وہ گدھا ہی تھا۔۔ربیعہ سلیم مرزا

پورب کی سمت ایک ہرابھرا جنگل تھا۔یہ جنگل اتنا گہرا تھا کہ مشکل سے سورج کی کرنیں زمین تک پہنچتیں ۔
اسی دھوپ چھاؤں جنگل کے ایک کونے میں سرمئی بابا کی جھونپڑی تھی۔ لمبے بانس کے تنوں اور پتوں والی چھت سے بنی یہ جھونپڑی دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتی۔
سرمئی بابا سارا دن جنگل میں اپنے گدھے کے ساتھ  گھوم  کر اچھی اور ملائم مٹی اکٹھی کرتا اور شام کو مٹی کو چھان کر پانی سے گوندھ دیتا۔صبح سویرے جب بابا کی آنکھ کھلتی تو بے شمار خوبصورت مٹی کے برتن تیار ملتے۔بابا خوش بھی ہوتا اور بڑبڑاتا بھی جاتا۔
“کمال ہے، بہت خوبصورت ۔تمہارے ہاتھ میں تو جادو ہے۔”

پتا نہیں وہ کس سے باتیں کرتا تھا۔۔دیکھنے والے کہتے کہ باباکے پاس ایک بونا جن ہے۔جو باباکا دوست بھی ہے۔۔وہ بابا کے لئے مٹی کے برتن بناتاہے۔لیکن وہ بونا جن کبھی کسی کو دکھائی نہیں دیا۔
یہ بات سچ بھی تھی۔ کئی سال پہلے بابا مٹی کی تلاش میں ایک ٹیلہ کھود رہا تھا تو اسے ایک شیشے کی خوبصورت بوتل دکھائی دی۔بابا مٹی کے ساتھ اسے بھی اٹھا کر گھر لے آیا۔ بوتل کو کھولا تو کوئی چھوٹی سی چیز اچھل کر باہر آگری۔بابا نے اسے اٹھا کر ہاتھ پر بٹھا لیا۔دیکھا تو لمبے کانوں والا ایک چھوٹا سا انسان تھا۔
” کون ہو تم اور کس نے تمہیں بوتل میں بند کیا ہے؟ ” بابا نے پوچھا۔
میں بونا جن ہوں، بونوں کا راجہ۔ ہم  زمین کے نیچے رہتے تھے ۔ایک چڑیل نے میرے قبیلے پر حملہ کر کے سب کچھ تباہ کر دیا۔۔اور مجھے اس بوتل میں قید کر دیا ۔تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھے باہر نکالا۔”

سرمئی بابانے بونے کو کھانا کھلایا اور اسے اپنی جھونپڑی میں رہنے کی پیشکش کی ۔بونا سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا۔
” ایک شرط پر میں یہاں رک سکتا ہوں کہ آپ کے کام میں مدد کروں گا ۔آپ مٹی اکٹھی کیا کریں گے اور رات میں، مَیں تمام برتن تیار کر دیا کروں گا ۔صبح وہ برتن بیچ کر آپ اپنی گذر بسر کریں گے ”

بابا بہت خوش ہوا۔دونوں مل کر برتن تیار کرنے لگے ۔ایک دن بابا بیمار ہو گیا۔اب انہیں ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو شہر جا کر برتن بیچ آئےاور کھانا لا دے۔
کچھ دنوں بعد بعد انہیں جنگل میں ایک لکڑ ہارا مل گیا سرمئی بابا نے اسے روک لیا۔
” بیٹا، رک جاؤ ۔ میرا ایک کام کر دو گے؟ ”
“جی بابا بتائیں” ۔لکڑہاڑابولا
” میں بیمار ہوں ۔کیا تم میرے برتن شہر جا کر بیچ دو گے۔جو پیسے ملیں وہ ہم بانٹ لیں گے “،بابا نے لکڑ ہارے کو پیشکش کی
تھوڑی دیر سوچنے کے بعد لکڑ ہارے نے ہامی بھر لی اور شہر جا کر تمام برتن بیچ آیا۔ جتنے پیسے ملے وہ بابا نے اور لکڑ ہارے نے بانٹ لیے ۔

روزانہ لکڑ ہارا آتا اور ایک سے ایک بڑھیا اور خوبصورت برتن دیکھ کر حیران بھی ہوتا اور اچھی کمائی کے خیال سے خوش بھی ہوتا۔اس نے بونے کے متعلق افواہیں سن رکھیں تھیں جو بونے کو دیکھ کر سچ بھی ثابت ہو گئیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اب لکڑہارا، بابا اور بونا آپس میں پکے دوست بن گئے تھے ۔

ایک دن لکڑ ہارا آیا تو برتن دیکھ کر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
برتن ہمیشہ کی طرح خوبصورت تو تھے ہی مگر آج ان کو خوبصورت رنگ بھی لگائے گئے تھے ۔لکڑ ہارے نے لالچ میں آکر سوچا ،اگر میں بونے کو قابو میں کر لوں تو تمام برتن میرے ہو جائیں گے اور پیسے بھی نہ بانٹنا پڑیں گے۔

اس نے برتنوں میں سے ہی ایک صراحی لی اور بونے کو پکڑنے کے لیے جھپٹا ۔بونا اس کی نیت بھانپ گیا ۔اس نے زور سے چٹکی بجائی اور لکڑھارا جادو کے زور سے گدھابن گیا ۔
لکڑہارا اپنی حالت دیکھ کر بہت پچھتایا اور سرمئی بابا اور بونے سے معافی مانگنے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بابا نے جواب دیا، ” تمہیں مل بانٹ کر کھانا راس نہیں آیا اور تم لالچ میں پڑ گئے ۔اسی لئے کہتے ہیں لالچ بری بلا ہے ”
کبھی گدھا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا تو سرمئی  بابا اور بونا جن ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور کہتے۔
بیشک اتفاق میں برکت ہے اور لالچ بری بلا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply