مستری محبوب (خاکہ) ۔۔۔ خالد قیوم تنولی

گاؤں میں ہمارے ایک پڑوسی محبوب نام کے‛ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھے۔ پیشے کے لحاظ سے بہ یک وقت ترکھان اور لوہار ۔ میرا خیال تھا کہ گاؤں کے دوسرے بڑے بوڑھوں کی طرح وہ بھی ناخواندہ ہوں گے۔
ایک دن میں نویں جماعت کے انگریزی نصاب میں شامل ورڈزورتھ کی نظم “ڈیفوڈلز” کا آموختہ باآوازِ بلند دہرا رہا تھا ۔ ان کا گھر ہمارے گھر کے عین مقابل تھا۔ درمیان میں ایک تنگ سا برساتی نالہ حائل تھا۔ اور وہ اس وقت اپنے گھر کے صحن میں قدیمی بوہڑ کی چھاؤں تلے کھٹیا پر محوِ استراحت تھے۔ مصرعے میں کوئی لفظ میں غلط پڑھ گیا تو وہ دفعتاً اٹھ بیٹھے اور بولے : “غلط پڑھ رہے ہو۔۔۔!!!”
میری ان سے بے تکلفی تھی۔ میں ہنس دیا اور کہا : “بابے۔۔۔یہ انگریزی شاعری ہے‛ تیری بھٹی نہیں کہ آسانی سے دہکا لی۔”
سن کر طعنے کو جانے دیا۔ بولے : “دوبارہ پڑھ ذرا ۔۔۔”
میں نے لائنیں دہرا دیں۔
کہنے لگے : “ٹری کو ٹرے پڑھ رہا ہے افلاطون کا چیلا۔۔۔ اور فلاورز کو فالوورز ۔۔۔ !!!”
میں نے چپ کر کے اپنی غلطی تسلیم کر لی کیونکہ اس سے سے قبل گاؤں کے کسی بزرگ سے انگریزی کا کوئی لفظ نہ سنا تھا۔
مستری جی بظاہر بہت سخت مزاج اور جھنجھلائے جھنجھلائے سے دِکھتے۔ سماعت کمزور تھی اس لیے اونچا سنتے اور اونچا ہی بولتے۔ ان کی پیشہ ورانہ خدمات کا معاوضہ ربیع اور خریف کے فصلانے پر منحصر تھا۔ ایک عدد مشکلات کی ساجھے دار بیوی اور تین بیٹیاں تھیں۔ عبادات کا تکلف عنقا تھا۔ تاہم بلاتفریق محبت کے قائل تھے۔ اکل کھرے اور قدرے منہ پھٹ ہونے کی وجہ سے کوئی ان سے بحثتا نہیں تھا۔ اپنے حق رائے دہی کے معاملے میں کسی دید لحاظ کو حائل نہ ہونے دیتے۔ لوگ کہتے کہ بخیل یا حریص ہیں۔ یہ سچ نہ تھا بلکہ یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی کفایت شعاری تھی۔ محدود آمدنی والوں کا یہی طریقِ زیست ہوا کرتا ہے۔ گاؤں والوں کی کلہاڑیاں ‛ درانتیاں اور ہلوں کے پھالے تیز کر دیتے۔ میز ‛ کرسیوں ‛ چارپائیوں کی چولیں بٹھا دیتے۔ دروازوں اور کھڑکیوں کے ڈھیلے فریم ٹھوک دیتے۔ بدلے میں ربیع اور خریف کی فصل میں سے ان کا ایک مخصوص حصہ مقرر تھا۔ اور یہ ان کی گزر اوقات کو کافی تھا۔ بالائی آمدنی کے لیے وہ راج مستری کا کام کرتے اور نقد معاوضہ لیا کرتے۔
سماجی خدمت میں پیش پیش رہتے۔
سیاسی وابستگی ان کی پیپلزپارٹی سے تھی۔ بھٹو کے جیالے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بھٹو کی پھانسی کی خبر ریڈیو پر سنی تو انہوں نے چند فلک شگاف نعرے لگائے اور غش کھا کر گر پڑے تھے۔ بہت دن رنجیدہ اور گم سم رہے۔ تادمِ مرگ ضیائی آمریت پر تبرے بھیجتے رہے۔ یہ زخم ان کا کبھی مندمل نہ ہونے والا تھا۔
بہرحال بات کہیں اور نکل گئی تو میں بتا رہا تھا کہ دل ہی دل میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بعد ان سے یہ ضرور پوچھا کہ ورڈزورتھ کی نظم کا چارپائی کی چول بٹھانے کے کام سے کیا ربط و ضبط ہے ؟
سن کر پہلو بدل گئے۔ ہنسنا تو درکنار کبھی خفیف سا تبسم بھی ان کے ہونٹوں پر ابھرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔
مجھے اپنے گھر بلایا تاکہ اس راز کی نقاب کشائی کی جا سکے۔ میں فوراً جا پہنچا۔ انہوں نے سیلن زدہ کمرے کے ایک کونے میں جستی ٹرنکوں میں سے سب سے نچلا ایک ٹرنک نکلوایا۔ دونوں اٹھا کر اسے صحن میں لائے۔ تالا کھولا گیا۔ انہوں نے مومی پلاسٹک میں لپٹی کتابیں ‛ مشقی کاپیاں ‛ پنسلیں ‛ اذکار رفتہ روشنائی والے قلم‛ مسطر اور ربڑیں دکھائیں۔ یہ چھوٹی سی تقریب مجھے حیران کر گئی۔ ایک کاپی کی پشت پر ان کا نام ‛ تاریخ اور مقام بھی درج تھا :
Muhammad Mehboob
Bombay
17 – 06 – 1943
اگلا مرحلہ اور بھی حیرت آمیز تھا جب وہ ایک ایک کتاب اٹھاتے۔ بوسیدہ اوراق کو پلٹتے جاتے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے جاتے۔ ایک سٹینزا کی دو لائنیں مجھے آج بھی ازبر ہیں :
Laugh a little laugh and you will be happy,
Cry a little cry and you will be sad.
میں ان سے شدید مرعوب ہو گیا۔ ویسا ہی احترام کرتا جیسا کہ ایک استاد کا کرنا چاہیے۔ اور وہ محض ایک مستری ہی نہ تھے بلکہ ایک عمدہ اداکار بھی تھے۔ بہترین پرفارمر۔ بات کرتے تو حرکات و سکنات اور تاثرات سے تصویر دکھا دیتے۔ سامع ‛ سامع نہ رہتا ناظر بن جاتا۔
کسی کو سانپ ‛ بچھو یا بِِھڑ کاٹ لے تو ان کا دَم بہت مجرب ثابت ہوتا۔ آدھے سر کے درد کے دَم اور سانپ کو پکڑنے کا اِذن مجھے عطا کر رکھا تھا۔ سانپ کو پکڑنے والا منتر بارہ کڑوں پر مشتمل تھا جنہیں پڑھ کر پھونکا جاتا تو سانپ تصرف میں آجاتا۔ اسی منتر کو الٹی ترتیب سے پڑھ کر پھونکا جاتا تو سانپ آزاد ہو جاتا۔ مجھے اب ایک ہی کڑا یاد رہ گیا ہے جو کہ کچھ اس طرح ہے :
“فُرے منتر اوس پسندی لُو ‛ منتر فرے ہودا ٹُرے ‛ نونی چمیاری دی لبھ ٹُرے۔”
مگر مستری جی کی طرف سے ایک کڑی شرط تھی کہ راہ چلتے سانپ پر اس منتر کو نہیں آزمانا البتہ گھر میں یہ موذی در آئے تو پھر بچاؤ کے تحت آزمایا جاسکتا ہے۔ ایک بار یوں ہوا کہ واقعی ایک چھجل (کوبرا) آ ہی گیا جس کی دہشت سے دم شم بالکل یاد نہ رہا۔ اسے بارہ بور کی شکاری رائفل سے میرے ایک چچا نے مار لٹایا۔
مستری جی سے بڑی نشستیں رہیں۔ سہگل اور طلعت محمود کے بہت سے نغمے یاد تھے انہیں۔ میرے اصرار پر گایا کرتے۔ میں خوش ہو کر تعریف کرتا
تو کہا کرتے : “رہنے دو۔ اچھے بھلے عاشق بندے کو تم گاؤں والوں نے ضائع کر دیا۔”
ایک بار موڈ میں تھے تو میں بمبئی کی کہانی جاننا چاہی۔
بتانے لگے : “بڑے بھائی ‛ باپ کی وفات پر آئے تو واپسی میں ہمراہ لے گئے۔ برے حال مگر بانکے دن تھے۔ ایک لمبا سا چولا تھا جس کے نیچے شلوار کا تکلف روا نہ تھا‛ اسی اکلوتے پیرہن میں بھائی کے ساتھ خوشی خوشی بمبئی یاترا کو چلا۔ بھائی اس وقت ایک پارسی کی فاؤنڈری میں مزدور تھے۔ کوئی مہینہ بھر بعد جب نئے ماحول کو قبول کر لیا تو بھائی نے ہمراہ لیا اور سیٹھ کے سامنے پیش کردیا کہ مجھے بھی کسی کام سے لگایا جائے۔ سیٹھ نے عمر پوچھی۔ میں تب بارہ سال کا تھا۔ سیٹھ نے کہا کہ گھر سے دوپہر کا کھانا لادیا کرنا اور دیگر چھوٹے چھوٹے کام ۔ ۔ ۔وہ بھی دل چاہے تو کر دینا ورنہ گھومو پھرو کھاؤ پیو۔ تنخواہ یہی کوئی دس روپے مقرر ہوئی۔ سیٹھ کی بیوی دائمی مریضہ تھی۔ کھانا ملازم پکاتے تھے۔ ایک دن کھانا لینے گیا تو دیکھا ایک بہت خوبصورت سی نوجوان میم بیٹھی ہیں۔ میں نے سلام کیا تو اس نے بہت سی باتیں کیں۔ معلوم ہوا سیٹھ کی اکلوتی بیٹی ہے جو ولایت سے پڑھ کر آئی ہے۔ مجھ سے پوچھا نام کیا ہے۔ میں نے بتایا کہ محبوب ۔ بولی ۔ اتنی سی عمر میں کس کے محبوب ہو ؟ اور ہنسنے لگی۔ پھر کہا ۔ آئندہ تمہاری ڈیوٹی یہ نہیں ہوگی۔ تم یہاں رہو گے۔ پڑھو گے۔ میں پڑھاؤں گی۔ کل سے اپنا ضروری سامان لے آنا۔”
تین سال تک تعلیم و تعلم کا وہ سلسلہ چلا۔ پھر تقسیمِ ہند کے بکھیڑے پڑ گئے۔ پہلے مسز گستاد فوت ہوئیں اور پھر سیٹھ گستاد مہتہ بھی۔۔۔ مستری محبوب کی استانی مس خورشید انگلستان لوٹ گئیں۔ بھرا میلہ اجڑ گیا۔ ان کے بھائی محمد ایوب نے زادِ راہ باندھا ‛ چھوٹے بھائی کا ہاتھ تھاما اور لاہور پہنچ گئے۔ تین ماہ بعد تاریخ کا سب سے بھیانک قتل عام شروع ہوا مگر تب تک وہ گاؤں میں تھے جہاں صرف پاکستان بننے کی خبر پہنچ سکی۔ مستری جی کبھی کبھی ایک سرد سی آہ کھینچ کر رہ جاتے۔ میں جان چکا تھا کہ ان کا دل ہنوز بمبئی میں اٹکا ہوا ہے۔ کبھی کبھی کسی ماہیے کے بول گنگنانے لگتے۔ عمر رفتہ کی گلی میں جانے کیا کچھ چھوڑ آئے تھے۔ میں نے بھی ان آثارِ قدیمہ کو زیادہ کریدنا مناسب نہ سمجھا۔
مسجد کو تھانہ سمجھتے تھے۔ سوائے عیدالفطر ‛ بقر اور جنازہ کے انہیں نماز ادا کرتے نہیں دیکھا۔ خود میں کون سا شب بیدار مومن تھا۔
ان کی بڑی بیٹی کی شادی ہوئی۔ بارات بہت دور سے آئی۔ سُن رکھا تھا اور میں آپ شاہد تھا کہ وہ کبھی کسی جوانمرگ پر بھی نہیں روئے۔ ان کی آنکھ نمی سے ناواقف تھی۔ بیٹی کو ڈولی میں بٹھانے لگے تو وہ تڑپ کر سنگ صفت بابل کے سینے سے چمٹ گئی اور ایسی بکھر کر روئی کہ سبھی کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ مستری جی کے سارے وجود کو میں نے لرزتے ہوئے دیکھا۔ البتہ ڈولی رخصت ہو چکی تو مستری جی غائب پائے گئے۔
وہ پامسٹ بھی تھے۔ بہت تفصیل سے ہاتھ دیکھتے۔ لکیری تجرید میں ڈوب جاتے۔ میرے بارے جس قدر Predict کیا حیرت انگیز طور پر وہ سچ ثابت ہوا ۔ تاہم میرا ان باتوں پر کبھی یقین نہیں رہا۔ کہا کرتے مجھے ہاتھوں کا لمس ازبر ہو جاتا ہے۔
میں ایک بار سخت بیمار پڑ گیا۔ ملیریا کا شدید حملہ تھا۔ سردی لگتی تو تین تین لحاف اوپر ڈالے جاتے۔ وہ دن میں کئی کئی بار مزاج پرسی کو آتے۔ سر دباتے ‛ دم کرتے ‛ خوشگوار قصے چھیڑ دیتے۔ بزدلی اور کمزوری کے طعنے دیتے۔ اسی بیماری کے دوران ‛ خالد صاحب‛ کہہ کر مخاطب کرتے ۔ اس انداز تخاطب نے مجھے گھمنڈی سا بنا دیا۔ یہ ان کے بے جا لاڈ کا نتیجہ تھا۔ ان کی یاری کا اثر تھا یا دم درود کی کرامت کہ میں سنبھلنے لگا اور آخر کار بھلا چنگا ہو گیا۔ میں نے تہیہ کیا کہ اگر کبھی وہ بھی بیمار پڑے تو اسی طرح خدمت کا قرض اتاروں گا مگر میرے گاؤں چھوڑنے تک وہ کبھی بیمار نہ ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

موسموں کی دھوپ چھاؤں میں سائے گھٹتے بڑھتے رہے۔ مصروفیات اور مجبوریوں کے بھوسے میں فرصت اور بے فکری کی سوئی کھو گئی۔ گاؤں میں بیتے ایامِ رفتہ کا خیال سینے پر عین دل کے مقام پر گھونسے کی طرح پڑتا۔ مستری محبوب ہی نہیں بلکہ بہت سی اور محبوب و عزیز صورتیں فیتۂ تصور پر گزرتی رہتیں۔ ایک بار خبر ملی کہ ان کی جیون سانجھ مشترکہ دکھ سکھ کو تج کر عدم آباد کو سدھار گئیں۔ باپ بیٹی تنہا رہ گئے۔ پھر کچھ مدت بعد معلوم ہوا۔ بیٹی کا فرض ادا کر کے وہ بالکل تنہا ہوگئے ہیں۔ ان ہی دنوں گاؤں جانا ہوا۔ یہ دیکھ کر دل رنج سے بھر گیا کہ وہ اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ مجھے خود بتانا پڑا کہ “میں خالد ہوں۔” ان کی وہ مشہورِ زمانہ نظر جو بہتوں کو بیمار کر چکی تھی ‛ اب بجھی ہوئی مشعل تھی۔ دونوں وقت مل رہے تھے۔ کہنے لگے : “رات کا کھانا میرے ساتھ کھانا۔ رج کے گپ شپ ماریں گے۔ بہت کچھ کہنا سننا ہے۔ ۔ ۔ پھر نجانے ملن ہو نہ ہو۔”
میں نے ہامی بھر لی۔
انہوں نے چولہے میں لکڑیاں دہکائیں‛ توا چڑھایا‛ مکئی کی پانچ ادھ کچی ادھ پکی روٹیاں پکائیں اور پتلے شوربے والے آلو کے سالن اور لسی کے ساتھ پیش کیں۔ یہ دعوتِ شیراز تھی جو ہم دونوں نے مزے لے لے کر اڑائی۔
میں نے پوچھا : “تنہائی اور نابینائی زچ تو کرتی ہوں گی؟”
جواب میں خاموش رہے تو مجھے یاد آیا کہ اونچا تو وہ بہت پہلے سے سنتے آئے۔ سوال بارِ دِگر باآواز بلند دہرایا۔
بولے : “بصارت نے ساتھ چھوڑا تو بصیرت نے ہاتھ تھام لیا ہے۔ کوئی محتاجی نہیں۔”
مگر ان کا لہجہ کھوکھلا محسوس ہوا۔ دن میں بارش کی وجہ سے رات کو مطلع خوب صاف تھا۔ آسمان پر کروڑوں ستاروں نے یورش کر رکھی تھی۔ سبک خرام ہوا کے جھونکے ہمارے وجود سے ٹکراتے تو خنکی کا لطیف سا احساس ہوتا۔ بستر صحن میں بچھے تھے۔ مستری جی نے یادوں کے بند کواڑ کھول دیے۔ وہ اپنی شریکِ زیست کا ذکر چھیڑ چکے تھے۔ بہت دیر بولتے رہے۔ خلاف معمول ان کی آواز مدہم تھی ۔ غالباً خودکلامی پر مائل تھے۔ بات دائمی علاحدگی تک پہنچی تو میں نے دیکھا ستارے ان کی آنکھوں سے ڈھلک کر رخساروں کی جھریوں میں غروب ہو رہے ہیں۔ میں نے مستری جی کو پہلی بار روتے دیکھا۔
صبح ‛ ہنگامِ وداع میں نے کہا: “بابے ! جیون سطحِ مرتفع کی طرح ہے ‛ کہیں نشیب تو کہیں فراز ۔ کہیں کھائیاں تو کہیں ٹیلے۔ سلائی کے ٹانکوں کے بیچ خلا ضروری ہے۔ مصلحتِ قدرت یہی ہے۔ مرنے تک جینا ناگزیر ہے۔”
پتہ نہیں جواب میں یہ جملہ انہوں نے کس تناظر میں کہا : “جلوے‛ سے محرومی کا عذاب ‛ قبر کی اذیت سے ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔”
واقعی بصیرت نے ان کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ میرے ہاتھ کو وہ تادیر تھامے رہے۔ کچھ رقم میں نے گنے بغیر ان کی واسکٹ کی جیب میں ڈال دی تو بولے : “واپس لے لو۔ پیسے کی ضرورت زندوں کو ہوتی ہے‛ مرے ہوؤں کو نہیں۔”
میں بہ چشمِ نم ان سے بغلگیر ہوا اور مزید کچھ کہے بغیر ان کے گھر سے اور پھر گاؤں سے بھی نکلتا چلا گیا۔
اس ملاقات کے بعد پھر ایک بار گاؤں جانا ہوا تو ان کے گھر کے بیرونی دروازے کی دہلیز کو دیمک چاٹ چکی تھی اور زنگ آلود تالا زنجیر کو کنڈی سے جوڑے لٹک رہا تھا۔ ویرانی کی کائی دیواروں سے لپٹی تھی۔ قدیمی برگد کی بچ جانی والی آخری شاخ مفلوج بازو کی مانند برساتی نالے پر جھکی ہوئی تھی۔ میں نے برسوں پیچھے کا تصور کیا جب یہی گھر قناعت ‛ کفایت اور خوشی سے معمور ہوا کرتا تھا۔
معلوم ہوا جب وہ بستر سے لگ گئے تو قریبی گاؤں میں مقیم ان کی منجھلی بیٹی آ کر انھیں اٹھوا لے گئی۔
اگلے دن مجھے اسی گاؤں میں سے گزر کر اپنے سسرالی گاؤں جانا تھا۔
آبائی قبرستان جو کہ راہگزر کنارے ہے‛ اس کے باسیوں کے لیے دعائے مغفرت کر کے قریبی ندیا کی طرف اترتی پگڈنڈی پر ہو لیا۔ سورج کی اولین کرنیں پانی میں رقصاں تھیں۔ ندیا چل کر عبور کی۔ دوسرے کنارے سے چند رنگین سنگریزے بطور نشانی اٹھا لیے ‛ شہتوت کے پیڑوں کے جُھنڈ میں چشمے سے ہاتوں کی اوک بھر بھر ٹھنڈا پانی پیا اور فراز کی جانب بڑھتے راستے پر گامزن ہو گیا۔
مستری جی کی منجھلی بیٹی کا گھر تندہارہ کلاں نامی گاؤں کے آغاز میں ھے تو جب وہاں پہنچا تو اتفاق سے چھت کی منڈیر سے اس نے وہ سواگتی سلام کیا جو بہنیں بھائیوں کو اپنے سسرال میں اچانک دیکھ کر مارے وارفتگی کے کیا کرتی ہیں۔ اس میں اپنایت ہوتی ہے۔ جان نثاری ہوتی ہے۔ بے ساختہ خوشی ہوتی ہے : ” ہائے اللہ جی ۔۔۔ میں صدقے۔۔۔ میرا ویر آیا اے۔”
اور جب میں مٹی سے لیپے صحن میں سے گزرتا ہوا اس کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جس میں مستری جی کئی ماہ سے صاحبِ فراش تھے تو ان کی بیٹی نے بتایا : ” سننا دیکھنا تو بہت پہلے رہ گیا تھا‛ اب تو بات چیت سے بھی گئے۔ بس ہر وقت خاموش پڑے رہتے ہیں۔ کسی کو بلاتے ہی نہیں۔ کھانا پینا تو درکنار ‛ دوا دارو سے بھی منہ پھیر لیا ہے۔ ویرا ۔۔۔ ابا میرا مُک چلیا ای۔”
میری نظر پڑی ۔ بستر پر ایک ڈھانچہ پڑا تھا۔ مستری جی اتنا بدل جائیں گے‛ کبھی نہ سوچا تھا۔ اجل ان کی باقی ماندہ سانسیں گن رہی تھی۔
میں ان کی پائنتی بیٹھ گیا اور چارپائی سے نیچے لٹکتے ان کے بائیں استخوانی ہاتھ کو اپنی دونوں ہتھیلیوں سے دھیرے دھیرے سہلانے لگا۔
یہ ملاقات تین سال بعد ہورہی تھی۔ دفعتاً وہ کسمسائے‛ کھانسے ‛ بوجھل پلکیں بمشکل پٹپٹائیں اور مریل سی آواز لبوں کی قید سے نکل کر کمرے کی فضا میں پھڑپھڑائی : “خالد آیا ہے ۔ ۔ ۔”
بیٹی ان کی پہلے تو حیرت سے گنگ سی رہ گئی پھر دھاڑ مار کر ان سے لپٹ گئی۔
میری اپنی یہ حالت کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ اب میرے دونوں ہاتھ ان کی گرفت میں تھے۔
ان کی بیٹی روتی جاتی اور کہتی جاتی : “کئی مہینے گزر گئے‛ ابا کی آواز سنے ہوئے۔ شکر ہے آج بولے تو ۔۔”
اور مجھے ان کا کہا برسوں پرانا جملہ یاد آ رہا تھا جب وہ پامسٹ کی طرح قسمت کی لکیریں دیکھتے ہوئے کہا کرتے : “مجھے لمس ازبر ہوجاتے ہیں۔”
دو دن بعد مجھے اطلاع ملی کہ مستری جی شہرِ خاموشاں میں اپنی جیون سانجھ کے پڑوسی ہو چکے ہیں۔
افسوس ان کے جنازے کو میں کاندھا نہ دے سکا۔

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply