دیا جاتا ہے، کچھ غلط نہیں کہ وہ دوسرے انسانوں کو نوچ نوچ کر کھا جائیں۔

ذاتی طور پر میں بچے پیدا کرنے کے حق میں ہی نہیں۔ مگر یہ موقف شاید اتنا زیادہ کنونسنگ نا ہو، مگر جن کو ہم جنم دے چکے، کیا ان کا ہم سے کوئی حق نہیں؟ کیا ہم اس قدر بے حسی اور خود غرضی کی زندگی گزار کر خود کو محفوظ سمجھیں کہ کل تک یہی لاوارث ہمارے جدید، پرامن، خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کے گلے میں ہڈی نہیں بن جائیں گے؟  تمام تر وسائل صرف کر کہ اور انتہائی محتاط تربیت دینے کے بعد بھی افراد کی قابل ذکر تعداد معاشرے کے لیے خرابی پیدا کر رہی ہوتی ہے۔ پھر یہ بچے تو۔۔۔۔۔۔ ان سے کس بنیاد پر بھلائی کی امید رکھی جائے۔ اور ان میں سے ہر ایک کی چونکا دینے والی کہانی! کوئی جنگ سے متاثر، کوئی اپنے ہی ماں باپ کا دھتکارا ہوا، کوئی گندگی کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا اور کوئی بھیک منگی کے لیے پیدا کیا گیا۔ کیا ان میں انتقام کی آگ نہیں جل رہی ہو گی؟

دیکھا جائے تو انسان بنیادی طور پر لالچی اور خود غرض ہی ہے۔ اور ممکن ہے یہ صفت صدیوں اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کی وجہ سے اتنی پختہ ہوئی ہو، مگر انسان میں ہمدردی اور خدمت کا جذبہ بھی اسی بقاء کی جنگ سے سیکھا گیا سبق ہے۔ کمزور کے لیے بقاء حیات ایک جنگ ہوتی ہے اور اسے یہ مرحلہ جنگ سمجھ کر ہی طے کرنا ہوتا ہے، مگر طاقتور اور صاحب اختیار کے لیے بقاء حیات ایک سودا ہے، جسے وہ اپنے نفع نقصان کو پہچانتے ہوئے طے کرتاہے۔ سماج میں موجود سماج سے الگ ان انسانوں کو آپ ہمدردی اور خلوص کی نیت سے اپنے حلقے میں شامل کریں یا اپنے مستقبل کے نفع نقصان کو سامنے رکھ کر! مگر یہ قدم اٹھانا ہی ہوگا۔ اپنے گھرمیں خواہ غلے کے گودام ہی کیوں نہ ہوں، بصورت قحط جب تک ہمارے پڑوسی کا پیٹ بھرا ہے ہم محفوظ ہیں ورنہ نہیں۔

حکومتی اقدامات کے علاوہ دنیا میں بہت سی تنظیمیں اس پر کام کر رہی ہیں۔ اور بہت سے لوگ مالی معاونت بھی کر رہے ہیں۔ مگر اسے خیرات اور کاروبار سے بڑھ کر ایک معاشرتی زمہ داری کے طور پر اپنانا ہو گا۔ کیونکہ یہ بچے اوکھے سوکھے ہو کر پیٹ تو پال ہی لیتے ہیں۔ اور پیسہ بھی کچھ نا کچھ کما لیتے ہیں۔ مگر ان کے سڑکوں اور گلیوں پر رہنے سے جو سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کا اثر ہمارے گھر کی دیواریں پھلانگ سکتا ہے۔ کیونکہ یہی بچے اکثر چوری، ڈاکہ زنی، ریپ اور ڈرگز جیسی گھناؤنی سماجی بیماریوں کی خوراک بن کر ان کو تقویت دیتے ہیں۔ (حالیہ سالوں میں بیت سے بچے دہشت گردی کے واقعات مین بھی ملوث پائے گئے) اور یہ مسائل کسی ایک ملک یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ پورے انسانی معاشرے کے لیے زہر ہیں۔ ایسے لاوارث اور انسانی معاشرے سے کاٹے گئے بچوں کو گھروں میں لانے کے لیے آج یہ جنگ سڑکوں اور چوک چوراہوں پر نا لڑی گئی، تو کل تک اپنی بقاء کے لیے وہ کسی بھی خطرناک جنگ کا آغاز کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 15 لاکھ سے زائد سٹریٹ چلڈرن موجود ہیں)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply