کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(قسط 53)۔۔گوتم حیات

ان دنوں پاکستان کی فیشن اور ڈرامہ انڈسٹری کی مشہور و معروف فنکارہ “عفت عمر” کے یوٹیوب پر ریلیز ہونے والے پروگرام کے چرچے ہیں۔ عفت عمر اب ماڈلنگ کو خیرباد کہہ چکی ہیں، لیکن ٹی وی ڈراموں میں ان کا کام جاری ہے اور گزشتہ کچھ سالوں سے ایک متحرک ایکٹیوسٹ کے طور پر سنجیدہ حلقوں میں بھی اپنی منفرد شناخت بنا چکی ہیں۔
“عفت عمر” کو میں اُن دنوں سے جانتا ہوں جب وہ “عفت رحیم” تھیں اور غالباً پہلی بار ان کو ڈرامہ سیریل “ننگے پاؤں” میں دیکھا تھا۔ بدقسمتی سے مجھے ننگے پاؤں کی کہانی یاد نہیں ہے کیونکہ اُس وقت میں بہت چھوٹا تھا بس اتنا یاد ہے کہ “ننگے پاؤں” میں عفت رحیم کے ساتھ راحت کاظمی اور ایک غیرملکی اداکارہ نے بھی کام کیا تھا۔ یہ ڈرامہ نجی چینل سے نشر ہوا تھا۔ اس ڈرامہ سیریل کے دوران ہی مجھے معلوم ہوا تھا کہ عفت رحیم بنیادی طور پر ماڈلنگ کی فیلڈ سے وابستہ ہے۔

“ننگے پاؤں” کامیابی سے ختم ہوا لیکن عفت رحیم کا کیرئیر ابھی تک کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ اس دوران انہوں نے لاتعداد ڈراموں میں کام کیا، فیشن انڈسٹری کے ساتھ ساتھ کئی کامیاب ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کی۔ میزبانی کے فرائض میں تو یہ اس وقت ہی کامیاب ہو چکی تھیں جب انہوں نے فلمی دنیا کے گیتوں پر مبنی نجی چینل سے ایک اسپانسرڈ پروگرام “کمہو یہ ہے فلمی دنیا” کا آغاز کیا تھا۔ یہاں میں اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ “کمہو” ایک بلب کی کمپنی تھی جس کے اشتراک سے یہ پروگرام کئی عرصے تک نشر ہوتا رہا تھا۔ مجھے گلیمر کی دنیا سے اسکول کے زمانے سے ہی دلچسپی تھی، اسی لیے میں ٹی وی پر ایسے پروگراموں کو بہت ذوق و شوق سے دیکھا کرتا تھا جس میں فلمی ستاروں کے بارے میں گفتگو ہوتی ہو، اُس زمانے میں دو ہی چینل تھے، کڑی سینسر شپ کی بدولت نہایت ہی سادگی سے فلمی دنیا کی گلیمررائزڈ زندگی کو بیان کیا جاتا تھا، بہت سے رومانوی فلمی گانے سینسر کی نظر ہو جاتے تھے اور ہم محض ان گانوں کی جھلکیاں ہی عفت رحیم کے ہفتہ وار پروگرام میں دیکھ پاتے تھے۔ ان ہی دنوں سرکاری چینل سے بھی فلمی گیتوں پر مبنی ایک پروگرام نشر ہونا شروع ہوا، اس پروگرام کا نام تھا “لولی وؤڈ ٹاپ ٹین”، اس پروگرام میں بھی نئی ریلیز ہونے والی فلموں اور ان کے گیتوں پر گفتگو ہوتی تھی جس کی میزبان تھیں “عائشہ عالم”، عائشہ کی میزبانی میں یہ پروگرام بھی کافی کامیاب رہا تھا۔
میں بات کر رہا تھا عفت رحیم کی جو اب عفت عمر ہیں۔ اپنی بیباک اداکاری اور ماڈلنگ کی دنیا میں نام بنانے کے بعد گزشتہ کچھ عرصے سے یہ ایسے منفرد پروگرام بھی کر رہی ہیں جن میں ہمارے ملک کے سیاسی و سماجی مسائل اور رویوں پر کھل کر بات ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا کی انفرادی آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عفت عمر نے اپنے تجربات و مشاہدات کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کو ایک ایسی زبان دی ہے جو پاکستان کے کروڑوں لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ عفت عمر کو دیکھنے اور سراہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ سینسر شپ کی وجہ سے انگنت حساس موضوعات پر ڈرامے نہیں بن سکے، ابھی بھی فارمولہ ڈراموں پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔ عفت عمر نے بھی ایسے کئی فارمولہ ڈراموں میں کام کیا ہے لیکن ان سب پابندیوں کے باوجود سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے عفت عمر اپنے پروگراموں میں ان سیاسی و سماجی مسائل پر بہادری سے بات کر رہی ہیں جن پر ابھی بھی ہمارا”مین اسٹریم” میڈیا خاموش ہے۔

کل دوپہر کو میں اپنے موبائل فون پر عفت کے پروگرام “پاس کر یا برداشت کر” کی ایک پرانی قسط دیکھ رہا تھا۔ موبائل کا والیوم میں نے جان بوجھ کر تیز کیا ہوا تھا، کیونکہ میں چاہتا تھا کہ امّی بھی دلچسپی سے اس پروگرام کو سنیں، امّی قریب ہی بیٹھی ہوئیں تھی۔ پروگرام میں عفت “پیریڈز اور پیڈ” کے بارے میں بات کر رہی تھی، ابھی دو منٹ کی گفتگو ہی میں نے سنی تھی کہ امّی گرجدار آواز میں کہنے لگیں کہ”یہ کیا تم لڑکیوں کی چیز کے بارے میں پروگرام سن رہے ہو، شرم نہیں آتی تمہیں، بند کرو اس کو۔۔۔”
میں نے خاموشی سے والیوم دھیما کر لیا اور پروگرام کا بقیہ حصہ دیکھنے لگا۔ آدھے گھنٹے بعد میں دوسرے کمرے میں گیا تو امّی مجھے غصے سے دیکھ کر ابّو سے کہنے لگیں کہ “یہ لڑکا بالکل ہی پاگل ہو گیا ہے، اب اس کو گھر پر بیٹھ کر کوئی اور کام نہیں ملا تو موبائل پر لڑکیوں کی ‘چیزوں’ کے بارے میں پروگرام سن رہا ہے، حد ہوتی ہے بےشرمی کی”۔

امّی چُپ ہوئیں تو میں نے ابّو سے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے میں تو “پیریڈ اور پیڈ” کےبارے میں ایک چھوٹا سا پروگرام دیکھ رہا تھا کافی اہم باتیں بتائی ہیں عفت عمر نے، میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس پروگرام کو دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ کون سی غلط بات ہے اس پروگرام میں۔۔۔ اگلے ہی لمحے میں نے وہ پروگرام کھول کر ابّو کے ہاتھ میں اپنا موبائل تھما دیا اور ان کے قریب بیٹھ کر جائزہ لینے لگا کہ ابّو کا فوری طور پر کیا ردعمل ہوتا ہے، شروع کا ایک منٹ انہوں نے دلچسپی سے وہ پروگرام دیکھا لیکن پھر اچانک ابّو کو بھی غصہ آگیا اور کہنے لگے
“یہ کیا تم نے مجھے چلا کر دے دیا ہے، بند کرو اس کو، کوئی اور چیز نہیں ملی تم کو دیکھنے کے لیے۔۔۔”

اس دوران امّی بھی غصے سے بول پڑیں اور ابّو سے کہنے لگیں کہ “اب خود دیکھ لیا آپ نے کہ کتنی غلط چیز کے بارے میں یہ پروگرام دیکھ رہا تھا، کوئی شرم ہی نہیں اس کو۔۔۔”
میں نے اپنا موبائل آف کیا اور امّی ابّو سے کہا کہ اس میں شرم کی کیا بات ہے، یہ تو ہم سب انسانوں کے کام کی باتیں ہیں، اگر ہم لوگ ان چیزوں کےبارے میں لاعلم رہیں گے تو اس میں ہمارا اپنا نقصان ہے، آخر کیوں اس طرح کی سنجیدہ باتوں کو آپ لوگوں نے گناہ سمجھا ہوا ہے۔۔۔؟ امّی، ابّو ابھی    بھی غصے میں تھے میں نے سوچا ان کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے وہی پرانا سوال دہراتا ہوں جس پر جواب دینے کے بجائے امّی ابّو کے چہروں پر بےساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔۔۔ ہمیشہ کی طرح میں نے ان دونوں سے ایک اہم سوال پوچھا جس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں تھا، ہاں مگر ان کے چہرے مسکراہٹ سے پُر ہو چکے تھے۔۔۔ وہ سوال شاید میرے پڑھنے والوں کو بھی ناگوار گزرے۔۔۔ کل دوپہر میں نے ان سے پوچھا تھا کہ
“مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ یہ لڑکوں کی ختنہ کیوں کروائی جاتی ہے، آپ لوگوں کو ذرا بھی اس درد کا احساس نہیں ہوتا جو بچّے اُس وقت جھیل رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اور میں نے سنا ہے کہ لڑکیوں کی بھی ختنہ کی جاتی ہے۔۔۔ کیا یہ ظلم نہیں”؟۔۔

اب ہم دوبارہ عفت عمر کے پروگرام کی طرف آتے ہیں۔ انہوں نے “پاس کر یا برداشت کر” کی نئی ریلیز ہونے والی قسط پر نہایت ہی خوبصورتی سے موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر طنز کے تیر برسائے ہیں۔ کرونا سے خبردار کرتے ہوئے عفت عمر نے کروڑوں پاکستانیوں کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ آپ اپنی حفاظت خود کریں۔ اس قسط کے چند دلچسپ اور بامعنی جملے میں یہاں نقل کر رہا ہوں۔

عفت عمر فرماتی ہیں کہ
“کرونا نے ساری دنیا کو تبدیل کر دیا سوائے  ہماری کُپی تانی حکومت کے۔۔۔ ہمارے کُپی تان نے لاک ڈاؤن کی ناکامی کا ذمہ دار بھی عوام کو ٹھہرا دیا ہے،کرونا کے نام پر بھیک مانگو، لیکن ہیلتھ سیکٹر کو تو امپروو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ غلط انفارمیشن دو اور لوگوں کو مرنے دو۔۔کوئی واڈا شاڈا آکر بتائے گا کہ ایک کرونا کو چار بموں سے اڑایا جا سکتا ہے، اس لیے شاید بجٹ میں بندوقوں اور بموں کے پیسوں میں اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، یہ نیا پاکستان ہے بھئی، کوئی مذاق تو نہیں۔ اگر میری طرح آپ کے نصیب میں بھی کُپی تان جیسا عظیم لیڈر نہیں ہے تو اپنی بدقسمتی سے گبھرائیے مت۔۔۔ میری طرح خود ہی اپنی حفاظت کیجیے، جی ہاں! آئی ایم سیریز اباؤٹ اِٹ”۔

جن لوگوں نے “پاس کر یا برداشت کر” کی یہ قسط دیکھی ہے وہ عفت کی ذہانت کو سراہ رہے ہیں۔ میرے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ عفت عمر نے صحیح وقت پر صحیح بات کی ہے۔ ایک زمانے میں یہ خود بھی سیاسی طور پر عمران خان کی حمایت کر چکی ہیں، لیکن بہت جلد ان کو احساس ہو گیا تھا کہ عمران خان کے پاس جھوٹی باتوں اور الزامات کی پٹاری کے سوا عوام کو دینے کے لیے کوئی وژن نہیں ہے، اسی لیے گزشتہ الیکشن کے دوران عفت عمر نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے عمران خان کو ووٹ نہیں دیا تھا، یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کے تقریباً سب ہی مشہور ستاروں نے عمران خان کی بھرپور حمایت کی تھی۔

عفت عمر سرخرو ہیں کہ ان کا عمران خان کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ شاندار تھا اور آج نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ یہ کتنی نااہل حکومت ہے جس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔

آج کرونا کی وجہ سے ملک بھر میں دوہزار دو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کرونا سے متاثر ہونے والے افراد ایک لاکھ کا ہندسہ چھونے کے قریب پہنچا دیے گئے ہیں، مگر افسوس کہ ہماری حکومت کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے پرانی حکومتوں کی من گھڑت کرپشن کے قصے دہرانے میں لگی ہوئی ہے۔

کیا اس نازک وقت میں بھی یہ حکمراں سابقہ حکومتوں پر محض الزامات کی بارش ہی کرتے رہیں گے۔۔۔ اور ان کے حمایتی اپنی آنکھوں کو بند کیے رہیں گے؟؟؟

میں اب اس قسط کا اختتام کر رہا ہوں، اس وقت مجھے عفت عمر کا ایک پرانا اشتہار یاد آرہا ہے، وہ حبیب کوکنگ آئل کا اشتہار تھا جس کے آخر میں عفت عمر شائقین سے حبیب کوکنگ آئل کو استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہتی تھیں کہ
“کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے”
میں عفت کے اس جملے میں بس اتنا ہی اضافہ کروں گا کہ

“کیونکہ یہ دل کے ساتھ ساتھ زندگی کا بھی معاملہ ہے، جتنا ہو سکے اپنی حفاظت خود کیجیے، کرونا سے خود بھی بچیے اور دوسروں کو بھی بچائیے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply