• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آج ہم کہاں ہیں؟ کیا کل بھی ہم یہیں کھڑے ملیں گے؟۔۔ذیشان راٹھور

آج ہم کہاں ہیں؟ کیا کل بھی ہم یہیں کھڑے ملیں گے؟۔۔ذیشان راٹھور

ناسا  ،چاند اور دوسرے سیاروں پر زندگی بسانے کی غرض سے مسلسل سپیس مشنز پر کام کر رہا ہے، سائنس سر توڑ کوشش کر رہی ہے کہ ٹیکنالوجی کے “جی” increase کر سکے، کووِڈ-19 کے آؤٹ بریک کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک اپنے نظامِ صحت کو renew کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں, جن بلیک ہولز کو کل تک کوئی جانتا نہ تھا، آج ان کی تصاویر اور ایک ممکنہ طاقت  دنیا کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔

وہ وقت بھی آ جائے گا جب ناسا زمین سے باہر دوسرے سیاروں پر زندگی دریافت کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوگا، سائنس تھری سے فور، پھر فور سے فائیو اور آگے سینکڑوں G’s تک کا سفر طے کر چکی ہوگی، بہت سے ممالک مہلک بیماریوں کے علاج کیلئے روبوٹک ڈاکٹرز ایجاد کرکے اپنے ڈاکٹروں کی زندگی خطرے سے کوسوں دور لے جا چکے ہوں گے۔
مگر۔۔

پاکستان کے ہمارے ویہلے اور بیوقوف اس زمانے میں بھی باغِ فِدک کی ملکیت پر ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہوں گے، اس وقت بھی اِن کے ہاں ایمانِ ابو طالب ہاٹ ٹاپک ہوگا, یہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی انگوٹھے چومنے یا نا چومنے پر دلائل دے رہے ہوں گے، یہ تب بھی اسی سوچ میں گم ہوں گے کہ یارسول اللہ صرف سعودیہ جا کر کہنا ہے یا پاکستان میں بھی جائز ہے۔

یہ کھپ کھپایا دنیا کے تقریباً سبھی مذاہب کی کمزوری رہی ہے، چودہ صدیاں گزر چکیں اسلام کو وجود میں آئے ہوئے، لیکن دنیا سے بالکل کٹے ہوئے ہمارے یہ لوگ  14 سو سال پہلے گزرے لوگوں کے ایمان اور جنت جہنم کے فیصلے کر رہے ہیں۔وہ بھی نہائیت تسلی سے۔

خدا کا نام لیں آپ لوگ،اور کچھ اچھا سوچیے،فضول میں کسی دوسرے کے ایمان اور حق ناحق کے مامے چاچے نہ بنیں، کچھ اچھا سوچیں، اچھا دیکھیں، اچھا پڑھیں اور دنیا کے برابر نہیں تو کم سے کم اس رَیس میں ہی شامل ہونے کا کوئی پلان بنا لیں، کیونکہ آپ کے باپ دادا، ان کے باپ دادا اور ان کے باپ دادا بھی انہی مباحثوں میں الجھے رہے، مگر پھر بھی ان معاملات میں کوئی واضح فیصلہ نہیں کر سکے تو تم کس کھیت کی مولی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب یہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو انہی لاحاصل مباحثوں میں الجھائے رکھنا ہے یا ان کے لیے مثبت سوچ اور جستجو کی نئی راہیں فراہم کرنی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply