علم۔۔حافظہ عائشہ احمد

علم ایک ایسا سمندر ہے جس میں انسان جتنے گہرے انداز میں غوطہ زن ہو اتنا ہی فائدہ حاصل کر سکتا ہے ۔ انسان اور دیگر مخلوقات میں بنیادی فرق علم ہی کی وجہ سے ہے۔ علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو مہذب بناتی ہے اور اچھے اور بُرے کا فرق سمجھاتی ہے ۔علم کے معنی جاننا، پہچاننا، یقین حاصل کرنے کے ہیں ۔ علم دو طرح کے ہیں ایک وہ جو دل میں ہے وہ نفع بخش علم ہے اور دوسرا وہ جو زبان پر ہے ،وہ بندوں کے خلاف اللہ کی حجت ہے ۔ اللہ تعالی نے علم کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ۔ اللہ رب العزت نے تمام انبیاکو علم کے خزانے سے مالا مال کیااور علم کو انبیاءکی میراث قرار دیا ۔ علم کو خزانے سے تشبیہہ دی اور فرمایا کہ جس علم کو بیان نہ کیا جاۓ وہ اس خزانے کی طرح ہےجس میں سے خرچ نہ کیا جاۓ ۔ کہا جاتا ہے کہ علم خزانہ ہے اور سوال کرنا اس خزانے میں مزید اضافہ کرتا ہے۔

علم کی ابتدا کہاں سے ہوئی ، اس کااندازہ لگانا مشکل ہے لیکن کہا جا سکتا ہے کہ علم کی ابتدا فرشتوں سے ہوئی، جب رب نے ان سے فرمایا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانا چاہتا ہوں ،انہوں نے جواباً عرض کیا کہ مولا تو وہ مخلوق بناۓ گا ،جو زمین میں فساد پھیلاۓ گی، اللہ نے ارشاد فرمایا جس بات کا میں علم رکھتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے ۔ پھر علم پہنچا آدم علیہ السلام تک جہاں شیطان کی ساری عبادت و ریاضت کسی کام نہ آئی  اور علم فتح یاب ہوا۔ عبادت گزار فرشتوں کو علم کی وجہ سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا پڑا ۔ آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لاۓ تو علم ہی کے ذریعے ان کی توبہ کو قبول کیا گیا، نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا علم عطا کیا گیا ، ابراہیم علیہ السلام نے علم کے ذریعے کعبة اللہ کی تعمیر کی، زکریا علیہ السلام نے علم کے ذریعے بڑھاپے میں رب سے اولاد مانگی، موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کی ملاقات علم وحکمت کے حصول کی اہمیت کا درس دیتی ہے ،یونس علیہ السلام علم ہی کے ذریعے مچھلی کے پیٹ سے دعا مانگ کر باہر آۓ، یو سف علیہ السلام علم ہی کے ذریعے قید سے رہا ہو کر مصر کے تخت تک پہنچے اور سلیمان علیہ السلام نے علم ہی کے ذریعے دنیا پر حکومت کی۔ پیارے آقاﷺ پر پہلی وحی اقرا یعنی پڑھ نازل ہوئی  اور تمام مسلمانوں کے لئے  علم کو اس حدیث کے ذریعے فرض قرار دے دیا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ۔صحابہ کرامؓ کے لئے  مسجد نبوی ﷺ میں ایک جگہ مختص کی گئی  جس میں انھیں علم کی دولت سے مالا مال کیا جاتا۔ آقاﷺ کی علم سے متعلق ایک مشہور حدیث کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہےسے علم کی اہمیت اجاگر ہو جاتی ہے۔

اللہ رب العزت کی جانب سے مرتے وقت کلمہ طیبہ کا علم دیا گیا اور قبر میں سوالات کا سلسلہ بھی علم ہی سے تعلق رکھتا ہے ۔ دنیا علم سےشروع ہو کر علم پر ہی ختم ہوتی ہے تو پھر آج ہم علم سے اتنے دور کیوں ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

سو چیے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply