کیا آگ میں کودنا ضروری ہے؟ حسن رضا چنگیزی

ہم میں سے کتنے لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ آج سے تقریباَ پانچ سو سال قبل یورپ میں مسیحیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ایک کروڑ سے زائد لوگ مارے گئے تھے؟ یہ جنگیں وقفے وقفے سے ایک سو بیس سالوں تک جاری رہیں جن کی لپیٹ میں آکر تقریباً  پورا یورپ ایک صدی سے زیادہ عرصے کے لیے میدان جنگ بنا رہا۔ اس جنگ کی ابتداء 1524 عیسوی میں جرمنی سے ہوئی۔ تب یورپ کی اکثر ریاستیں رومن ایمپائر کے زیر اثر تھیں اور وہاں کے معاشرے پر رومن کیتھولک چرچ کا اثر و رسوخ بہت نمایاں تھا۔ یورپ کے حکمران بھی اپنی بادشاہت کے تحفظ کی خاطر رومن کیتھولک چرچ سے اپنی وابستگی کو ضروری خیال کرتے تھے۔ ایسے میں مارٹن لوتھر ان پہلے اشخاص میں سے تھے جنہوں نے چرچ کی اس اجارہ داری کو چیلنج کیا۔ ان کا خیال تھا کہ رومن کیتھولک چرچ نہ صرف بدترین مالی و اخلاقی بدعنوانیوں میں ملوث ہے بلکہ اس نے مذہب کو ایک کاروبار بنا رکھا ہے۔

مارٹن لوتھر کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ چرچ سے منسلک مذہبی پیشوا رقم کے بدلے لوگوں کو گناہ معاف کروانے کے جھوٹے طریقے بتاتے ہیں جو بائبل کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ کسی کے گناہوں کو معاف کرنا اور اس کی سزا میں کمی یا بیشی کا اختیار صرف خدا کے پاس ہے لیکن چرچ سے منسلک پیشوا لوگوں سے رقم لے کر ان کے گناہوں کی بخشش کا فتویٰ دیتے رہتے ہیں اور یہ بات اب اتنی عام ہوگئی ہے کہ گلی کوچوں میں فتوے بکنے لگے ہیں اور لوگ پیسوں کے عوض نہ صرف اپنے بلکہ اپنے عزیزوں کے گناہ بھی معاف کروانے لگے ہیں۔ مارٹن لوتھر کا خیال تھا کہ جب لوگوں کے گناہ اتنی آسانی سے دھلنے لگیں گے تو انہیں مزید گناہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ یوں معاشرہ برائیوں سے لد جائے گا۔

انہی عوامل کو دیکھتے ہوئے مارٹن لوتھر نے چرچ اور مذہبی معاملات میں اصلاحات کے نام پر 95 ایسے اعتراضات پیش کیے جو رومن کیتھولک چرچ کے لئے ناقابل قبول تھے، لہٰذا نہ صرف مارٹن کو قانون کا مجرم قرار دے دیا گیا بلکہ چرچ میں ان کے داخلے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ لیکن چونکہ وہ قانون دان ہونے کے علاوہ خود بھی ایک مذہبی پیشوا تھے اس لیے ان کی تعلیمات جلد ہی لوگوں خصوصاَ نچھلے طبقات میں مقبولیت حاصل کرنے لگیں۔ حتیٰ کہ طاقتور خاندانوں کے کئی شاہزادے بھی ان کی تعلیماتِ سے متاثر ہوکر نہ صرف ان کی صفوں میں شامل ہوگئے بلکہ انہوں نے اپنے علاقوں میں لوتھرین تعلیمات کے مطابق نئے چرچوں کی بنیادیں بھی رکھیں۔ اس طرح رومن کیتھولک چرچ کے خلاف مارٹن لوتھر کی یہ مہم جلد ہی ایک ایسی بہت بڑی تحریک میں تبدیل ہوگئی جس نے پروٹسٹنٹ “فرقے” کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک دونوں چونکہ اس بات پر راسخ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہی حق اور سچائی کے پیروکار ہیں اس لیے مخالفین کو بزور بازو “راہ راست” پر لانے کے لیے جلد ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس جنگ نے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا حتیٰ کہ مختلف ریاستوں کے حکمران بھی اپنے مفادات کے حصول کی خاطر اس جنگ میں کود پڑے جو کئی نسلوں تک جاری رہی۔

یہ جنگ اگرچہ وقفے وقفے سے ایک سو بیس سالوں تک جاری رہی لیکن 1618 سے 1648 تک مسلسل جاری رہنے والی جنگ جسے “تیس سالہ جنگ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے سب سے خونریز جنگ ثابت ہوئی جس میں ایک اندازے کے مطابق 80 لاکھ افراد قتل کر دیے گئے۔ 1648 ان جنگوں کا آخری سال ثابت ہوا جب فریقین نے اس طویل خونریزی کا خاتمہ کرنے کے لیے مذاکرات کی راہ اختیار کی۔ یوں چھ مہینے کے مذاکرات کے بعد فریقین میں ایک معاہدہ طے پایا جس سے 120 سالوں سے عقیدے کے نام پر جاری اس آپسی قتل عام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ قانون کی نظر میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کے حقوق مساوی ہوں گے اور وہ اپنے عقائد کی پیروی میں مکمل آزاد ہوں گے۔ اس معاہدے میں ایک تیسرے فرقے “کالونزم” کو بھی قانونی حیثیت دی گئی جس کے بعد اس کے پیروکاروں کو بھی آزادانہ کام کرنے کی اجازت ملی۔

کسی سیانے کا قول ہے کہ عقلمند دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتا ہے لیکن بیوقوف اپنی غلطیوں سے بھی سبق حاصل نہیں کرتا۔ حتیٰ  کہ گھٹنوں کے بل رینگتا ہوا ایک بچہ جو ابھی اس قابل نہیں ہوا کہ دوسروں کے تجربات سے سیکھ سکے، جب کسی گرم چیز کو چھو کر اپنا ہاتھ جلا لیتا ہے تو دوبارہ اس شے کے قریب پھٹکنےسے بھی  گریز کرتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جو دوسروں کی غلطیوں سے تو کجا اپنی غلطیوں سے بھی سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے چالیس سالوں سے ہمارے آس پاس بلکہ نظروں کے سامنے عقیدے کے نام پر جو خونریزی ہو رہی ہے ہم اس سے کسی قسم کا سبق حاصل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عقیدے کے نام پر یہ جنگ ہم پر اوروں نے مسلط کی ہے تاکہ ہمارا خون بہا کر وہ اپنا الو سیدھا کر سکیں۔ مثلاَ چار دہائی قبل افغان جہاد کے نام پر خطے میں جس امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھایا گیا اسے کامیاب کروانے کی خاطر عقیدے کا ہی سہارا لیا گیا۔ ایران اور عراق کی جنگ میں اسی عقیدے کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا۔ عراق میں گزشتہ دس سالوں سے عقیدے کے نام پر ہی قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ شام میں عقیدے کے نام پر ہی خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں۔ پاکستان میں عقیدے کو ہی بہانہ بنا کر معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ اور ان تمام واقعات میں اب تک 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ لاکھوں لوگ عمر بھر کے لیے معزور ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ پناہ کی تلاش میں در بدر بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اس تمام قتل و غارت کے پیچھے دنیا کے طاقتور طبقات کے سیاسی اور معاشی مفادات پوشیدہ ہیں جو عقیدے کا بطور ایک آلہ استعمال کرکے اپنی حکمرانی کو دوام دینا چاہتے ہیں جس کے لیے انہیں نام نہاد مذہبی پیشواؤں کی مکمل معاونت حاصل ہے۔

 سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم انہی حالات سے نہیں گزر رہے جن حالات سے پانچ سو سال قبل یورپی اقوام گزری تھیں؟ کیا افغانستان سے لے کر شام تک کے حالات چیخ چیخ کر یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بستیاں اجاڑ رہے ہیں؟ کیا ہم یورپی اقوام  کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ سکتے جو آج عقیدتی منافرت کو بھول کر معاشی اور سیاسی استحکام کی راہ پر گامزن  ہیں؟ کیا آگ کی تپش کا اندازہ لگانے کے لیے آگ میں کودنا لازمی ہے؟ اور کیا ہوش کے ناخن لینے کے لیے ہمیں مزید 80 سالوں تک عقیدے کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہانا ہوگا؟

اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش و خرد سے کام لیں اور جنت اور دوزخ کے پروانے جاری کرنے کے بجائے یہ کام اس ہستی پر چھوڑ دیں جو جنت اور دوزخ کا خالق ہے۔ ورنہ اگر ہم عقیدے کے نام پر یونہی آگ سے کھیلتے رہیں گے تو ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ہماری بستی کا کوئی بھی گھراس آگ سے محفوظ نہیں رہے گا۔ بقول راحت اندوری

Advertisements
julia rana solicitors

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے!

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply