بیچارے لڈن جعفری۔۔سید عارف مصطفیٰ

بلاشبہ لڈن جعفری کی شہرت اب چاردانگ عالم میں ہے کیونکہ وہ اب ایک دیومالائی کردار بن چکے ہیں یا بنائے جاچکے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو کچھ انکے بارے میں ضمیر اختر نقوی بتاچکے ہیں خود بیچارے لڈن جعفری کی روح کو بھی معلوم نہ تھا اور انکے ورثاء کو بھی خبر نہ تھی ۔۔۔ اور جب خبر عام ہوئی تو بہت دیر ہوچکی تھی یوں لڈن جعفری کو سوشل میڈیا پہ مذاق کا نشانہ بنانے کے ویسے تو بنیادی طور پہ ذمہ دار ضمیر اختر نقوی ہیں کہ جنہوں نے اس عجیب و غریب داستان کو بنایا اور اور بے مثال فنکاری سے کام لیا ،یعنی ایسی فنکاری کہ جس میں پر سے کوّا بنانے کے لیے خود کوّے کی ‌ضرورت بھی نہیں رہتی ۔ مگراس صورتحال کے لئے دوسرے درجے میں خود ان کے ورثاء بھی خاصی حد تک ذمہ دار ہیں کہ جنہوں نے فوری طور پہ نقوی صاحب کے ہاتھوں لڈن جعفری کے اس طرح آناً فاناً درجات کی بلندی کا نوٹس کیوں نہ لیا اور اب جب کہ انکی داستان کی گونج اوج ثریا تک جاپہنچی ہے تو وہ حسب توفیق جھینپ رہے ہیں اور بوکھلا کر اس کی تردید کرتے سنے جارہے ہیں ۔اس طرح تو نقوی صاحب کہیں کے نہ رہیں گے ۔۔ مطلب یہ کہ خانوادہء لڈن جعفری اس دیومالائی کہانی کی جو تردید اور وضاحت وہ اب کررہا ہے وہ پہلے ہی کیوں نہ کردی اور اک جھوٹی بات کا سچا بتنگڑ بننے سے بروقت کیوں نہیں روکا ۔۔۔ اب وہ یہ شکوہ کیوں کررہے ہیں کہ اس طرح کی باتوں سے انکے مرحوم رشتہ دار جناب لڈن جعفری صاحب کا مذاق اُڑ رہا ہے جسے بند کیا جائے۔

اور جہاں تک ضمیر اختر نقوی صاحب کا تعلق ہے تو ایک لڈن جعفری ہی کیا انکی پشت پہ تو نجانے کتنی مشکوک بلکہ مضحکہ خیز نت نئی و من گھڑت داستانوں کی گٹھڑی لدی ہے، جس میں سے ہر ایک نادر و لاجواب ہے اور کسی بھی سطح کی عقل رکھنے والے کو اٹا اٹ حیرت زدہ کردینے کے لیے کافی ہے ۔ اب اسی نیپال والے قصے کو لیجیے اور ذرا سوچیے کہ اگر آج کے دور میں واقعی ایسا واقعہ رونما ہوگیا ہوتا تو کیا یہ واقعہ تمام عالم ِ کفر کے مقابل اسلام کی حقانیت کا ایسا عملی ثبوت نہ بن گیا ہوتا کہ اس سے کفر کی لنکا تو آنا فاناً ہی نہ ڈھے  جاتی اور سی این این اور بی بی سی و فاکس نیوز کی سانسیں نہ چڑھ جاتیں ۔۔۔ چونکہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا کا ہر ہر مقام اب فوری طور پہ قابل رسائی ہے اس لئے کسی بھی معاملے کا کھوج لگانا مشکل نہیں رہا ۔

کالم نگار :سید عارف مصطفیٰ

تو پھر کیا دنیا کے نقشے پہ اک چھینٹ برابرنیپال کرہء ارض سے باہر ہے اور کیا مریخ یا پلوٹو پہ واقع ہے کہ یہ پتا نہ لگایا جاسکے کہ آخر نیپال میں کب اور کس مقام پہ یہ ‘عظیم وقوعہ ‘ پیش آیا اور کن کن افراد کو یوں دوبارہ زندگی مل گئی اور اور انکی دیگر تفصیلات کیا ہیں ۔۔۔ اور آخر ایسا کیا ہوا کہ وہ سابق مردے زندگی ملتے ہی چاند کے سفر پہ روانہ ہوگئے یا کسی جنگل میں جاچھپے ۔ ویسے بھی کسی مردے کو زندہ کرنے کا معجزہ تو اللہ رب العزت نے اپنی منشائے خاص سے صرف اور صرف حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ودیعت کیا تھا اور اللہ نے کبھی کسی نبی کا معجزہ کسی دوسرے نبی کو بھی نہیں دیا ناکہ غیر نبی یا غیر صحابہ کو ۔۔ویسے بھی جو رتبہ سیدالمرسلین کا ہے وہ کسی رسول کا نہیں‌اور جو رتبہ رسولوں اور انبیاء کا ہے وہ کسی غیر از نبی کا ہرگز نہیں ۔ اور اسی طرح جو رتبہ کسی صحابی کا ہے وہ غیر از صحابہ کسی کا نہیں علیٰ ھذا القیاس ۔

یہی نقوی صاحب ایک ویڈیو کلپ میں بڑے تیقن سے یہ بھی فرماتے نظر آتے ہیں کہ اگر مردے پہ خلوص اور دل سے سورہء فاتحہ پڑھ کر پھونکی جائے تو وہ زندہ کیا جاسکتا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر اللہ کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستی یعنی نبیء پاک نے غزوات کے شہداء اور اپنے فوت ہونے والے اہلخانہ کو اس طرح زندہ کیوں نہیں کردیا کیونکہ انہیں تو اپنے ان رفقاء اور اہلخانہ سے جو محبت تھی وہ بے مثل تھی ،اور اگر اس طرح مردے زندہ کیے جاسکتے ہوں تو پھر کہاں کا نظم کائنات اور پھر یہ مشیت ایزدی کس چیز کا نام ہے؟ ۔۔۔ چونکہ ہرزمانے میں اللہ کے نیکوکار بندے موجود رہے ہیں چنانچہ پھر تو یہ معمول بن جانا چاہیے تھا کہ انکی وساطت سے ہر متؤفی کے اہلخانہ تو اپنے مردوں کو فٹافٹ زندہ کرواتے رہتے اور یوں معاملہ قبر میں منکر نکیروں کی حاضری تک تو پہنچتا ہی نہیں ۔

سبھی اکابرین زندہ ہوتے اور بعد کے رکابرین کو پیدا ہونے اور رکابیاں سنبھالنے کے لیئے جگہ ہی نہ بچتی ۔۔۔ اوروں کو چھوڑیئے خود قبلہ نقوی صاحب نے ایسے معجزاتی عمل سے اپنے پیارے ملک الموت سے کیوں نہ چھڑالئے ۔۔۔

یہاں موصوف کے ایک اور مزیدار بلکہ دھماکے دار انکشاف کی بات بھی کیے لیتے ہیں کہ جو قائداعظم محمد علی جناح کے نام میں لفظ جناح کے حوالے سےہے اور قبلہ نقوی صاحب کے ذہن کی زرخیزی کی حتمی دلیل ہے کیونکہ اس میں قؤت تخیل کی ایسی کمال بلند پروازی دیکھنے کو ملتی ہے کہ بیچاری تاریخ کے پرخچے ہی اڑ جاتے ہیں ۔ موصوف نے فرمایا ہے کہ قائداعظم کے نام میں لفظ جناح دراصل ذوالجناح ہے جو کہ حضرت امام حسین کے گھوڑے کا نام تھا اور چونکہ قائداعظم کی ماں کی اولادیں شروع ہی میں انتقال کرجاتی تھیں اس لیے یہ منت مانی کہ اب کے اگر لڑکا پیدا ہوا تومیں اسکے نام میں ذوالجناح شامل کروں گی۔یوں نقوی صاحب کے انکشاف کی رو سے ہمارے قائد کا اصل نام محمد علی ذوالجناح تھا لیکن کثرت استعمال سے ذوالجناح کا لفظ محض جناح رہ گیا۔۔۔ اب اس مضحکہ خیز انکشاف کی حقیقت سے کون ایسا شخص واقف نہیں کہ جس نے قائد کی کوئی بھی سوانح پڑھ رکھی ہے اور جس میں یہ صاف صاف مرقوم ہے کہ قائداعظم کا لنکنز ان میں داخلہ جس نام سے ہوا تھا اس میں محمدعلی کے آگے گجراتی روایات کے مطابق انکا سرنیم بھی لگا ہوا تھا، یعنی جینڑا بھائی اور انہیں بیرسٹری کی جو ڈگری 30 مارچ 1895 کو دی گئی تھی اس پہ یہی نام موجود تھا مگر قائد نے اس ڈگری کو یہ کہہ کر واپس کردیا تھا کہ انہیں اپنے نام کے اگلے حصے میں میں تبدیلی کرنی ہے جس پہ لنکنز ان کی طرف سے انہیں 15 یوم میں اپنے تبدیل شدہ نام سے آگاہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ قائد نے اس دوران عربی و فارسی کے کئی علماء اور اہل علم سے رابطہ  کرکے ایسا لفظ تجویز کرنے کو کہا کہ جو لفظ جینڑا سے کچھ قریب ہو اور جس کے معانی بھی مناسب ہوں‌اور بالآخر نہیں ایک عربی لفظ جناح مل ہی گیا جس کا مطلب تھا بازو اور یوں 30 مارچ 1895 کو انہیں اس نام سے ڈگری عطا کردی گئی۔

دیکھیے اس نام کی بابت یہ سب تفصیل بتاتے ہوئے مجھے کتنی تاریخ بیان کرنی پڑی ہے لیکن یہ جو ضمیر اختر صاحب ہیں انکے ساتھ ایسا کوئی بکھیڑا نہیں کوئی کھکھیڑ نہیں ۔۔آسانی سے گھر میں کھڑے کھڑے تاریخ بناتے ہیں اورمسند پہ بیٹھے بیٹھے وباء کی مانند آگے پھیلاتے ہیں‌ ،اسی خاص ہنر کے باعث انہوں نے فرانسیسی فاتح نپولین کا وہ سلام بھی گھڑ لیا ہے کہ جو تاریخ کی کسی کتاب میں موجود ہی نہیں ہےاور جو میر قطعی لکھنوی رنگ میں ہے بلکہ میرانیس کا چربہ معلوم ہوتا ہے اور اس سے نپولین قیصرباغ ‌کے پچھواڑے کا مکین معلوم ہوتا ہے ۔آپ خود ہی بتائیے کہ جب کوئی گیانی ایسےتاریخ سوز انکشافات کرنے پہ کمر باندھ لے تو پھر اس پہ کسی بھی عقیدے اور کسی بھی مسلک کا محقق غش کیوں نہ کھائے ؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے بھی ضمیر اختر نقوی کے وجد آفریں تاریخی حوالے مذہب و مسلک سے آگے بڑھ کر عقل و شعور کی سب حدود پھلانگ چکے ہیں۔یوں ایسے بدہضمی انگیز انکشافات پہ سو لفظی کہانیوں والا مبشر زیدی سر دھنے تو دھنے ، مگر یہ خاکسار سیدعارف مصطفیٰ اپنا سر کیوں نہ پیٹے۔۔ ہم نے اس سلسلے میں محقق دوراں عقیل عباس جعفری سے رجوع کیا تھا کہ تحقیق و تفتیش انکا خاص میدان ہے اور کوئی فرد ذرا بھی کوئی غلط تاریخی حوالہ دیدے یا مشتبہ سی بات کردے تو وہ اس کے دعوؤں اور انکشاف کا پوسٹ مارٹم کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ، مگر ان کی جانب سے تو مکمل سکوت ہے ۔۔ ایسا سکوت کہ  جو یا تو سکتے و صدمے سے ممکن ہے یا پھر معنی خیز خیال خاطر احباب کا آئینہ دار ہے ۔ جو بھی ہو ، ہم کو تو اب چونکہ ضمیر اختر نقوی نے مسلسل زندہ رہنے کا نسخہ تھمادیا ہے تو اب ہمارے اہلخانہ پس ماندگان میں شامل ہونے کا قطعی نہ سوچیں بلکہ پڑھنے پھونکنے کے لیئے ایکدم چوکس ہوجائیں ورنہ جان لیں کہ نیپال بھی کوئی زیادہ دور تو نہیں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply