طویل غیر حاضری کے بعد میں آج اپنی ڈائری کی نئی قسط کے ساتھ حاضر ہوا ہوں۔۔۔ میں معذرت خواہ ہوں ان تمام پڑھنے والوں سے جو کئی دنوں سے میری ڈائری کی نئی اقساط کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ آج میں قسط نمبر باسٹھ لکھ رہا ہوں لیکن اس کا آغاز کرنے سے پہلے میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کراچی کی درخشاں صالحہ اور اقبال احمد صاحب کا جو بےچینی سے میری قسط کے انتظار میں ہیں اور اسلام آباد کے سید سجاد مہدی صاحب کا جو میری ہر قسط کو پابندی سے پڑھ کر اپنی قیمتی رائے سے نوازتے ہیں۔
آج یکم جولائی2020 ہے۔ اطلاعات کے مطابق یکم جولائی سے تین جولائی تک کراچی میں گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا اور درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے گرمی بتدریج بڑھ رہی ہے۔۔۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مستقل گھر پر رہنا بھی دوبھر ہو چکا ہے خصوصاً اس وقت جب کئی کئی گھنٹوں تک بجلی غائب رہے۔ جس رفتار سے شہر بھر میں گرمی بڑھی ہے بالکل اسی رفتار سے لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بجلی کی بندش نے دماغ ماؤف کر دیا ہے، کوئی کام کرنے کا دل نہیں کرتا۔۔۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے کسی نے چھین لی ہو۔
حسبِ معمول آج صبح نو بجے کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو پنکھا بند تھا۔ یہ بند پنکھا اس بات کی علامت تھا کہ اب بجلی دن بارہ بجے واپس آئے گی، اور اس کے بعد اڑھائی بجے پھر چلی جائے گی۔ شام ساڑھے چار بجے واپس آئے گی اور پھر نو بجے غائب ہو کر رات بارہ بجے اپنا جلوہ دکھائے گی۔۔۔ دو، تین گھنٹے بعد رات تین بجے کہیں روپوش ہو جائے گی اور پھر جب صبح، منہ اندھیرے واپس آئے گی تو میں گہری نیند میں جا چکا ہوں گا، اس لیے مجھے ابھی تک علم نہیں ہو سکا کہ شب کے تین بجے جب یہ بجلی کہیں سیر کو جاتی ہے تو واپس کس گھڑی آتی ہے۔ میری آنکھ تو اُس وقت کھلتی ہے جب سورج مکمل طور پر دیواروں، گلیوں، چوراہوں، سڑکوں اور گھروں کی چھتوں کو اپنی حدت سے گرما چکا ہوتا ہے۔۔۔ گرمی سے بےحال ہو کر جب میری آنکھ کھلتی ہے تو ایک بار پھر سے مجھے بجلی واپس آنے کے کٹھن انتظار سے گزرنا پڑتا ہے۔ یوں میرے یہ شب و روز گزر رہے ہیں صرف اور صرف بجلی کے انتظار میں۔۔۔ اب آپ ہی بتائیے جب اس طرح کی بدترین صورتحال ہو تو کوئی بندہ اپنی ڈائری کی قسطیں لکھ سکتا ہے۔؟ لکھنا تو دور کی بات کوئی اچھوتا خیال تک نہیں سوچ سکتا۔۔۔ کرونا کے ساتھ ساتھ ہم گرمی کو بھی جھیل رہے ہیں اور لوڈشیڈنگ کو بھی۔۔۔ اگر صرف بجلی موجود رہے تو انسان گھروں پر رہ کر بہت کچھ کر سکتا ہے، گرم اور حبس آلود موسم کا بھی باآسانی مقابلہ کر سکتا ہے۔۔۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ اشرافیہ کی طرف سے ہمیں ہر اس چیز سے محروم رکھا جا رہا ہے جو ہماری زندگی کو پُرسکون بناتی ہے۔ یہ تو بجلی کا عذاب ہے جو میں بھگت رہا ہوں تو مجھے ان پریشانیوں کا احساس ہے، شہر کے بہت سے علاقوں میں بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کی بھی بندش ہو رہی ہے، لوگ اس گرمی میں پانی کے خالی گیلن اور کنستر اٹھائے احتجاج کر رہے ہیں۔ بجلی اور پانی فراہم کرنا جن اداروں کی ذمہ داری ہے وہ جانے کیوں اتنے بےحس بن چکے ہیں۔ سب ہی کو معلوم ہے کہ پانی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اداروں نے “ٹینکر مافیا” کو خوب مالا مال کیا ہے۔ آئے روز یہ اپنے نرخ بڑھاتے رہتے ہیں۔۔۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب شہر کے بہت سے گنجان آباد علاقوں میں پانی دستیاب نہیں ہے تو ان “ٹینکرز” کے پاس وافر مقدار میں پانی کہاں سے آرہا ہے۔؟
مجھے یاد ہے دہائیوں پہلے جب میں بہت چھوٹا تھا تو ہمارے گھر پر “لائن کا پانی” آنا بند ہو گیا تو کئی مہینوں تک ہم “ٹینکر” ڈلوانے لگے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے جب ٹینکر کے نرخ ناجائز طور پر بڑھا لیے گئے تو ہم جیسے لوگ ٹینکر ڈلوانا افوورڈ نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ اور پانی کے بغیر گزارہ بھی نا ممکن تھا اس لیے ابّو نے مجبوراً گھر کے صحن میں “بورنگ” کروالی اور یوں پانی کا مسئلہ اپنی مدد آپ کے تحت حل کر لیا گیا۔۔۔۔ تقریبا بیس سال ہم “بورنگ” کا پانی استعمال کرتے رہے، پھر کچھ سال پہلے اچانک “بورنگ” کا پانی بھی غائب ہو گیا، “موٹر” چلاتے تو پانی کا ایک قطرہ تک نہیں نکلتا، “بورنگ” والے سے چیک کروایا تو اس نے کہا کہ زیرِ زمین پانی کی سطح بہت ہی نیچے جا چکی ہے، اب آپ کے پاس دو آپشن ہیں یا تو آپ اسی “بورنگ” کو ٹھیک کروائیں یا پھر دوسری جگہ پر “مشینی بورنگ” کروائیں، اس کے علاوہ تیسرا حل یہی ہے کہ کسی قریبی “واٹر ٹینکر” سے رجوع کریں۔۔۔ ہمارے لیے واٹر ٹینکر سے تو پانی لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ شہر بھر کے واٹر ٹینکر تو “مافیا” ہیں ان کے پاس سے پانی خرید کر استعمال کرنے سے بہتر ہے کہ انسان پیاسا مر جائے۔۔۔ پڑوس میں دوسرے گھروں پر بھی جن کے ہاں “بورنگ” تھی پانی دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو چکا تھا، “مشینی بورنگ” ہمارے لیے مہنگی تھی اس لیے پڑوس کے دو گھروں کے ساتھ مل کر ہم نے “مشینی بورنگ” کروائی۔۔۔اور ایک بار پھر سے پانی کے سنگین مسئلے سے اپنی مدد آپ کے تحت چھٹکارہ حاصل کیا۔۔۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں پر بورنگ نہیں کروا سکتے یا جن کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ “ٹینکر” سے رجوع کریں آج اس گھڑی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ کیا حکومتی اداروں کی یہ اولین ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کریں۔ آخر کب تک یہ حکمران غریب لوگوں کے صبر کا امتحان لیتے رہیں گے۔۔؟
آج صبح ناشتہ کرنے کے بعد جب کہ بجلی بھی گئی ہوئی تھی تو میں وقت گزاری کے لیے گانے سن رہا تھا۔ گانے سن سن کر بوریت ہونے لگی تو “فیس بُک” دیکھنے لگا، اچانک ایک پوسٹ پر نظر پڑی۔ اس کو سرسری طور پر نظرانداز کر کے گزر جانا ممکن نہیں تھا۔ “سوپور” کی سڑک پر بوڑھے آدمی کی لاش پر ایک ننھا کمسن سا سہما ہوا بچہ بیٹھا ہوا تھا، آدمی کی قمیص خون آلود تھی شاید وہ کمسن بچہ موت سے ناواقف تھا بلکہ یقیناً وہ موت سے ناواقف ہی تھا اسی لیے وہ اُس لاش کے سینے پر بیٹھا ہوا اس انتظار میں تھا کہ ابھی ابھی یہ شخص جو اس کا نانا تھا اٹھے گا اور اسے اپنی گود میں بٹھا گھر کی طرف روانہ ہو گا۔ ایک دوسری تصویر میں وہ کمسن بچہ اپنے نانا کے سینے پر سے اٹھ کر وردی والے کی طرف اپنے ننھے ننھے قدم بڑھا رہا ہے جو قریب ہی بندوق لیے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اُس پوسٹ کے مطابق بچے کی عمر تین سال ہے اور اس کا “نانا” ملیٹنٹ اور فورسز کے درمیان کراس فائرنگ کے نتیجے میں مارا گیا۔ بچہ جو اب ایک تیسری تصویر میں وردی والوں کی گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے، شاید وہ لوگ اُسے اس کے گھر لے کر جارہے ہیں، اس بات سے ناواقف ہے کہ وہ اپنے نانا کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔۔۔ وہ ننھا لڑکا اگر تین سال کے بجائے بارہ، تیرہ سال کا ہوتا تو شاید احتجاجاً ان کی گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کر دیتا۔۔۔ وہ مزاحمت کرتا اور اس مزاحمت کے دوران اسے قتل کر دیا جاتا۔
سوشل میڈیا کی وہ پوسٹ میں نے اپنے سوپور کے ایک قریبی دوست کو سینڈ کر دی جو دبئی میں مقیم ہے۔مجھے معلوم تھا مجھ سے پہلے یہ دل دہلا دینے والی پوسٹ اس تک پہنچ چکی ہو گی آخر کو وہ خود مڈل ایسٹ کے ایک معتبر اخبار کا منجھا ہوا صحافی ہے اور بہت جلد اس کا پہلا ناول بھی منظرِ عام پر آنے والا ہے۔ میں اس کی تحریروں کا شیدائی ہوں، اکثر اوقات کچھ اختلافات کی بنا پر کئی کئی مہینے اس سے ناراض رہتا ہوں۔ کشمیر کے کسی بھی معاملے پر میرے لیے اس کی رائے سب سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔۔۔ میں اس پوسٹ کے حوالے سے بھی اپنے سوپور کے دوست سے کچھ تفصیلات پوچھنا چاہتا تھا لیکن میرے اندر ہمت نہیں ہوئی اس بارے میں اس سے کچھ دریافت کرنے کی۔۔۔ سارا دن وہ ننھا بچہ میری آنکھوں کے سامنے آتا رہا۔۔۔ صبح سے اُس بچے کا چہرہ میری نظروں کے سامنے ہے۔ اس وقت شام کے سات بج رہے ہیں۔ میرا وہ دوست سوپور میں پیش آنے والے اس واقعے پر اپنی تحریر مکمل کر چکا ہے، وہ تحریر میں نے بھی پڑھی اور آج نو، دس سالوں میں پہلی بار میرے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ میں اس کی تحریر پڑھ کر اس کے لفظوں کی تعریف نہیں کر سکا۔۔۔ میرے پاس نہ تو اس ننھے، سہمے ہوئے بچے کے درد کو سمجھنے کا حوصلہ ہے اور نہ ہی اپنے دوست کی تحریر کی تعریف کے لیے الفاظ۔ نہایت ہی دکھی دل کے ساتھ میں نے اس کے “وٹس ایپ نمبر” پر یہ سطریں بھیج دیں۔۔
“میں سمجھ سکتا ہوں تم نے جس درد سے یہ سب لکھا۔۔۔
اُس ننھے بچّے کی بےبسی اور تین سال کی کمسنی کی عمر میں کچھ معلوم نہ ہوتے ہوئے بھی وہ بیچارہ بہت کچھ سمجھ گیا ہو گا جو اس کے نانا کے ساتھ ہوا۔۔۔”
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں