شخصی آزادی سے جنم لیتے مسائل۔۔۔رابعہ احسن

اکثر ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے ایسی بھاری تلخیاں سامنے آجاتی ہیں کہ گفتگو چاہتے ہوئے بھی انتہائی ناخوشگوار ہوجاتی ہے ایسی حقیقتیں سامنے آتی ہیں جو شاید دوسروں کیلئے کوئی عام سی روزمرہ کہانی ہوں ،جو ادھر ادھر اکثر بنتی اور مٹتی رہتی ہیں ،پھر وہی بات کہ اس تیز رفتارزندگی میں پتہ بھی نہیں چلتا کب کیا ہوا کس کا کتنا نقصان ہوا، اور کسی کے نقصان سے کسی کی اخلاقیات   کھل کے سامنے آئیں۔ آج ہمیں اگر پتہ بھی ہو کوئی اخلاقی طور پہ انتہائی زوال پذیر ہے تو ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے وقت میں صرف ایک دوسرے کے ساتھ   لگ کے تصویریں  بنا  لی جاتی ہیں اور  فوراً فیس بک پہ شیئر کردی جاتی ہیں ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمیں فرق نہیں پڑتا، مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہمیں واقعی کسی کا کوئی اخلاقی مسئلہ، مسئلہ لگتا بھی  ہے یا تیز رفتاری  کے   دور میں اخلاقیات اور اقدار کے معیار بھی بدل گئے ہیں؟

انسان جذبات کی رو  میں  بہہ کر   اکثر بڑی بڑی غلطیاں کربیٹھتا ہے، آخر ہے تو انسان ہی۔ لیکن کوشش ہونی چاہیے کہ جذبات پر قابو رکھا جائے،ہمارا مذہب بھی یہی سکھاتا ہے ،معاشرے کی بقا اور فلاح کیلئے اورخود سے جڑے رشتوں اور لوگوں کی توقعات پہ پورا اترنے کیلئے ہمیں اپنی جذباتیت سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ لبرل سکول آف تھاٹ کا خیال مختلف ہے اپنی منطق میں وہ بھی کسی حد تک درست ہیں کہ خاندانی ،معاشرتی اور سماجی تقاضوں کو بخوبی پورا کرنے کے چکر میں اکثر اوقات لوگوں کو اپنے بہت سے فطری جذبوں کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے، بیرونی دنیا میں تو سب  چلتا رہتا ہے مگر اندرونی طور پہ بہت  خلا  پیدا ہوجا تا ہے،  اس  خلا  کو اگر بروقت پُر نہ کیا جائے   تو یہ اندرونی خلفشار ڈپریشن، اینگزائٹی، نروس بریک ڈاؤن جیسے نفسیاتی مسائل کے ساتھ  ساتھ  بعض اوقات جسمانی بیماریوں کا بھی  پیش خیمہ بن جاتا ہے۔

آج انٹرنیٹ کے دور میں جہاں سب مسائل کا حل ایک کلک کے فاصلے پر موجود ہے، وہیں بہت سے مسائل بھی اسی ایک کلک کی وجہ سے ہمارے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں ۔انہی میں سے ایک مسئلہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کچھ خواتین اپنی پوشیدہ ویڈیو بنا کر اپنے دوستوں کو بھیج دیتی ہیں ،اور اس عمل کو شخصی آزادی کا نام دیا جاتا ہے   ۔حالانکہ کینیڈین قانون شخصی آزادی تو دیتا ہے مگر سائبر کرائم اور سائبر بلنگ جیسے سنگین مسائل سے بھی  خبر دار کرتا ہے۔

لیکن ہمارے یہاں ایک عمومی سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ عورت جو بھی غلط کر بیٹھے ،ا س کا ذمہ دار صرف اس عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے،اور وہ مرد جس کے کہنے پر وہ غلط کام کیا گیا، جو اس گناہ میں برابر کا حصے دار تھا،وہ صاف بچ نکلتا ہے۔ہر عمل کے پیچھے کچھ  محرکات ہوتے ہیں  عورت اگر اپنے جسم کی حفاظت نہیں کرپاتی تو اسے اس عمل پہ اکسانے والا بھی مرد ہی  ہوتا ہے،جو محبت کے نام پر اسے مجبور کرتا ہے ایسا کوئی بھی کام کرنے کے لیے،اور ایسے کیسز میں بعد میں یہی مرد وہ ویڈیوز یا تصاویر منگوانے کے بعد گھٹیا پن پر اتر کر اسی عورت کو جس سے پیار محبت کے دعوے کیے تھے ،بلیک میل کرنے لگتا ہے۔ایسا کرنا سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے،اور اس حوالے سے خوش کن اقدام یہ ہے کہ پاکستان میں اس جرم پر باقائدہ سزا دی جارہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتوں کے بھی بہت سے ایسے روپ ہیں جوواقعی بہت شرمناک  ہیں مگر بات پھر  وہیں آجاتی ہے  کہ ایسے لوگوں کو اخلاقی اور جذباتی ٹریننگ درکار ہوتی ہے ان محرکات کا علم اور ان کا سدباب اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply