اپنے ہی گھر میں اجنبی اردو زبان کا نوحہ۔رانا اورنگزیب

محرم کا مہینہ ہے نوحے سنے جا رہے ہیں، سنائے جا رہے ہیں۔مجھے بھی ایک نوحہ پڑھنا ہے۔
اردو ہے جس کا نام ہم جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے!

میں کہ اک گناہ گار مسلم ہوں ،شیعہ ہوں نہ سنی ہوں دیوبندی نہ وہابی ہوں ،پاکستانی بنتا ہوں، پختون ،بلوچی،سندھی اور نہ ہی پنجابی ہوں۔۔آغوش مادر میں جو زبان سنی اس کو رانگھڑی کہا جاتا ہے کہ میری اماں کرنال کے طور راجپوت خاندان سے ہیں۔ماں کی گود سے نکلا تو گلی محلے میں سرائیکی سننے کو ملی جو چنیوٹ جھنگ والے بولتے ہیں۔اپنے ہی گاؤں میں انبالوی لہجے کی پنجابی سنتے بڑا ہوا۔سکول جانے لگا تو اردو سے واسطہ پڑا۔ا ب پ سے ہوتے ہوئے الف ،با، تا سے تعارف حاصل ہوا ،چھٹی تک تو سب ٹھیک ہی تھا چھٹی میں ایک ہولڈر پین جی کی نب اور سیاہی کی دوات اضافی ملی ۔چار لائنوں پر اوپر نیچے کا خیال رکھتے ہوۓ چھوٹی اور بڑی اے بی سی کی مشق شروع ہوئی، اور ہم چھوٹی بڑی کے درمیان پھنسے حیران حیران گھومتے رہے، بڑی سیدھے منہ بات کرتی تو چھوٹی ناراض ،چھوٹی کو مناتے تو بڑی ہماری سرعام چھترول کروادیتی۔خیر چھوٹی بڑی کے چکر میں ایسے گھن چکر بنے کہ گرامر کو بھول گئے ،گرامر پر ابھی ایک نگاہ غلط ڈالی ہی تھی کہ ایک اور مصیبت ایکٹو وائس اور پیسو وائس کی صورت ہمارے کمزور حافظے پر نازل ہوگئی۔آخر پڑھائی کو یہ کہتے ہوئے جان چھڑائی کہ۔۔
بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔

ہم سوتے رہے اور زمانہ چال قیامت کی چل گیا ،ایسی دلکی چال چلی کہ جب اپنے بچے کو ا ب پ اور اک دونی دونی کا رٹا لگوا کے سکول کا قابل فخر سرمایہ بنانے لے گئے ،تو انگریجی سکول کی میٹرک فیل پرنسپل نے بتایا نہ تو اس کو الفا بیٹ آتے ہیں نہ ہی ٹیبل آپ اس کو ون میں داخلہ دینے کا کیسے کہہ رہے ہیں ،یو نو ہم پہلے اس کوکے جی میں ایڈمشن دیں گے۔اور ہاں آپ گھر میں بچے کے ساتھ انگلش بولنے کی کوشش کریں۔
یو نو ۔۔اگر پیرینٹس انگلش میں بات کریں گے تو بچے میں کونفیڈنس امپروو ہوتا ہے۔میں نے کہا بی بی انگلش میں بات کرنا آتی تو ہم کب کے ایم اے انگلش ایم فل پی ایچ ڈی وغیرہ کی ڈگریاں اپنے نام کے ساتھ لگا کے ڈاکٹر کہلواتے پھرتے۔

ماشااﷲ میرے بچے اب مجھے اور اپنی ماں کو پڑھاتے ہیں۔ان کی امی نے بیٹی کو کہا کہ ذرا مجھے نونڑ (نمک)دینا۔بیٹی فوراً بولی مما اس کو سالٹ کہتے ہیں۔میں نے پوچھا آج کیا پکا ہے بیٹا فوراً بولا پاپا آج لیڈی فنگر بنی ہے۔ اچھی خاصی بھنڈی میری پسندیدہ سبزی تھی لیڈی فنگر کا سوچ کے ہی ابکائی سی آنے لگی۔آج فیس بک پر ایک چھچھورے سے چھورے نے ایک نورسمند عرف نور پری کو موبائل کی آفر کی تو جواب پڑھ کے دل کا گارڈن اجڑ گیا۔جواب تھا تھینک یو جی مجھے نیڈ نہیں ہے۔آج ہی بیٹے سے مذاق میں پوچھ بیٹھا۔۔ کدھر سے آئے ہو ؟ بولا کھیل کے آیا ہوں۔
میں نے کہا چلو کھیل کے سپیلنگ بتاؤ۔۔۔
بچہ ہکا بکا رہ گیا ،کہنے لگا پاپا کھیل تو اردو کا لفظ ہے اس کے سپیلنگ کدھر سے آگئے ؟
میں نے کہا بیٹا سپیلنگ کو اردو میں ہجے کہتے ہیں، کھیل بجی مرکب ہے تو اس کے ہجے بتاؤ۔
میرے بیٹے کی شکل رونے والی ہوگئی کہنے لگا کھیل کو انگلش میں گیم کہتے ہیں اور جی اے ایم ای گیم کے سپیلنگ ہیں اردو کے تو مجھے نہیں آتے اور اردو میں یہ جو دو آنکھیں سی بنی ہوتی ہیں ان حروف کا تو ہمیں پتا ہی نہیں۔اب بتائیں کہ ہم بتائیں کیا؟
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے!

جب ہم پڑھتے تھے تو استاد تختی لکھواتے اردو حروف تہجی کی۔ روزانہ خوشخط لکھنے کے لیے ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوتی مگر اب تو تختی قلم دوات اور گاجنی سب خواب وخیال کی باتیں ہیں۔اردو محاورے ضرب الامثال سب کہیں دور دیس گئے۔نہ اردو کوئی پڑھنا چاہتا ہے نہ لکھنا اور نہ ہی بولنا چاہتا ہے۔اب تو عجیب ہی زبان ہے جس میں ہم بات کرتے ہیں جس کو ہم بولتے ہیں سنتے ہیں۔
خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر و مرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے!
(غلام ہمدانی مصحفی)

تھا عرش پہ اک روز دماغِ اردو
پامالِ خزاں آج ہے باغِ اردو
غفلت تو ذرا قوم کی دیکھو کاظم
وہ سوتی ہے بجھتا ہے چراغِ اردو!
(کاظم بنارسی).

گئے دنوں میں شاید کہیں کسی عدالت نے حکم دیا تھا کہ دفتری زبان اردو ہوگی مگر کیا کریں کیسے ہوگی کہ جن لوگوں نے اردو لاگو کرنی ہے وہ تو ایچی سن سے نکلے جعلی انگریز ہیں۔ان کو کیا پتا کہ اردو کیا ہوتی ہے۔اردو زبان کیلۓ مقتدرہ وغیرہ کا نام سنا کرتے تھے اب تو کبھی میڈیا میں کوئ ہلکا پھلکا ذکر بھی نہیں ملتا۔کیا اردو زبان کی کہانیوں میں کوئ مسٹر چپس نہیں جنما؟
اگر ہندی اور سنسکرت میں ہزاروں لاکھوں فلموں ڈاکیومینٹریز اور معلوماتی پروگرامز کا ترجمہ ہوسکتا ہے اور دن رات نیشنل جیوگرافک ڈسکوری۔اور اینیمل پلانٹ چینل پر چل سکتا ہے تو اردو کو ایسی کون سی مشکل پیش آئ ہے سواۓ اپنی زبان اور قوم سے غداری کے؟
اگر چائنہ کا سربراہ اپنی زبان میں ساری دنیا سے مخاطب ہو سکتا ہے تو پاکستانی کیوں پرچیوں کے سہارے غلط سلط انگلش بول کر ملک و قوم کا مزاق بنواتے ہیں۔دکان دار سے کسی چیز کی قیمت پوچھیں تو جواب ملتا ہے ٹو ففٹی کیوں؟کیوں کہ اڑھائ سو کہتے ہی گاہک اس کو ان پڑھ نہ سمجھ لے۔بیت الخلا سے لیٹرین اور لیٹرین سے واش روم بہت ترقی کی ہے ہم نے۔چوپال تھی بیٹھک تھی ڈرائینگ روم ہوا اور اب پتا نہیں کیا ہے۔بھائ جان سے بردر اور بردر سے برو ۔آپی بہن باجی سے ہوتے ہوۓ سسٹر اور سس کا سفر بہت تیزی سے طے کیا ہم نے۔ابھی بھی لوگ کہتے ہیں کہ ترقی نہیں ہوئ۔بابا جان ابا جی ابو جی پاپا اور اب پا۔کیا بات ہے باپ کو بھی مختصر کرلیا۔اسی سے ملک میں زر مبادلہ آۓ گا۔انگلش کو زریعہ تعلیم بنانے کا مقصد اپنے احکام اپنے غلاموں تک پہنچانا تھا۔اور مشرقی اقدار کو پڑھے لکھے ذہنوں سے کھرچنا۔مگر ہمارے ماہرین تعلیم نے انگلش سے طالبعلموں کو تعلیم سے متنفر کرنا اور فیل کرنا اپنا مقصد بنا لیا۔کبھی اس طرح کے جزباتی لوگ بھی اردو کیلۓ کھڑے ہوتے تھے
مٹ جائیں گے مگر ہم مٹنے نہ دیں گے اس کو
ہے جا ن و دل سے پیاری ہم کو زباں ہماری
(اختر شیرانی)

اب کہاں ہے ؟اردو جس کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا تھا اب گلیوں میں روتی پھرتی ہے اور زبان حال سے اپنے ماضی کے رنگین قصے سناتی ہے.
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی
(اقبال)

جب تک آپ اردو کو انگلش سے مکس نہ کریں کوئی آپ کی بات نہیں سنتا نہ سننے پر تیار ہوتا ہے ۔انگلش فر فر بولنے والا مجرم بھی کسی افسر کے سامنے ذرا تیزی سے بات کرے تو صاحب بہادر کی ہوا نکل جاتی ہے کہ ایہہ کنوں ہتھ پالیا ؟
اور اردو بولنے والے معزز کی بات پر دھیان دینا گوارا نہیں۔بزرگ شاعر انور مسعود صاحب نے بھی شاید کسی ایسے ہی مشاہدے کی بات صفحہءقرطاس پر منتقل کی ہوگی۔
ہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سے
جو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
افسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئی
اُردو جو بولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
(انور مسعود)

کیسا ظلم ہے کہ جب سارے ملک کے بچے اپنی زبان بگاڑ چکے ہیں انگلش میڈیم میں پڑھنے والے بچے اردو الفاظ سے بھی واقف نہیں رہے مگر ہماری حکومتیں ستر سال میں بھی اردو کو بطور سرکاری زبان نافذ نہیں کرسکے چلیں کالاباغ ڈیم اختلافات کا شکار ہے کیا اردو زبان کےلیے بھی اتنی ہی مخالفت ہے؟اصل قصہ یہ ہے کہ اشرافیہ نہیں چاہتی کہ عام لوگوں کو بھی سرکاری کاغذات کی سمجھ آنے لگ جائے۔عوم بھی عدالتی فیصلے پڑھنے لگ جائے اور تھوڑے سے پڑھے لکھے کو بھی عمرانی معاہدوں کی سوجھ بوجھ آ جائے۔جبکہ انگلش کا فائدہ یہ ہے کہ حکمران جوبھی کرتے رہیں ستر فیصدی لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ لکھا کیا ہے؟

کیا میں اندر آسکتا ہوں ۔۔میں وہ مزہ کہاں جو مے آئی کم ان سر میں ہے۔دروازے کے پیچھے بیٹھا شہدا بھی خود کو عالم پناہ محسوس کرتا ہے ۔اقوام عالم نے اپنی قومی زبان کو اپنا کر ترقی کی ہے جبکہ ہمارے خیال کے مطابق ہماری زبان ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔چلیں چھوڑیں میں بھی کیا قصہ لے بیٹھا آئیں آپ کو اردو کے بارے میں چند بنیاد پرست شعراء کے شعر سناتا ہوں ان لوگوں نے نہ خود ترقی کی نہ ہی ہمیں کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔یونو جب میں اردو میں شہاری سنتا ہوں مجھے گلٹی فیل ہوتا ہے بیک ورڈ پینڈو لوگ۔ہونہہ
سب میرے چاہنے والے ہیں، میرا کوئی نہیں
میں بھی اِس ملک میں اُردُو کی طرح رہتا ہوں
حسن کاظمی.
وہ گُلِ رنگیں ترا رخصت مثالِ بُو ہوا
آہ! خالی داغؔ سے کاشانۂ اُردو ہوا
(اقبال)

کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
رئیس امروہی

فضا کیسی بھی ہو وہ رنگ اپنا گھول لیتا ہے
سلیقے سے زمانے میں جو اردو بول لیتا ہے
سلیمؔ صدیقی

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
(نامعلوم)

مرے کانوں میں مصری گھولتا ہے
کوئی بچہ جب اردو بولتا ہے
(مشتاق دربھنگوی)

Advertisements
julia rana solicitors london

بچّو، یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا
وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہرگز نہیں سوتی
عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا
اردو وہ زباں ہے کہ جو نافذ نہیں ہوتی
(انور مسعود)۔

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply