اُستاد کو عزت دو۔۔ملک محمد عمران یوسف

جہان رنگ و بو اللہ رب العزت کے بعد اگر کسی کا کردار ہے تو وہ صرف استاد کا ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا” بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔اس حدیث سے عیاں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیشے سے بہت لگاو تھا۔ آپ جیسی مہتم بالشان ہستی نے بھی استاد ہونے پر فخر فرمایا۔ کائنات میں پہلا استاد خود اللہ رب العزت ہے جس نے آدم کو علم سیکھایا۔ پھر اللہ رب العزت نے اپنی سنت کی تشہیر کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث فرمائے۔ بلاشبہ سارے نبی اپنی اپنی امتوں کے لیے بہترین استاد رہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے  اس قسیی القلب معاشرے کا استاد بھی وہی کام کرتا ہے جو انبیاء کی میراث اور سنت اللہ ہے۔ استاد کا مقام جاننا ہو تو غزوہ بدر کی وہ مثال آپ کے سامنے ہے جب نبی مکرم نے غیر مسلم جنگی قیدیوں سے کہا تھا آپ میں سے جو پڑھے لکھے ہیں مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں اس شرط پر انہیں آزادی دی گئی تھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر مسلم قیدیوں نے مسلمان بچوں کو کیا پڑھایا ہو گا؟ میرے خیال سے علم کی فضیلت اور استاد کی اہمیت اس سے بالکل عیاں ہے۔ کائنات کا اللہ کے بعد ندرت طراز صرف اور صرف استاد ہے۔ عرش سے انسان فرش پر اللہ کی مرضی سے آیا لیکن پھر فرش کا انسان عرش پر استاد کی محنت کی بدولت پہنچا۔ حضرت علی ر ض جیسی ہستی جو علم کا دروازہ ہے آپ فرماتے ہیں” جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا آقا قرار پایا”۔

اب آقا غلام کو اگر پورا دن ایک ٹانگ پہ  کھڑا رکھے تو رکھ سکتا ہے۔ یعنی اس قول سے عیاں ہے کہ استاد کی فرنبرداری کس حد تک کرنے کا حکم ہے۔ آج معاشرے میں جو  نفسا نفسی ہے،اس کی ایک وجہ  استاد کو استاد کا مقام نہ ملنا  بھی  ہے۔ آج کا استاد جو ہر طرح  کے مسائل سے دو چار ہے قہر درویش برجان درویش کی مانند ہے جدھر بھی دیکھو استاد کی تضحیک کی جاتی ہے۔ استاد کو لفظ” ماشٹر” سے یاد کیا جاتا ہے جب کوئی اس انداز سے مخاطب کرتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے استاد اس معاشرے کی سب سے کمتر مخلوق ہے۔ ترقی یافتہ اقوام میں جو مقام استاد کا ہے وہ کسی کا بھی نہیں، جنگ عظیم دوم کے موقع پر جب کسی نے ہٹلر سے آکر یہ کہا کہ ہماری قوم مر رہی ہے تو ہٹلر نے کہا اپنی قوم کے محسنوں یعنی اساتذہ کو بچایا جائے ،اگر یہ زندہ رہے تو قوم پھر بن جائے گی۔

ہمارے ہاں قوم کے معمار کے ساتھ جو مذاق کیا جاتا ہے وہ معاشرے کا ادنیٰ  ان پڑھ شخص بھی برداشت نہیں کرتا۔ مختلف تضحیک آمیز ناموں سے اساتذہ کو مخاطب کیا جاتا ہے جو ہمارے معاشرے کی پستی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ موجودہ حکومت آزاد کشمیر نے اساتذہ کی ریکروٹمنٹ کے لیے ناقابل فراموش طریقہ انتخاب متعارف کروایا۔ اس پر جملہ اساتذہ برادری وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خانصاحب کی شکر گزار ہے۔ اگر ہم ریاست پاکستان کا حصہ ہیں تو جو سکیل جو مراعات پاکستان میں استاد کو مل رہی ہیں وہ یہاں کے استاد کو کیوں نہیں دی جا رہیں؟۔ محکمہ تعلیم کے اندر نئی نئی جہتیں متعارف کروائی جارہی ہیں جو نئی تعلیمی پالیسی کا حصہ ہیں جن میں بائیومیٹرک/ کلسٹر سسٹم وغیرہ مگر سکیل اپ گریڈیشن بھی نئی تعلیمی پالیسی کا حصہ تھی جس پر تا حال عملدرآمد نہ ہوا، جو قرین انصاف نہ ہے۔

موجودہ استاد کو کسی بھی محکمے کے کلرک کے برابر بھی مراعات حاصل نہیں ہیں۔ حالانکہ کلرک کے لیے آج بھی تعلیمی قابلیت ایف اے ہے ،وہ سکیل B.11 لے رہا ہے جبکہ پرائمری استاد ایم اے/ ایم ایس سی کم ازکم بی ایڈ تعلیمی قابلیت کا حامل ہوتا ہے جو B.07 میں ہے اور جونئیر B.09 میں، جو تعلیمی نظام اور استاد کی عزت نفس کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ بائیومیٹرک جیسے نظام کا نفاذ نہایت احسن قدم ہے مگر اس کا اطلاق محکمہ تعلیم میں ہی کیوں ہوا؟

کیا محکمہ تعلیم یا قوم کا معمار قابل اعتبار نہ تھا۔ آج دوسرے محکموں کے لوگ استاد پر انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا ہوا اب اگر استاد کسی شادی بیاہ کی تقریب میں نظر آتا ہے تو لوگ فوٹو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں اور ساتھ لکھتے ہیں استاد کھانا کھاتے ہوئے پکڑا گیا۔ کیا استاد اس معاشرے کا حصہ نہیں ہے؟ کیا یہ ماں باپ عزیز و اقارب سے مبّرا  ہوتا ہے؟ محکمہ تعلیم میں نیا بھرتی ہونے والا معلم جو کم از کم ایم ایس سی/ ایم اے/ بی ایڈ تعلیمی قابلیت کا حامل ہوتا ہے۔ جو والدین کی کل جمع پونجی لگا کر یہاں تک پہنچتا ہے۔ مگر اس کی تنخواہ اس دور میں 20 ہزار سے کم ہوتی ہے۔ اس میں وہ کیا کر سکتا ہے پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتا۔ 20 ہزار میں ایک فرد کا گزارا ممکن نہیں بہت سے گھرانوں میں یہی فرد واحد کفیل ہوتا ہے۔

حکومت وقت سے گزارش ہے کہ از راہ کرم وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اساتذہ کے سکیل اپ گریڈ کیے جائیں اور استاد کی عزت نفس کے لیے باضابطہ قانون سازی کی جائے۔ نجی و سرکاری ادارہ جات کے اساتذہ میں کوئی تفاوت نہیں  ہے، دونوں ایک ہی مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔ حکومت وقت سے اپیل ہے کہ پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو نفسیاتی مریض ہونے سے بچایا جائے اور نجی ادارہ جات کے  اساتذہ کے لیے بھی مناسب تنخواہ کا تعین کیا جائے جو انہیں جیسے بھی حالات ہوں ملتی رہے۔ کیونکہ ریاست میں کچھ بھی نجی نہیں ہوتا، سب ریاست کی ملکیت ہوتا ہے ۔نجی ادارہ جات بھی محکمہ کی منشاء سے چلتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوشل میڈیا پر جو شخص دو چار  لفظ تحریر کرنے کی سکت رکھتا ہے وہ بھی استاد کے خلاف بولتا ہے حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ جو دو چار لفظ لکھ سکتا ہے یہ بھی کسی استاد کا کمال ہے۔ ملک میں جتنے بھی فلیگ ہولڈر ہیں ان کے پیچھے استاد ہے مگر استاد کی بدقسمتی کہ یہی فلیگ ہولڈر کبھی اپنے استاد کو سلام کرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ جو اتنے فلیگ ہولڈر، سیاست دان، سائنس دان، علم و ادب اور مذہبی سکالر بناتا ہے اس کے لیے کوئی فیلگ نہیں، مرتے وقت کوئی سلامی کوئی اعزاز نہیں آخر کیوں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply