ڈپریشن معاشرے کا ناسور۔۔شمیلہ خورشید

اک انسان زندگی سے اس حد تک ناامید ہو جاتا ہے کہ وہ خود کی ہی زندگی ختم کر دیتا ہے آخر کیوں؟
کیا وجوہات ہیں کہ نئی نسل ذہنی امراض سے دوچار ہے۔؟اٹھارہ سے پینتیس کے   درمیان نوجوانوں کی شرح ذہنی امراض روز مرہ کے  حساب سے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔

اک ہیلتھ سروے کے مطابق عالمی سطح پر سب سے زیادہ ادویات ” ڈیپریشن “کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا پہ ہنستے مسکراتے چہرے حقیقت میں بھی اتنے ہی خوش ہیں؟۔اور حال ہی میں اک نوجوان اداکار سوشانت سنگھ  راجپوت کی خودکشی،چار سال سے ذہنی مرض میں مبتلا تھے۔آخر ایسا کیا ہو جاتا ہے اک انسان اپنی جان ختم کر دیتا ہے۔ہر دوسرا بندہ  آئرن کی کمی نہیں بلکہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ ڈپریشن اک طرح کا کینسر ہے جو جان لیوا بھی ہے اور اس کا علاج بھی موجود ہے۔یہ انسان کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔لیکن ڈپریشن کو عموماً لوگ  سنجیدگی سے  نہیں لیتے ۔یہاں نقطہ یہ ہے جب یہ اک جان لیوا  مرض ہے تو اس کو کیوں اہمیت نہیں دی جا رہی۔؟ یہاں مختلف وجوہات پائی جاتی ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ، لوگ کیا کہیں گے؟
کوئی برا نہ مان جائے ؟
لوگ پاگل کہیں گے،
اتنی بڑی بات نہیں سر پہ سوار مت کرو

اور عموماً ہمارے معاشرے کا  سب سے بڑا خوف اور  اہم مسئلہ” ہماری ناک کٹ جائے گی”ہے۔۔ یہاں یہ چیز واضح ہو جائے کہ ڈپریشن کسی بھی انسان کی ذاتی کمزوری نہیں۔۔۔
نہ ہی کوئی  لاعلاج مرض ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اک عام انسان کو اس حال تک پہنچانے میں ہمارا ماحول،سوشل میڈیا، ہمارا معاشرہ بڑی ایمانداری سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے جس میں والدین اور فیملی کا کردار نمایاں ہے۔ڈپریشن اک دم سے ظاہر ہونے والی بیماری نہیں ہے۔ ماہرین کے  مطابق ڈپریشن کسی بھی شخص کو ہو سکتا ہے۔اگر آپ روز مرہ کے  معمولات میں جھنجھلا جاتے ہیں تھکن محسوس کرتے ہیں ،سر درد کی شکایت رہتی ہے، نیند نہیں پوری ہو رہی، بات بات پہ غصہ آتا ہے ،یاداشت  متاثر ہو رہی  ہے،بستر سے نکلنے کو دل نہیں کرتا تو گویا آپ کو بھی علاج کی ضرورت ہے۔ڈپریشن انسان کے  اندر جمع  ہونے والی تمام ان باتوں کا مجموعہ ہے جو وقتا فوقتا انسان کے مزاج پہ گراں  گزرتی ہیں۔۔۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بیماری سے نجات کیسے پائیں؟

کیسے مدد کریں ایسے مریض کی ؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں ڈپریشن کے دو درجے ہیں ۔اک ہلکے درجے کا ڈپریشن جو ڈائریکٹ  جسمانی طور پر نمودار ہوتا ہے سر درد،نیند کی کمی،بے چینی،تھکاوٹ، چڑچڑا ہونا ۔جس کا علاج جسمانی صحت کا خیال رکھ کر ممکن ہے ۔اچھی غذا کا استعمال کرنا ورزش کرنا ریسٹ کرنا وغیرہ ۔دوسری طرف آخری مرحلہ جس کا جسمانی صحت سے تعلق نہیں ذہن پہ اس قدر خمار ہے کہ اک مخلص انسان کی ضرورت ہے بس تو ہمیں وہ مخلص انسان بننا ہے جو اگلے بندے کی بات مکمل سنے ،اس کو مزید بولنے کا موقع دے اس کی ہر بات کا جواب دے اسکا حوصلہ بڑھائے اسکے غم میں شریک ہو۔اگر نفسیاتی ڈاکٹر کی ضرورت ہے تو دیر نہ کریں۔ماہر نفسیات کو دکھائیں۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply