• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا: وزیر اعظم کیپٹن اننگز کھیلنے کیلئے میدان میں آئیں۔ ۔ڈاکٹر عبدالواجد خان

کرونا: وزیر اعظم کیپٹن اننگز کھیلنے کیلئے میدان میں آئیں۔ ۔ڈاکٹر عبدالواجد خان

پاکستان میں عید سے قبل لاک ڈاؤن میں حکومت کی طرف سے کی جانے والی نرمی کے بعد توقع کے عین مطابق کرونا سے متاثرین اور اموات کی تعداد میں ہر روز ریکارڈ اضافہ ہو ر ہا ہے۔ پاکستان میں متاثرہ افراد کی تعداد چین سے زیادہ ہو چکی ہے اور اس وقت پاکستان کرونا سے دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں دسویں نمبر پر آگیا ہے۔اس وقت کی صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ خود بھی کرونا سے بچنے کیلئے مکمل حفاظتی اقدامات کریں اور دوسروں کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے بھی اپنے آ پ کو بچائیں۔

9 مئی کو کرونا متاثرین کی تعداد تقریباً 24 ہزار تھی جبکہ مجموعی اموات 590 تھیں۔14 مئی  کو کیسز کی تعداد 25 ہزار تین سو تئیس اور اموات 770 تھیں اور 14 مئی  کو چوبیس گھنٹے کے دوران 9 اموات رپورٹ ہوئیں ۔جبکہ صرف 26 دن کے بعد 6 جون کو پاکستان میں متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً ایک لاکھ اور اموات 2000 ہو چکیں ہیں۔

یہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن نرم ہونے کے بعد 14 مئی  سے 6 جون تک صرف 26 دنوں کے دوران 1030 اموات اور 75000 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ اس سے قبل 26 فروری سے 14 مئی  تک دو ماہ 23 دن کے دوران متاثرہ افراد 25000 اور اموات کی تعداد 770 تھی۔اس طرح سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد اموات اور متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ کی شرح میں بہت  زیادہ اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔اور اس کی بنیادی اور بڑی وجہ لاک ڈاؤن میں نرمی اور کسی حد تک ٹیسٹوں میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

اس وقت کرونا کے پھیلاؤ میں 24 گھنٹوں کے دوران مسلسل بہت تیزی اور اموات کی شرح میں بھی بلند اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 6 جون کو 24 گھنٹے کے دوران ریکارڈ 97 اموات اور 4734 کیسز رپورٹ ہوئے ۔اب تک کرونا سے تقریباً 30 ڈاکٹر اور 20 پیرامیڈیکس اور تقریباً 10 قانون نافذ کرنے والے اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔جبکہ سینکڑوں ڈاکٹر اور اہلکار متاثر ہو کر گھروں یا ہسپتالوں میں کورنٹائن ہو چکے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 15 جون تک اموات 2750 سے 3250 اور متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار سے ایک لاکھ پچیس ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق پاکستان میں ابھی  کرونا  کا ابھی انتہا کو چھونا باقی ہے۔ اب باشعور عوام میں اپنے عزیز و اقربا اور قرب و جوار میں کورونا سے ہونے والی اموات سے خوف اور ڈیپریشن کا عنصر شدید بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے ۔لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت آ ج بھی کرونا کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں۔ جبکہ روزانہ ملک کی بہت سی ممتاز سیاسی ،سماجی، ادبی و تعلیمی شخصیات کی اس وائرس کے ہاتھوں جان کی بازی ہار نے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں اور بہت سی ایسی شخصیات کورونا کے خلاف گھروں یا ہسپتالوں میں جنگ لڑ رہی ہیں۔

اس وقت ملک میں تقریباً 1300 افراد آئی سی یو میں زیر علاج ہیں اور پاکستان کے مخصوص کلچر اور مائنڈ سیٹ کے مطابق ہسپتالوں میں آنے سے ڈرنے والے لاکھوں افراد گھروں میں اپنے طور پر اس مرض سے لڑ رہے ہیں۔ڈاکٹرز کے مطابق اس طرح کے اکثر مریض انتہائی  سنجیدہ حالت میں یا تو ایمبولینسوں یا ہسپتالوں میں پہنچتے ہی دم توڑ رہے ہیں ۔ڈاکٹر بڑے شہروں کے پبلک و پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریضوں کیلئے گنجائش ختم ہونے کی خبر دے رہے ہیں۔

دوسری طرف وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان کرونا پر سیاست  اور  ایک دوسرے پر الزامات کی گولہ باری جاری ہے۔ جس سے عوام میں کرونا سے لڑنے کے حوالے سے  کشمکش پیدا ہورہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان معیشت اور کمزور معاشی طبقے کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن نہ کرنے کی پالیسی پر مسلسل اصرار کر تے ہوئے پاکستان کو سمارٹ لاک ڈاؤن کا آ غا ز کرنے والے ملک بنانے کا کریڈٹ لیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حالات کی خرابی کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔اور ذمہ داری عوام پر ڈالتے ہوئے بھی نظر آ رہے ہیں۔

ان حالات میں پاکستان میں کرونا کی وبائی  صورتحال کو 13 ہفتے گزر جانے کے بعد وفاقی حکومت کو کرونا کے حوالے سے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔پہلا چیلنج تو یہ ہے کہ وہ کرونا کے بارے میں اپنی اینٹی لاک ڈاؤن پالیسی کو کس طرح درست ثابت کرتی ہے کیونکہ حکومت کے نزدیک کرونا کا مسئلہ صرف ہیلتھ ایشو نہیں بلکہ ہیلتھ اکنامک ایشو ہے۔جس میں بہرحال وزن ہے۔لیکن لاک ڈاؤن کرنے ،نہ کرنے اور کرونا سے نمٹنے کے بارے میں حکومت کے حلقوں میں آ غاز  سے ہی ابہام پایا جاتا رہا ہے اور یہی ابہام کرونا کے بارے میں واضح پالیسی بنانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور عوام میں کورونا کے حوالے سے مختلف سازشی تھیوریز کے پنپنے کا باعث بنا ہے۔ حکومت کے مختلف ذمہ داران کی طرف سے مختلف پیغامات عوام میں کورونا کے حوالے سے غیر سنجیدہ رویہ پیدا کرنے کا باعث بنے ہیں۔

ایک وفاقی شخصیت کرونا کو سنجیدگی سے لینے کا کہہ رہی ہوتی ہے تو دوسرا حکومتی عہدیدار اسے سی کیٹیگری کا وائرس قرار دے رہا ہوتا ہے ۔ایک پی ٹی آئی لیڈر لاک ڈاؤن کو فیشن قرار دیتاہے اور وزیراعظم کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان سے لاک ڈاؤن تو اشرافیہ نے کروادیا۔ اسی طرح وزیر اعظم ایک طرف عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہہ رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف خود آ ئی ایس آ ئی  کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کرتے ہوئے ماسک کے بغیر نظر آرہے ہوتے ہیں جبکہ چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آ ئی  ایس آئی  نے ماسک پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔اس طر ح کے پیغامات عوام میں کرونا کے حوالے سے غیر سنجیدہ رویہ پیدا کر رہے  ہیں  ۔

اس وقت جبکہ کرونا تیزی سے پھیلنے اور اموات میں اضافہ ہونے جارہا ہے ضروری ہے کہ کرونا کے حوالے سے حکومت کی پالیسی بالکل واضح ہونی چاہیے۔ملکی دگرگوں معاشی حالت اور 25 فیصد عوام کے غربت کی سطح سے نیچے ہونے کی وجہ سے سخت لاک ڈاؤن نہ کرنے کی حکومتی پالیسی میں وزن ہے لہذا اس کے بارے میں حکومت کی طرف سے ایک ہی پیغام اس طرح عوام تک جانا چاہیے کہ اس سے عوام میں کرونا کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا تاثر پیدا نہ ہو اور اور یہ پیغام رسانی رنگ برنگے موقف کے حامل افراد کے بجائے ذمہ دار مخصوص افراد کے ذریعے کی جائے۔

پریس کانفرنسوں سے کام چلانے کے بجائے عوام میں آگاہی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے سنجیدگی پیدا کرنے کیلئے موثر آڈیو وڈیو پیغامات نشر کرا نے کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر کسی رو رعایت کے بغیر سختی سے قوانین پر عمل کرایا جائے۔زیادہ متاثرہ علاقوں کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کردیا جائے۔حکومت واضح طور پر طے کرے کہ اس نے کیا کرنا ہے اور عوام کی کیا ذمہ داری ہے ۔تمام تر ذمہ داری عوام پر ڈالنا مناسب نہیں اور اس سلسلے میں ہمارے عوام کے عمومی غیر ذمہ دارانہ مزاج کو پیش نظر رکھ  کر اقدامات کیے جانے ضروری ہیں۔

حکومتی پالیسی واضح ہو اور بتایا جائے کہ اس پر عملدرآمد کے لیے کیا  طریقے  استعمال کیے جائیں گے۔وزیراعظم اور دیگر حکومتی عہدیداران ایسا کوئی  موقف اختیار نہ کریں جس سے حکومتی بے بسی کا تاثر اُبھرتا ہو۔وزیراعظم کو سیاسی اختلافات اور مفادات سے بالا تر ہو کر کیپٹن اننگز کھیلتے ہوئے صوبہ سندھ سے اس معاملے پر اختلافات کو ختم یا کم از کم اس وقت بھولتے ہوئے خود تمام صوبوں کا دورہ کر کے متعلقہ ہسپتالوں، کورنٹائن سنٹرز کا معائنہ اور ڈاکٹرز سے ملاقات کر نی چاہیے اور دیگر تمام معاملات کا جائزہ لیکر فوری طور پر ضروری اقدامات کرنے کے احکامات جاری کرنے چاہئیں  اور ایسے پیغامات دینے چاہئیں جو عوام میں امید،حوصلہ پیدا کرنے اور SOPs کی پابندی کرنے کا باعث بنیں تاکہ اس بحرانی صورت حال میں قیادت کے بحران اور پالیسی کے حوالے سے ابہام کے تاثر میں بھی کمی آ ئے۔اور کرونا سے کم از کم جانی و مالی نقصان کے ساتھ چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پی ٹی آ ئی  کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کرونا بحران پر اسکی کارکردگی اس کے سیاسی مستقبل میں اہم کردار ادا کرے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply