ڈرائی ڈراؤننگ(Dry drowning)۔۔عزیز اللہ خان

اُس وقت کے ایم پی اے اور آج کے منسٹر ایم این اے خسرو بختیار سے ایک بڑی جنگ کے بعد میری پوسٹنگ تھانہ صدر رحیم یار خان ہو گئی تھی مگر میری اس پوسٹنگ سے رانا سعید انسپکٹر مرحوم مجھ سے ناراض بھی ہو گئے تھے حالانکہ میں نے پوسٹنگ کروانے سے پہلے ان سے اجازت بھی لی تھی بعد میں کافی عرصہ میں اس امر کی وضاحتیں بھی کرتا رہا میں نے تھانہ صدر ہر اپنی حاضری کروا لی اعظم جوئیہ صاحب ایس ایس پی ضلع تھے صدر سرکل کے حلقہ افسر کرنل فرمان تھے کرنل صاحب نواز شریف اور محترمہ بینظیر کے پرسنل سٹاف آفسر رہے تھے اُن کی انہیں خدمات کے عوض حکومت نے اُنہیں محکمہ پولیس میں ضم کر دیا تھا کرنل صاحب جب کرنل کی یونیفارم پہن کر ڈی ایس پی کی کرسی پر بیٹھتے تھے مجھے عجیب لگتا تھا
تھانہ صدر کے علاقہ میں موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں بہت ہو گئی تھیں اُس وقت کا تھانہ صدر رحیم یار خان علاقہ اور رقبہ کے لحاظ سے کافی بڑا تھا تھانہ پر صرف ایک پُرانی ویگن ہوا کرتی تھی جو ہمیشہ خراب رہتی تھی اب اس تھانہ کے پانچ تھانے بنا دیے گئے ہیں جن میں تھانہ صدر تھانہ اقبال آباد تھانہ منٹھار تھانہ ائرپورٹ اور تھانہ آب حیات شامل ہیں

ایک دن میں مغرب کے وقت تھانہ ہر موجود تھا کہ رانا ارشد اے ایس آیی ایک 16/17 سال کے نوجوان لڑکے کو تھانہ پر لا کر میرے پیش کیا جو موٹر سائیکل چھینتے ہوئے موقعہ واردات پر لوگوں نے پکڑ لیا تھا جبکہ اس کا ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا لڑکے نے اپنا نام علیم بتایا اور بھاگنے والے ساتھی کانام انور بتایا رانا ارشد Asi کو میں نے انور کی گرفتاری کے لیے بھجوا دیا انٹیروگیشن کرنے پر لڑکے نے پانچ وارداتیں کرنی تسلیم کر لیں اور بتایا کہ وہ یہ موٹر سائیکل سونمیانی تھانہ بنگلہ اچھا ضلع راجن پور فروخت کر دیتے ہیں میں نے محرر تھانہ کو بلایا مدعی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا اور لڑکے کو حوالات میں بند کرنے کا بھی کہا اس کے بعد میں پبلک ڈیلنگ میں مصروف ہوگیا تھانہ صدر رحیم یار خان میں شام سے لیکر رات تک بُہت رش ہوتا تھا تقریباً 12 بجے میں کام سے فارغ ہو کر اپنی رہائش گاہ گلشن اقبال چلا گیا رات کو تقریباً تین بجے میں سویا ہوا تھا کہ دروازہ پر گھنٹی بجی تھوڑی دیر بعد لطیف نیازی ڈرائیور نے آکر بتایا کہ باہر نائب محرر اکبر نیازی آیا ہوا ہے آپ کو باہر بلا رہا ہے میں باہر آیا تو اکبر نیازی نے بتایا کہ رانا ارشد Asi جو ملزم لڑکا علیم پکڑ کر لایا تھا وہ تھانہ سے فرار ہوگیا ہے تھانہ کا سارا عملہ ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے گیا ہوا ہے میں آپ کو اطلاع دینے آیا ہوں میں نے لطیف کو گاڑی نکالنے کا کہا فوری طور پر تھانہ روانہ ہوگیا گلشن اقبال سے تھانہ کا فاصلہ صرف پانچ منٹ کا تھا تھانہ پر سوائے سنتری کے کوئی بھی نہ تھا اکبر محرر نے مزید بتایا کہ آپ کے جانے کے بعد ہم نے مدعی کے موٹر سائیکل چھننے کا مقدمہ درج گیا اور پھر دیگر کام میں مصروف ہو گئے کہ سنتری نے آکر بتا کہ ملزم علیم شور کر رہا ہے کہ اُس کی طبعت خراب ہو رہی ہے محرر نے مجھے کہا کہ جا کر دیکھوں میں حوالات کے پاس گیا تو علیم پیٹ پکڑے درد سے کراہ رہا تھا میں نے فوری طور پر حوالات کا گیٹ کھولا اور اُسے باہر آنے کا کہا اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے برامدہ میں بیٹھا دیا علیم نے پانی مانگا تو میں پانی لینے محرر کے کمرہ میں چلا گیا تھانہ میں کوئی بھی نہیں تھا گیٹ بھی بند تھا اور سنتری گیٹ پر موجود تھا ابھی میں پانی بھر ہی رہا تھا کہ سنتری نے شور کیا کہ علیم دوڑ کر ڈی ایس پی صاحب کے کمرہ کی دیوار کی طرف گیا ہے میں اور محرر باہر آئے دیکھا تو علیم ملزم ڈی ایس پی کے دفتر کے ساتھ کھڑے ٹریکٹر پر پاؤں رکھ کرتھانہ کی دیوار پر چڑھ رہا ہے ۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دیوار کی دوسری طرف چھلانگ لگا دی ۔میں اور محرر دوڑ کر گیٹ سے باہر نکلے اور تھانہ کی دیوار کے پاس گئے تو ملزم علیم غائب ہوچکا تھا۔ میں نے سنتری کو ہمراہ لیا اور سرکاری موٹر سائیکل پر اس کو ڈھونڈنے نکل پڑے ۔ گشت پر معمور ملازمین کو بھی بلوایا اور علیم کو ڈھونڈنا شروع کردیا ۔ میں اور سنتری نہرعباسیہ کے قریب پہنچے توایک مشکوک شخص نہر کی طرف جاتانظر آیا ۔چاندی رات تھی میں نے اسے آواز دی تو وہ دوڑ پڑا میں نے بھی موٹر سائیکل اس کے پیچھے دوڑادی تھوڑا قریب پہنچے تو وہ علیم ملزم تھا ۔ہمیں اپنے قریب پاکر اس نے نہر میں چھلانگ لگادی اور نہرکے دوسری طرف جانے کی کوشش کی ۔نہر کی گہری بہت زیادہ تھی اورپانی کا بہاؤتیز۔ وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا اور ڈوبنے لگا۔ میں نے فوری طور پر اپناموٹر سائیکل چھوڑ دیا اور بھاگ کر لوہے کی بنی ہوئی پُلی پر پہنچ کر علیم کاہاتھ جو اس نے باہر نکالا ہوا تھا پکڑنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ کافی تلاش کی مگر وہ نہ ملامجھے لگا کہ علیم ڈوب گیا ہے ۔۔۔میں واپس تھانہ پر آیا محرر تھانہ نے مجھے آپکے پاس بھیج دیا۔
میں نے ملزم علیم کے دیوار سے پھلانگنے کی جگہ غور سے دیکھی وہاں اس کے پاؤں کے نشانات لگے نظر آئے ۔ اسی طرح ٹریکٹر پر جمی مٹی کی دھول پر بھی اس کے پاؤں کے نشانات نظر آرہے تھے جن کو میں نے پلاسٹک کے ٹب سے ڈھانپ دیا۔اس کے بعد میں نہر پر اس جگہ گیا جہاں اکبر نیازی نائب محرر نے بتایا کہ یہاں سے علیم نے نہر میں چھلانگ لگائی ۔ وہاں پر بھی علیم کے ننگے پاؤں کے نشانات موجود تھے ان کو بھی میں نے ڈھانپ دیا۔رات کے چار بج چکے تھے میں نے حلقہ آفیسر کرنل فرمان کو بذریعہ ٹیلی فون تمام حالات بتائے وہ بھی تھوڑی دیر بعد تھانہ پر آگیا۔ان کو ملزم علیم کے پاؤں کے نشانات دیکھائے جنھوں نے مجھے ان نشانات کی تصاویر بنانے کا کہا ۔اگلی صبح ملزم کے تھانہ سے فرار ہونے اور نہر میں ڈوبنے کی خبر پورے رحیم یارخان میں پھیل چکی تھی ۔کافی تعداد میں لوگ اور علیم کے ورثاء تھانہ کے باہر اکٹھا ہونا شروع ہوگئے ۔جن کی قیادت میاں امتیاز (ایم ۔پی ۔اے) کر رہا تھا ۔میاں امتیازکافی سمجھدار اور معاون پولیس تھا جس کو میں نے تمام حالات بتائے کچھ دیر بعد ایس ایس پی اعظم جوئیہ کا ٹیلی فون بھی آگیا ۔کیونکہ ملزم علیم کے خلاف ایف آئی آر درج ہوچکی تھی وہ باقاعدہ گرفتار تھا اور محرر تھانہ کی نااہلی سے فرار ہوا تھا ۔اس لیے محرر تھانہ اور نائب محرر تھانہ دونوں پر ایس ایس پی صاحب نے مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ۔ میں نے محرر اور نائب محرر پر مقدمہ تو درج کرلیا لیکن انھیں گرفتار نہ کیا اور انھیں کہا کہ علیم کو تلاش کریں ہوسکتاہے وہ نہر سے نکل گیا ہو۔کیونکہ اتنے تیز بہاؤ والی نہر میں وہی آدمی چھلانگ لگائے گا جسکو تیرنا آتا ہو مگر اکبر نیازی نائب محرر بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ اس نے علیم کو ڈوبتے دیکھا ہے ۔۔اسے نہیں لگتا کہ وہ زندہ بچا ہوگا۔۔۔۔
میاں امتیاز (ایم ۔ پی ۔ اے ) نے مجھے بتایا کہ علیم تھانہ سے دوڑ کر اپنی بہن کے گھر جو کہ تھانہ سے قریب ہی تھا گیا تھا مگرا س کی بہن نے دروازہ نہیں کھولا کیونکہ قبل ازیں بھی علیم کی چوری اور ڈکیتی کرنے کی مختلف شکایات ان تک پہنچتی تھیں ۔ بہن کے دروازہ نہ کھولنے پر علیم جب نہر کے کنارے آیا تو اسے پولیس ملازمین نظر آئے اس لیے اس نے پولیس سے بچنے کے کیے نہر میں چھلانگ لگادی ۔مگر علیم کے ورثاء میں سے کچھ شر پسند لوگ اس بات پر بضد تھے کہ علیم کو پولیس نے تشدد کر کے ہلاک کردیا ہے اور لاش نہر میں پھینک دی ہے ۔ میں نے میاں امتیاز اور علیم کے ورثاء کو ہر طرح سے تسلی دی اور کہا کہ علیم کو تلاش کرتے ہیں اگر ڈوب کر مرا ہوگا تو لاش ملنے پرپتہ چل جائے گا ۔ اسی طرح اگرعلیم پر تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہوگا تو وہ بھی پوسٹ مارٹم میں ثابت ہوجائے گا۔
میاں امتیاز سے میں نے دو دن کا وقت لے لیااور علیم کی لاش نہر میں لاش کرنی شروع کردی ۔ محکمہ انہار کے افسران سے ملاقات کی ان سے پانی کے بہاؤ کے متعلق دریافت کیا کہ پانی کی اس رفتار کے ساتھ ڈوبنے والے انسان کی لاش کہاں تک پہنچ سکتی ہے ۔غوطہ خور بھی منگوائے تلاش کے باوجود علیم نہ تو زندہ ملا نہ مردہ۔۔دو دن بعد اب ورثاء میں اشتعال پیدا ہونا شروع ہوگیا۔میں نے میں امتیاز سے پھر وقت مانگا اور لاش کی تلاش جاری رکھی پانی کی رفتار کے حساب سے لاش کو دس سے بارہ کلو میٹر تک چلے جانا چاہیے تھا مگر لاش تھی کہ ملنے کا نہیں لے رہی تھی اور نہ علیم ملزم زندہ مل رہا تھا
آج پانچواں دن تھا محکمہ انہار والوں سے کہہ کر نہر پیچھے سے بند کروا دی تھی تاکہ لاش مل سکے صُبح صُبح محرر نے مجھے اطلاع دی کہ علیم نے جہاں نہر میں چھلانگ لگائی تھی وہاں سے صرف دو کلو میٹر دور سے اُس کی نعش مل گئی ہے جسکی شلوار میں ریت بھری ہوئی تھی ریت کے وزن سے نعش دور نہ جا سکی علیم کی آنکھ میں ایک سوراغ ہے ورثا کہہ رہے ہیں کہ اُسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا اور بعد میں لاش نہر میں پھینک دی تھی لاش کو شیخ زاہد ہسہتال بھجوا دیا گیا ہے ہسپتال کے باہر کافی تعداد میں لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں اور پولیس کے خلاف نعرہ بازی کر رہے ہیں میں بھی ہسپتال پُنہچ گیا پولیس لائن سے بھی نفری منگوائی گی تھی عوام میں اشتعال بڑھتا جا رہا تھا مگر میاں امتیاز اور دیگر معززین اُن کو سنبھال رہے رھے آخر کار یہ طے پایا کہ میڈیکل بورڈ کے پوسٹمارٹم کرنےبعد کے جب اصل صورت حال واضح ہو گی تب کاروائی کروائی جائے گی اور اگر پوسٹمارٹم میں تشدد ثابت ہوا تو پولیس والوں پر ضرور مقدمہ درج ہوگا مجھے ان حالات کو دیکھ کر تھانہ یزمان کا سارا وقوعہ یاد آگیا جس میں اسی طرح عوام نے تھانہ کو آگ لگا دی اور مجھے بقیہ پولیس ملازمین کے سارتھ جیل جانا پڑا تھا پوسٹمارٹم کے بعد اب رپورٹ کا انتظار تھا کیونکہ پوسٹمارٹم ایک بورڈ نے کیا تھا اس لیے ہر ڈاکٹر کی اپنی رائے ہو سکتی تھی
پوسٹمارٹم رپورٹ ابھی نہیں آئی تھی دوسرے روز وزیر اعظم نواز شریف نے راجن پور بزریعہ ہیلی کاپٹر جانا تھا اور پہلے رحیم یار خان ائیر پورٹ پر اُترنا تھا کیونکہ راجن پور کوئی ائیر پورٹ نہ تھا میری بھی ڈیوٹی سفید پارچات میں نواز شریف کے ساتھ لگی ہوئی تھی میں ڈیوٹی پر موجود تھا کہ مجھے ایس ایس پی اعظم جوئیہ کا فون آیا کہ ڈی آئی جی نے آپ کو سسپینڈ کر دیا ہے اور وہ آپ سے ناراض ہیں آپ ڈیوٹی چھوڑ کر فوری چلے جاو یہ نہ ہو کہ سیاستدان آپ کو دیکھ کر آپ کی شکایت کر دیں میں ڈیوٹی چھوڑ کر گھر آگیا اور آرام سے سوگیا پتہ نہیں ایسا کیا تھا جب بھی میں معطل یا لائن حاضر ہوتا تھا ایک تو مجھے سکون کی نیند آتی تھی اور میرے بچے بُہت خوش ہوتے تھے کہ والد صاحب گھر پر تو رہتے ہیں اب میں معطل اور لائن حاضر تھا

Advertisements
julia rana solicitors

پوسٹمارٹم رپورٹ آ گئی تھی لاش پر تشدد کے نشانات نہ پوئے گئے تھے آنکھ میں گولی کا سوراخ نہیں تھا بلکہ مچھلیوں نے آنکھ کو کھا لیا تھا لیکن ایک بات عجیب تھی کہ علیم کے پھیپھڑوں میں پانی نہیں تھا جب کہ عام طور پر ڈوب کر مرنے والوں کے پھیپھڑوں میں پانی کی موجودگی ہوتی ہے اب ورثا نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ علیم کو مار کر نہر میں پھینکا گیا ہے اور پولیس ملازمین پر قتل کے مقدمہ درج کرنے کی درخواست دے دی کیونکہ میں معطل تھا ان حالت میں جب کوئی پولیس والا معطل ہو تو کوئی بھی اُس کی بات سُننے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ لوگوں کو کام سے غرض ہوتی ہے بُہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ان حالات میں آپ کی مدد کرتے ہیں مگر میرے ایس ایس پی اعظم جوئیہ نے مجھے حوصلہ دیا کیونکہ وہ مجھے اچھی طرح جانتے تھے کہ میں اُن سے جھوٹ کبھی نہیں بولوں گا
ورثا کی درخواست پر ایس ایس ہی اعظم جوئیہ نے جوڈیشل انکوائیری کی درخواست بھجوا دی اور اب ہماری جوڈیشل انکوائیری شروع ہوگئی جوئیہ صاحب نے دس دن بعد ڈی آئی جی صاحب سے بات کر کے مجھے بحال کر دیا اور میری پوسٹنگ تھانہ کوٹ سبزل کر دی پوسٹنگ ہوتے ہی لوگوں کے رویے پھر بدل گئے وہ دوست جو مجھے فون کرنا چھوڑ گئے تھے اب اُن کے مبارک باد کے فون آنا شروع ہو گئے تھے رانا عقیل الرحمٰن انکوائیری افسر تھے وہ بھی پوسٹمارٹم رپورٹ اور حالات و واقعات کے تضاد سے پریشان تھے کہ اگر پولیس والوں نے علیم کو نہیں مارا تو پھر اُس کی موت کی وجہ کیا تھی ؟اگر یہ ثابت ہوجاتا کہ علیم کی موت ڈوبنے سے نہیں ہوئی تو ہم سب پر ایف آئی آر ہو جانی تھی اور ہم سب پھر سے جیل کے اندر؟
میرے ایک ڈاکٹر دوست محمود مرزا جو صادق آباد میں رہتے تھے سے میں نے بات کیا تو وہ ہنسنے لگے اور کہا کل میرے پاس آنا آپ کو بتاوں گا مجھے کُچھ ایک کتاب سے کنفرم کرنا ہے دوسرے روز میں پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس پُنہچ گیا محمود مرزا نے مودی کی لکھی ہوئی میڈیکل جیورس کتا ب سامنے رکھی ہوئی تھی جس میں آیک باب ڈرائی ڈراونگ کا بھی تھا اُس میں لکھا ہوا تھا اگر کوئی ایسا شخص جس کا سانس کسی وجہ سے پھولا ہوا ہو اور وہ پانی میں کود جائے اور اُس کو تیراکی بھی نہ آتی ہو تو خوف سے اُس کا دل بند ہو جاتاہے اور اُس کی موت واقع ہو جاتی ہے ایسی موت کو ڈرائی ڈراونگ کہتے ہیں مگر ایسی موت ہزاروں کیسیز میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے میں نے ڈاکٹر محمود مرزا کا شکریہ ادا کیا اگلی پیشی پر جوڈیشل انکوائیری میں مودی کی لکھی ہوئی میڈیکل جیورس رانا عقیل صاحب کو دیکھائی کیونکہ گواہان اور واقعات پہلے ہی ہمارے ہمارے حق میں تھے اس لیے انکوائیری پولیس ملازمین کے حق میں ہوگئی اور اس طرح میں اور میرے پولیس ملازمین ایک اور مصیبت سے بچ گئے
آجکل یہ روائیت بن گئی ہے کہ افسران اپنی پوسٹنگ بچانے کے لیے اپنے ملازمین کو حوالات تھانہ میں بند کر کے تصاویر سوشل میڈیا پر لگا دیتے ہیں اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ ملازمین بے گناہ تھے خدا کے لیے ایسا نہ کیا کریں ان کی بھی کوئی عزت ہے پوری تسلی کریں پھر جو مرضی سزا دیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply