قرآ ن و سنت اور وحدتِ امت۔آخری قسط۔قاری حنیف ڈار

نماز کو ایک لاکھ سے زائد صحابہؓ نے نبئ کریم ﷺ سے حاسہ بصر کے ذریعے حاصل کیا اور پھر لاکھوں کی تعداد میں پیدا ہونے والی ان کی اولاد نے بھی اسے اپنے والدین سے دیکھ کر ہی لیا یوں ” صلوا کما رأیتمونی أصلی ” نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو کا سلسلہ چل پڑا ، یہ دیکھ کر نماز پڑھو اللہ کا حکم ہے ،چنانچہ نبئ کریم ﷺ کو نماز کتاب میں پڑھائی نہیں گئی بلکہ جبرائیل امین نے پڑھ کر بلکہ نبئ کریم ﷺ کو ساتھ کھڑا کر کے پڑھا کر سکھائی ہے ، گویا حضورﷺ نے جس طرح جبرائیل کو نماز پڑھتے دیکھا ویسی ہی نماز پڑھی ،اور جبرائیل نے ویسی پڑھی جیسی رب نے سکھائی تھی اور وہ تمام نبیوں کو پڑھ کر دکھاتے اور سکھاتے آئے تھے ،، نماز کے اوقات بھی توقیفی ہیں یعنی گھڑی پر وقت بتا کر نماز کی ٹائمنگ طے نہیں کی گئی  بلکہ جبرائیل امین نے ایک دن کی پانچ نمازیں پڑھائیں ۔

پھر اگلے دن تشریف لائے تو پہلے دن فجر اندھیرے میں پڑھائی تھی ،جس کے مطابق عرب پڑھتے ہیں یعنی سورج طلوع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے ، دوسرے دن جبرائیل نے خوب روشنی ہونے دی اور جماعت کھڑی کی جیسا کہ نیزہ بھی روشنی میں نظر آ جائے ، پھر فرمایا کہ محمد ﷺ نماز فجر کا وقت ان دونوں کے درمیان ہے یہ ابتدا و انتہاء نماز پڑھا کر طے کیں ، پہلے دن ظہر بالکل سورج کے نصف النہار سے ہٹنے پہ پڑھائی اور پھر عصر پڑھائی ،مگر اگلے دن ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جس وقت گزرے دن کو عصر پڑھائی تھی ، اور عصر کو تاخیر کر کے پڑھایا، اور فرمایا کہ ظہر ان دو اوقات کے درمیان ہے ،یعنی اصلاً ظہر اور عصر کے درمیان کوئی وقفہ نہیں ، اور یہی حال مغرب اور عشاء کا ہے ، پہلے دن جس وقت عشاء پڑھائی تھی اگلے دن اس وقت مغرب پڑھا کر فرمایا کہ مغرب کا وقت ان دونوں کے درمیان ہے۔

امام شاطبی نے امام مالک اور امام ابویوسف کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے کہ امام ابویوسف نے امام مالک سے اذان کے بارے میں پوچھا ، اس پر امام مالک نے فرمایا کہ تعجب ہے ایک فقیہہ اذان کے بارے میں سوال کرتا ہے  ( حالانکہ اذان فقہ کا موضوع نہیں) فقہ کا موضوع تو نبئ کریم ﷺ کے بعد پیش آمدہ امور ہیں اور اذان تو فقہاء کے پیدا ہونے سے صدیوں پہلے کا طے شدہ معاملہ ہے ، اب جس طرح ایک فقیہہ اذان سنتا ہے اسی طرح ایک عام آدمی بھی اذان سنتا ہے اور اس سماعت میں کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں کہ ایک اذان سننے والا امام ہو جائے اور دوسرا اس کے تابع ہو جائے ، یہی حال نماز کا ہے کہ اماموں کی پیدائش سے صدیوں پہلے نماز کے طریقے مصطفیﷺ اپنے عمل سے طے کر کے ان کو توقیفی بنا گئے تھے ، اب ائمہ کی اس میں کھوج کرید یا کسی کو کسی پر راجح اور کسی کو مرجوح قرار دینے کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کیونکہ ان سے افضل لوگ یعنی صحابہؓ جو اس علم کے شاہد تھے اور جن کے دور میں وہ عمل پذیر ہوا انہوں نے بلاتفریق تمام طریقوں پر عمل کیا اور ایک دوسرے کو روک ٹوک کر راجح اور مرجوح کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ نبی ﷺ سے مشہور ہر طریقہ امت تک امانت سمجھ کر پہنچا دیا۔

اب صدیوں بعد ان کے راجح اور مرجوح ہونے کی بحث ، پھر اس میں سے مختلف ائمہ کو مختلف طریقے الاٹ کر کے رجسٹرڈ کر لینا اور پھر کسی کو پابند کرنا کہ وہ جس امام کا تابع ہو بس اسی کے طے کردہ طریقے سے ہی نماز پڑھے ، شارع ﷺ کے عملی تنوع کو محدود کرنے کی جسارت ہے اور یوں ان کو بطور اختلاف رجسٹر کر کے امت میں اختلاف کی بنیادیں رکھ دی گئی، امام مالک نے ان سے پوچھا کہ آپ کے یہاں اذان کیسے ہوتی ہے ؟ امام ابویوسف نے اس کا صیغہ بتا دیا، امام مالک نے پوچھا آپ نے یہ کس سے سیکھا ؟ امام ابویوسف نے کہا کہ عراق میں بلالؓ آئے تھے لوگوں نے ان سے فرمائش کی تو انہوں نے جو اذان دی لوگوں نے اس کو محفوظ کر لیا، امام مالک نے کہا کہ ایک اذان اور ایک دن کی نماز کی آپ بات کرتے ہیں میں نہیں جانتا کہ یہ کیسی بات ہے جبکہ یہ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اذانیں دیں پھر ان کی اولاد نے رسول اللہ ﷺ کی قبر کے پاس خلفاء راشدین کے زمانے میں اذانیں دیں( جنہیں عراق سے عمرے اور حج کے لیے آنے والے حجاج سالہا سال سے سن کر جاتے رہے ، اور حضرت بلال سے پہلے سیکڑوں صحابہؓ عراق اذان و نماز سمیت منتقل ہو چکے تھے ،جبکہ بلالؓ شام میں طویل قیام کے بعد وہاں تشریف لے گئے تھے ،کیا ان سے پہلے عراق میں کوئی اذان و نماز نہیں ہوتی تھی ؟ حضرت بلالؓ نے عراق میں فرمائش پر شام میں مروجہ اذان دی تھی ، کیونکہ مدینے میں رائج اذان تو وہ عراق میں اپنے کانوں سن چکے تھے لہذا کوشش کی کہ دوسری اذان کا مزہ بھی عراقی لے لیں ۔

تواتر کیا ہے ؟

مستدرک حاکم میں ایک صحیح روایت میں کہا گیا ہے کہ بقول راوی میں نے معتمر کو کہتے سنا کہ میں اپنے ابا جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا اور میرے ابا جی کہتے تھے کہ میں انس بن مالکؓ جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہوں اور انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ،( سمعت المعتمر یقول: ما آلو ان اقتدی بصلاۃِ ابی ، و قال ابی ما آلو ان اقتدی بصلاۃِ انس ابن مالکٍؓ ، و قال انس ابن مالکٍؓ ما آلو ان اقتدی بصلاۃِ رسول اللہﷺ ” المستدرک علی الصحیحین للحاکم- 1/ 358″ ) یہ ہے عملی تواتر ، اور یہی آج بھی رائج ہے کہ ہم میں سے ہر ایک نے سب سے پہلی نماز اپنے والد کو ہی دیکھ کر پڑھی ہے ،نمازِ حنفی یا بخاری شریف پڑھ کر نہیں پڑھی اور خود امام بخاری کی والدہ بھی امام بخاری کی پیدائش سے پہلے سے کوئی نماز پڑھ رہی تھیں جو ظاہر ہے کہ بخاری شریف سے نہیں بلکہ تواتر سے سیکھی گئی ہو گی۔

نبئ کریم ﷺ سے نماز میں کچھ ارکان ایسے منتقل ہوئے ہیں کہ جن کو آپ ﷺ نے ہمیشہ ایک ہی طرح سے کیا ہے اور امت میں بھی وہ اسی طور پر متفق علیہ ہیں ، امت کے لیے ان میں تنوع کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی ،جیسے سجدہ دو بار کرنا ، ایک رکوع کا سجدے سے پہلے ہونا ، فجر میں دو اور مغرب میں تین رکعتوں کا پڑھنا زیادہ رکعتوں والی نماز میں پہلی دو رکعتوں کو ہی بلند قرأت کے لیے منتخب کرنا ، ظہر اور عصر کی چاروں رکعات میں آہستہ قرأت کرنا وغیرہ ، ان سب کے حق میں دلیل سوائے تواتر کے کوئی نہیں ہے ، اس سلسلے کی تمام روایات کو بیان کرنے کے بعد آخری چارہ یہی ہوتا ہے کہ سلف نے خلف کو اسی طرح منتقل کیا ہے ۔

جبکہ بعض چیزوں میں تنوع کی گنجائش موجود تھی ،جن میں آمین بالجہر ، رفع یدین ، اور ہاتھ باندھنے کے طریقے ،، ان میں نبئ کریم ﷺ سے عملی طور پر تنوع ثابت ہے اور آخر تک ثابت ہے کوئی روایت بھی اس درجے کی پیش نہیں کی جا سکی جس نے ان میں سے کسی کو منسوخ کیا ہوا ہو ،، علامہ انور شاہ کاشمیری نے خدا لگتی کہی ہے کہ ترکِ رفع یدین کی ہمارے پاس ایک ہی حدیث صحیح ہے جو ابن مسعودؓ سے مروی ہے جبکہ ایک حدیث زیلعی کی ہے ، جبکہ رفع یدین کی پندرہ حدیثیں تو صحیح ترین ہیں اور اگر تھوڑا سا اغماض برتا جائے یعنی سند پہ تشدد نہ کیا جائے تو ان کی تعداد 23 تک پہنچتی ہے ، ہم بلا دلیل کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے مسلک کے خلاف حدیث منسوخ ہے جبکہ اس نسخ کی کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہوتی اگر طحاوی ایسی بات کہتے ہیں تو ان کو اس کا ثبوت پیش کرنا ہو گا مجرد ان کا کہا ہوا شریعت نہیں بن سکتا۔

طریقوں کے فرق یا اختلاف کی اصل حقیقت تو بس اتنی ساری تھی کہ یہ سب اللہ کے رسولﷺ کے پسندیدہ طریقے تھے اور امت کے لیے وسعت تھی کہ وہ ان میں سے جن کو چاہے اختیار کرے ، یا تبدیل کر کے سب پر باری باری عمل کرتی رہے ، مگر بعد والوں نے جب فقہ کی تدوین کی تو نماز کو بھی فقہ کا موضوع بنا لیا اور اپنے یہاں کے رائج طریقے کو ہی سنت اور راجح ثابت کرنا شروع کر دیا ، پھر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے مختلف روایات و آثار کا سہارا لیا ،اور یہ حقیقت پسِ پردہ چلی گئی  کہ اللہ کے رسول ﷺ ان سب پر عمل کرتے ہوئے تشریف لے گئے اور کسی کو بھی راجح و مرجوح قرار نہیں دیا اور نہ ہی صحابہؓ کرام نے ایسی کوئی سعی کی ، اگر ایک طریقہ ابوبکر صدیقؓ کے آثار سے ثابت کر بھی دیا جائے تو یہ کیسے ثابت ہو گا کہ وہ حضرت بلالؓ کے اختیار کردہ طریقے سے افضل ہے ؟

طریقے تو دونوں برابر ہیں کیوں کہ دونوں نبئ کریم ﷺ کے طریقے ہیں اپنی اصل اور Origin میں وہ دونوں مصطفوی، ہیں نہ کہ صدیقیؓ و بلالیؓ ، کہ اس میں حضرت صدیقؓ کا وزن ڈال کر اس کو راجح قرار دیا جائے جبکہ دونوں اصحابؓ نے اس کو مصطفوی عمل کے طور پر ہی سر انجام دیا نہ کہ اپنے ذاتی عمل کے طور پر، پھر بات صدیقؓ و بلالؓ کے درمیان تقابل تک محدود نہ رہی بلکہ اس میں امام ابوحنیفہؒ کا وزن بھی ڈالا گیا اور امام مالک و امام شافعی کا بھی ناپ تول کیا گیا ، اپنے اپنے امام کے مناقب کے زور پر نبی ﷺ کے طریقوں کا قد کاٹھ ناپا جانے لگا ۔

ائمہ تک نماز بلا اختلاف پہنچی تھی ،اور مسلمان آزاد تھے کہ جس کو جو طریقہ بھائے وہ اس پر عمل کرے ، ائمہ کی فقہی کتابوں میں درج ہونے کے بعد امت فقہی مکاتب میں تقسیم ہو گئی  اور اس کو سبق پڑھایا گیا کہ جب آپ نے ایک امام اختیار کر لیا ہے تو بس اسی امام کی مدون شدہ نماز پڑھنی ہے،کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اگر ایک پر کفایت کرنا ہے تو پھر ایک مصطفیﷺ پر کفایت کر لو ، اور آپ کے پسندیدہ طریقوں کو عوام الناس کے لیے دوبارہ عام کر دو ،جس طرح مصطفیﷺ امت کی مرضی پر چھوڑ گئے تھے امت کو اسی طرح آزاد رہنے دو۔

عملی تواتر
تیسری نسل تک نماز عملی تواتر سے پہنچی جس کے بارے میں علامہ شاشی لکھتے ہیں کہ ‘ متواتر وہ ہے جسے ایک گروہ نے اخذ کر کے دوسرے گروہ کو منتقل کیا ہو، اس طرح کہ یہ تصور کرنا بھی محال ہو جائے کہ لوگوں کی اتنی بڑی اکثریت جھوٹ پر مجتمع ہو سکتی ہے ، اور یہ اسی شان کے ساتھ منتقل ہوتی ہوئی تم تک پہنچے ، جس طرح کہ قرآن منتقل ہو کر تم تک پہنچا ، نمازوں کی رکعات اور زکوۃ کا نصاب تم تک پہنچا “( فالمتواتر ما نقلہ جماعۃ عن جماعۃ لا یتصور توافقھم علی الکذب لکثرتھم واتصل بک ھکذا، امثالہ نقل القرآن واعداد الرکعات ومقادیر الزکوۃ( اصول الشاشی ص-272) )
علامہ شاشی کی مثال میں نماز کی تمام حرکات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

عملی تواتر کی اس سے بھی واضح تعریف اصول فقہ کے مشہور مصنف اور محقق” علامہ عبدالوھاب خلۜاف ” نے کچھ یوں کی ہے( رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنے والوں کو سامنے رکھا جائے توسنت کی تین اقسام ھیں ،سنتِ متواترہ، سنتِ مشہورہ ، سنت آحاد ،
1- سنت متواترہ وہ ہے جسے اللہ کے رسولﷺ سے اتنے بڑے گروہ نے نقل کیا ہو کہ عام طور سے اتنے لوگ جھوٹ پر متفق نہ ہو سکتے ہوں ، ایک تو ان کی تعداد اتنی کثیر ہو دوسرا وہ دیانتداری ، الگ الگ ماحول ، اور الگ الگ علاقوں میں بسنے کے باوجود اس سنت پر یک زبان و یک عمل ہوں ، پھر اسی شان اور کثرت والے دوسرے گروہ نے ان سے اخذ کیا ہو ، اور پھر ان سے بعد والے نے یہاں تک وہ اسی شان کے ساتھ ہمیں وصول ہوئی ہو کہ ہر دور میں اس کی کثرت اس قدر ہو کہ کوئی گمان نہ کر سکے کہ اتنے مختلف احوال اور مواطن رکھنے والے لوگ ایک بات پر اس حد تک متفق ہو سکتے ہیں ،رسول اللہ ﷺ سے وصول ہونے سے لے کر ہم تک یہ سنت اسی شان اور کیفیت کے ساتھ سفر کرتے ہوئے پہنچے،

اس قسم میں رسول اللہ ﷺ کو عمل کرتے ہوئے دیکھ کر منتقل کیے گئے نماز کے طریقے، روزہ کے بارے میں حج اور اذان اور دیگرجو اسلامی شعائر جن کو مسلمانوں نے نبئ کریم ﷺ کے عمل کا مشاہدہ کرتےہوئے اخذ کیا یا سن کر اور پھر اس کو اسی طرح ایک جم غفیر کی صورت اگلے گروہ کو منتقل کیا ھو اور وہ بھی اس شان کے ساتھ کہ اس سنت پر نہ تو الگ علاقوں میں بسنا اور نہ ہی الگ زمانوں میں ہونا اثر انداز ہو سکے سنت متواترہ کہلاتا ہے ، البتہ قولی روایت میں حدیث متواتر بہت کم پائی جاتی ہے – مطلب یہ کہ نماز اور دیگر اسلامی شعائر سے متعلق نبئ کریم ﷺ کا عمل تو عظیم تواتر کے ساتھ منتقل ہوا مگر اللہ کے رسولﷺ کے اقوال تواتر کے ساتھ بہت کم نقل ہو سکے(عبدالوھاب خلاف ،علم الاصول الفقہ طبع مکتبہ الدعوہ ص: 41 )

عملی تواتر کی متبادل اصطلاحات۔
عملی تواتر کے لیے فقہاء نے ” توارث ” کا لفظ بھی استعمال کیا ہے ، یعنی وہ عمل جو نسل در نسل وراثت کے طور پر منتقل ہوتا رہا ہو، باپ نے دادا سے اور بیٹے نے باپ سے اس کو لیا ہو ،مثال کے طور پر تشہد کو بغیر آواز کے پڑھنا شرعاً مطلوب سمجھا گیا ہے ، اس کی دلیل میں علامہ سرخسی لکھتے ہیں کہ ، اللہ کے رسولﷺ سے ایسا کوئی قول یا حکم نقل نہیں کیا گیا کہ تشہد کو آہستہ پڑھا جائے ،مگر لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے تشہد کو بغیر آواز کے پڑھتے آئے ہیں اور یہ توارث تواتر کی طرح ہے ،( فانہ لم ینقل الجھر بالتشھد عن رسول اللہ ﷺوالناس توارثو الاخفاء بالتشھد من لدن رسول اللہﷺ الی یومنا ھذا، والتوارث کالتواتر ” المبسوط ” )

کچھ فقہاء اس کو ” نقل الخلف عن السلف ” کی اصطلاح سے بیان کرتے ہیں کہ اگلوں نے پچھلوں سے اس کو اسی طرح عمل ہوتے ہوئے لیا اورعمل سے اگلوں کو منتقل کر دیا ، امت کا اس پر اجماع ہے کہ فجرکی دونوں رکعتوں میں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں امام کو بآوازِ بلند قرات کرنی ہے جبکہ باقی کی دو رکعتوں اور ظھر و عصر کی چاروں رکعتوں میں آہستہ قرأت کرنی ہے ، اس میں اہم بات یہ ہے کہ امت کے اس اتفاق کے پیچھے سوائے نبئ کریم ﷺ کے عملی تواتر کے ، کوئی قولی حدیث موجود نہیں ہے ، جو حدیثیں بیان کی جاتی ہیں وہ یا تو واضح نہیں ہیں یا پھر صحیح نہیں ہیں لہذا فقہاء اس کی دلیل میں صرف عملی تواتر کو ہی بطور دلیل پیش کرتے ہیں، مشہور شافعی فقیہہ علامہ شیرازی لکھتے ہیں کہ امام کے لیے لازم ہے کہ صبح کی نماز میں اور مغرب اور عشاء کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرات کرے ، اس کی اصل یہ ہے کہ اگلوں نے اس کو پچھلوں سے اسی طرح نقل کیا ہے ، آگے لکھتے ہیں کہ ظہر اور عصر کی چاروں جبکہ مغرب اور عشاء کی بعد والی دو رکعتوں میں بغیر آواز قرأت کرے کیونکہ اگلوں نے پچھلوں سے ایسا ہی نقل کیا ھے ( المہذب 1/142)

اس پر امام نووی لکھتے ہیں کہ اس دلیل کی تائید میں حدیثیں بھی ہیں مگر باوجود کوشش کے مجھے کوئی صحیح حدیث نہیں مل سکی،اسی مسئلے میں علامہ قدامہ حنبلی نے بھی لکھا ہے کہ اس سری اور جھری قراتوں کی دلیل صرف نبئ کریم ﷺ کا فعل ہی ہے جو پچھلوں نے اگلوں کو منتقل کیا ہے۔( والاصل فیہ فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، و قد ثبت ذلک بنقل الخلف عن السلف” المغنی 1/407)
گویا جس طرح قرآن اپنے وجود کے لیے کسی حدیث یا روایت کا محتاج نہیں بلکہ امت سے امت کے ذریعے امت میں منتقل ہوتا آیا ہے یہی شان سنت کی بھی ہے جس کا وجود امت اسی امانت کے ساتھ سنبھال کر منتقل کرتی چلی آئی ہے جس امانت کے ساتھ وہ قرآن کو لیے چل رہی ہے۔

عملی تواتر میں جمعے کی نماز کو بلند آواز سے پڑھنا بھی شامل ہے ،اگرچہ جمعہ ظہر کے قائم مقام ہے اور اسی وقت ادا کیا جاتا ہے جس وقت ظہر کو خفیہ پڑھنے کا طریقہ منقول ہے مگر وھیں جمعے کی نماز کو بلند پڑھنا بھی تواتر اور توارث سے منتقل ھوا ھے ،جس کا کوئی حکم صحیح روایات میں نہیں ملتا گویا نبئ کریم ﷺ کا عمل ھی حکم ھے ،یہی معاملہ عید کی نماز کا بھی وہیں ، شوافع اور حنبلی فقہاء اگرچہ اہل حدیثیں اور بہت مجبور ہو کر ہی تواتر کا حوالہ دیتے ہیں اور چنانچہ نماز کے معاملے میں ان کی مجبوری دیکھنے والی ہوتی ہے جب وہ صرف تواتر پر بھروسہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

امام مالک متواتر سنت کے اس قدر پیرو تھے کہ تواترکے بالمقابل صحیح تر حدیث کو بھی ایک طرف رکھ دیتے تھے، ان کے استاد ربیعہ الرأئی اس سلسلے میں ان کے قائد تھے جن کا قول تھا کہ وہ بات جو تمہیں ہزار لوگوں سے ملے اس سے بہرحال بہتر ہے جو تمہیں ایک آدمی سے ملے( الف عن الف خیر من واحد عن واحد ،” حلیۃ الاولیاء” ) امام مالک نے تابعین کا زمانہ پایا تھا اور ان کے عمل کا بغور جائزہ لیا تھا ، ان کے نزدیک تابعین میں انہی امور میں تواتر تھا جن کو انہوں نے صحابہؓ سے متواتر ہی لیا تھا اور صحابہؓ کا تواتر یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے نبئ کریم ﷺ کو یہ عمل متواتر کرتے پایا ہے ( الموافقات-3-270)

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عملی تواتر صرف نماز کے ساتھ ہی خاص ہے یا باقی شریعت میں بھی اس کا خیال رکھا جائے گا ؟اصل میں عملی تواتر پایا ہی ان امور میں جاتا ہے جن کو شب و روز دہرایا جاتا ہے اور جس میں ہر خاص عام برابر کا شریک ہے ،بہ نسبت ان امور کے کہ جو لاکھوں میں سے ایک آدھ آدمی کو درپیش ہوں یا کبھی کبھار پیش آتے ہوں ، قرآن اور نماز روزمرہ کے امور میں سے ہیں جبکہ تعزیرات وغیرہ کبھی کبھار اور چند ایک کو پیش آنے والا معاملہ ہے ،لہذا فقہاء بھی تعزیرات میں تواتر کا ذکر نہیں کرتے ، یہی موقف ابن تیمیہ ؒ نے بھی اختیار کیا ہے کہ نماز میں متفق علیہ امور عملی تواتر سے ثابت ہیں جن پر کوئی نزاع نہیں ،یہ متواتر باتیں ہر خاص وعام میں برابر طور پر مشترک ہیں ،جیسے نمازوں کی تعداد ،رکعات کی تعداد، ان کے اوقات، زکوۃ کا نصاب، رمضان کا مہینہ کونسا ہے ، طواف اور میقاتیں ( مقدمہ فی اصول التفسیر) البتہ نماز کے مختلف طرق کا ذکر وہ تواتر کے سلسلے میں نہیں کرتے ،
نماز کے تمام طریقے مسنون ہیں۔
جی ہاں نماز کے تمام طریقے مسنون ہیں،عام مسلمان کو ہمیشہ یہ دشواری لاحق رہی ہیں کہ نماز میں ایک ہی عمل کو مختلف لوگ الگ الگ طریقوں سے سرانجام دیتے ہیں اور سب ہی یہ دعوی کرتے ہیں کہ میرا طریقہ مسنون ہے ؟ وہ یہ حقیقت جاننے کو بیتاب ہے کہ آخر یہ مختلف طریقے سنتِ رسول ﷺ کیسے ہو سکتے ہیں ، پھر چاروں ائمہ کو حق کہنے والے دوسرے امام کے اتباع پر قدغن بھی لگا دیتے ہوں تو ان کے شکوک و شبہات مزید گہرے ہو جاتے ہیں جن پر بعض ملحدین مزید تیل بھی چھڑکتے رہتے ہیں کہ جو لوگ ایک نماز پر مجتمع نہیں ہو سکتے یا جو دین لوگوں کو ایک ایسے عمل کے بارے میں واضح اور دوٹوک حکم نہیں دے سکا جو ان کو دن میں پانچ بار درپیش ہوتا ہے وہ ہر آئے دن پیدا ہونے والے مسائل میں امت کی راہنمائی کیسے کرے گا ؟ یا یہ کہ نبئ کریم ﷺ نے آخر آدھ گھنٹہ خرچ کر کے لوگوں کو نماز سکھا ہی کیوں نہیں دی ؟ یا یہ کہ تبلیغی جماعت ایک سہ روزے میں نماز سکھا دیتی ہے وہ 23 سال میں ایک رکعت متفق علیہ طور پر نہ سکھا سکے۔

پھر یہ کہ اگر ایک ہی عمل سنت ہے تو اتنے بہت سارے طریقے سنت کے خلاف قرون اولی میں ہی نماز میں کیسے داخل ہو گئے ؟ نماز کوئی سائنسی دریافت تو نہیں جس کے بارے میں بڑے بڑے ائمہ بھی فیصلے کرنے میں ناکام رہے کہ سنت طریقہ کیا ہے ؟ یہ سارے اعتراضات ہمارے علماء کےمتشدد رویوں کی وجہ سے ہی وجود پذیر ہوئے ہیں ، جنہوں نے کسی ایک کو اختیار اور دوسرے کو ترک کرنے کی قسم ہی کھا لی ، حالانکہ تین بہترین صدیاں اس کے بغیر بھی گزر گئی تھیں مگر کبھی کسی نے اختلاف نہیں کیا تھا ، اورجس کو جو طریقہ پسند آیا اس نے اس کو اختیار کیا اور جب جی کیا دوسرے پر بھی عمل کر لیا ، چنانچہ کوئی دوسرے طریقے کی تحقیر نہیں کرتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ میں بھی کل اس کو پریکٹس کروں  گا،گویا ان طریقوں کو دیواریں مار کر مقید نہیں کیا گیا تھا لہذا لوگوں میں ان کے خلاف تعصب اور غیریت بھی نہیں پائی جاتی تھی،کہ یہ میرا طریقہ ہے میری مسجد میں بس اسی پر عمل کیا جا سکتا ہے ،اگر کسی نے دوسرے طریقے پر عمل کرنا ہے تو اپنی مسجد بنا لے اور پریکٹس کر لے۔

اختلاف ائتلاف کی ضد ہے ،جو اختلاف الفت کو ختم کر دے اسی کو اختلاف کہیں گے باقی سب وسعت ہے ، اگرکسی موٹر وے کے 6 ٹریک ایک ہی منزل کی طرف جا رہے ہیں تو ان کو اختلاف کون کہتا ہے ؟ ہر کوئی اس کو سڑک کی وسعت شمار کرتا ہے، لیکن اگر صرف دو ٹریک ہوں جن میں سے ایک دائیں مڑ کر کسی اور شہر کو جا رہا ہے اور دوسرا سیدھا مگر کسی اور شہر کی طرف جا رہا ہے تو ان میں سے ہر ٹریک مختلف کہلائے گا کیونکہ اس کی منزل مختلف ہے ، جب ہر عمل کی منزل مصطفیﷺ ہیں تو اختلاف کیسا ؟ ہاں جب منزل اپنا اپنا امام ہو تو پھر واقعی لوگوں کو مغالطہ ہوتا ہے اور شکوک پیدا ہوتے ہیں۔

رہ گئی بات ایک ہی عمل کو مختلف طریقوں سے کرنے کی تو جب اللہ کے رسولﷺ نے ہی ایک عمل کو مختلف طریقوں سے کبھی ایک طرح سے اور کبھی دوسری طرح سے کیا ہو تو ان سب کو منسوخ کر کے بس ایک کو جاری کرنے کی جرأت کون کر سکتا ہے؟ یہاں تو خبر یہ ہے کہ اگر موسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کی نجات بھی نبئ کریم ﷺ کے اتباع میں تھی نہ کہ اس کی سنت کو منسوخ کرنے میں، اب رہ گئی بات سکھانے کی تو بہترین طریقہ کر کے سکھانا ہے نہ کہ پڑھانا، نبئ کریم ﷺ نے کر کے دکھا کر اتمامِ حجت کر دی ، آدم علیہ السلام کے بیٹے کو بھائی کی لاش دفنانے کا طریقہ بتانے کے لیے  کوا بھیجا گیا جس نے زمین کھود کر اس کو سکھایا کہ زمین میں اس کو دفن کرو ، اور اس نے بھی سیکھ لیا اور خود کو ملامت کی کہ میں تو کوے جتنا عقلمند بھی نہ ہوا کہ اپنے بھائی کی لاش کو دبا ہی دیتا ۔

سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی پوزیشن میں ابن عباسؓ اور ابن عمرؓ سے ایک طریقہ مروی ہے جس میں دونوں پیروں پر بیٹھنے کی اجازت ہے ، امام شافعی اس کو پسند فرماتے ہیں ، جبکہ وائل ابن حجرؓ اور ابوحمید سے بائیاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا منقول ہے دائیں کو کھڑا رکھنا ہے ، اور بہت سارے ائمہ نے اس کو سنت قرار دیا ہے ، الغرض احادیث بھی دو طرح کی ہیں اور ائمہ میں بھی اختلاف ہے ۔

امام نووی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مختلف احوال ہوا کرتے تھے ،کبھی آپ ﷺ ایک طریقہ اختیار فرماتے تو کبھی دوسرا ،کبھی قرأت طویل کرتے تو کبھی مختصر ،اسی طرح وضو میں بھی کبھی اعضاء کو ایک دفعہ دھوتے تو کبھی دو دفعہ اور کبھی تین دفعہ ، کبھی طواف سواری پر کیا تو کبھی پیدل وتر پہلی شب میں بھی پڑھے ،درمیانِ شب بھی اور تیسرے پہر بھی ، گویا اللہ کے رسول ﷺ ہر صورت کو سنت بنا دیتے ہیں ، کسی کو زیادہ کرتے تا کہ معلوم ہو کہ یہ زیادہ پسندیدہ ہے تو کسی کو کبھی کبھار کرتے تا کہ اس کا جواز ثابت ہو ( المجموع شرح المہذب )

مگر میں یہ کہتا ہوں کہ نبئ کریم ﷺ نے ہر وہ صورت اختیار فرمائی کہ جس کو بعد والے عذر کی وجہ سے بھی کریں تو سنت ہی شمار ہو اور وہ اپنے نبئ ﷺ کے متبعین شمار ہوں ، نہ کہ مخالفت کرنے والے ، مثلاً آپ نے دونوں پاؤں بچھا دیے اور دایاں پاؤں کھڑا نہیں کیا ، میرا ایکسیڈنٹ ہوا جس میں میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا فریکچر ہو گیا، میں دونوں پاؤں بچھا کر بیٹھتا تھا اور شکر کرتا تھا کہ میرے نبی ﷺ میرے لیے یہ سنت بھی چھوڑ گئے تھے ،آج بھی جس دن پاؤں کو سردی لگے تو وہ درد عود کر آتا ہے اور مجھے نماز کے دوران ہی پاؤں ہاتھ سے پکڑ کر لٹانا پڑتا ہے ،اگرچہ ایکسیڈنٹ کو 20 سال ہو گئے ہیں ، ایک آدمی کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پیشاب نہیں کر سکتا تو اس کوکھڑے ھو کر پیشاب کرنے میں بھی نبی ﷺ کے اتباع کی گنجائش مل جائے گی ۔

اس بات پر تعجب کی کوئی گنجائش نہیں کہ دو مختلف طریقے سنت کیسے ہو سکتے ہیں ، اللہ کے رسول ﷺ جن اعمال کو مختلف طریقوں سے ادا کیا وہ سارے طریقے صحابہؓ میں رائج ہو کر منتقل ہوئے ہیں، قنوت کے محل کے بارے میں ائمہ میں اختلاف ہے ،کچھ کے نزدیک رکوع سے پہلے قنوت ہے جبکہ کچھ کے نزدیک رکوع کے بعد ہے ، اور یہ دونوں طریقے نبئ کریم ﷺ سے ثابت ہیں، امام ابن منذر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نام ان صحابہؓ کی فہرست میں شامل کیا ہے جو کبھی رکوع سے پہلے قنوت پڑھا کرتے تھے اور کبھی رکوع کے بعد ، انس بن مالکؓ سے پوچھا گیا کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے یا بعد ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم دونوں طریقوں سے پڑھا کرتے ہیں کبھی پہلے اور کبھی بعد اور دنوں رسول اللہ ﷺ کی سنت ہیں ( کلَ ذالک کنا نفعل ، مسند سراج -روایت نمبر 1350 ،شیخ البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے )
خود میں بھی اگر قنوت رکوع سے پہلے بھول جاؤں تو رکوع کے بعد پڑھ لیتا ہوں اور سنت سمجھ کر پڑھتا ہوں سجدہ سہو نہیں کرتا۔

نماز کے مختلف طریقے ہمیں حدیث کی کتابوں میں راویوں کے مختلف الفاظ کی صورت میں پہنچے ہیں ، یہ روایتیں قولی ہیں اور قولی روایتوں میں تواتر شاذ ہی ہوتا ہے ، اس لیے حدیث کے بڑے بڑے مجموعوں میں کہ جن میں ہزاروں حدیثیں صحیح ہیں متواتر احادیث بس انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں ، کسی کے نزدیک 20 ہیں تو کسی کے نزدیک 30 ہیں ، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ امت نے نماز ان روایتوں سے نہیں بلکہ ان روایتوں کی تدوین سے صدیوں پہلے سے جاری و ساری تعامل سے سیکھی ہے ، راویوں نے ان جاری و ساری ارکان کے بارے میں روایات اکٹھی کرنے کا جوکھم اپنے سر لیا تھا ، تا کہ علمی طور پر ان کا ثبوت فراہم کیا جائے ، یوں علم کی اعلی ترین صورت تواتر کو کم تر درجے کی صورت یعنی روایت سے ثابت کرنے کا بیڑا اٹھا لیا یوں بظاہر گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھ دیا گیا۔

مزید یہ کہ بعد والوں نے ان روایات کی بنیاد پر جب نماز کے ارکان کا قد کاٹھ ناپ کر ان میں سے بس ایک ہی نمازِ نبوی برآمد کرنے کا بیڑا اٹھایا جو کہ ان کا دائرہ کار ہی نہیں تھا تو امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سامان کر دیا ، ہر آنے والے دور میں لوگ پہلوں کی نسبت تنگ نظر ہی پیدا ہوتے ہیں لہذا نماز وحدت کی بجائے تفریق کا ذریعہ بن گئی ، نبئ کریم ﷺ سے صحابہؓ کے عملی تواتر سے منتقل ہونے والی ہر نماز سنت تھی اور اس سنت کو منسوخ یا معطل کرنے کا اختیار قیامت تک نہ کسی کو تھا اور نہ ہو گا ،روایتوں میں بس ایک دو راوی بات کو لے کر چلتے ہیں ، ان ایک دو راویوں کی بنیاد پر وہ کام جس کو پوری امت لے کر چلی کبھی معطل نہیں کیا جا سکتا ، امت نے نماز راویوں سے نہیں نمازیوں سے سیکھی ہے ، یہ بات حتمی ہے کہ نماز ان تمام راویوں سے پہلے سے موجود تھی اور اپنی تمام شکلوں میں موجود تھی ، راوی یہی نمازیں پڑھتے پڑھتے جوان ہوئے اور پھر اس کی کھوج میں لگ گئے ،جس کے بارے میں ان کو زیادہ روایتیں مل گئیں اس کو درست قرار دے دیا اور جن کے بارے میں کم ملیں ان کو کمتر قرار دے دیا ،

عملی تواتر سب سے مضبوط علمی دلیل ہے ، اسی دلیل سے قرآن کی قرآنیت ثابت ہے ، اور اس کے بعد قرآن کی قرآنیت کی دلیل ڈھونڈنا خود قرآن پر سوال اٹھا کھڑا کرنا ہے کیونکہ قرآن سے باہر قرآن اورکہیں بھی ملتا نہیں، اسی طرح نماز کی اصل بھی عملی تواتر ہے نماز کا ہر طریقہ حتمی ہے اور نبئ کریم ﷺ نے ان متواتر طریقوں میں سے ہر طریقے پر نماز پڑھی ہے اور اسی طرح بغیر منسوخ کیے اس کو چھوڑ گئے ہیں ، جس کو نبئ کریم ﷺ کی جو ادا پسند ہے اسی طریقے سے نماز پڑھ سکتا ہے ، روایتوں کی نماز کو دیکھا جائے تو اس کی مختلف کیٹیگریز ہیں ، بعض اعمال وہ ہیں جو تواتر عملی بھی رکھتے ہیں اور روایتیں بھی ان کی تائید کرتی ہیں، روایتیں بھی اعلی درجے کی ہیں اور تواترِ عملی تو بذاتِ خود اعلی ترین درجے کی دلیل ہے ،بعض اعمال وہ ہیں کہ جن کے حق میں روایتیں یا تو ہیں نہیں اور جو ہیں وہ بہت ضعیف ہیں البتہ عملی تواتر موجود ہے ، جیسے عورتوں کی نماز کی ہیئت اور رکوع کے بعد ہاتھ کہاں رکھے جائیں – بعض اعمال کے حق میں راویتیں یا تو کمزور ہیں یا خود محدثین کے یہاں وہ غیر معروف ہیں مگر عملی تواتر موجود ہے جیسے تکبیرِ تحریمہ کے بعد قیام کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھنے ہیں۔ ـ

گویا تواتر میں تو نماز بس ایک ہی ہے جس میں مصطفیﷺ نے مختلف انداز اختیار کیئے ، اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اللہ کے مزاج کے مطابق جو طریقہ آپ ﷺ کو اس دن مناسب لگا ،بیساختہ اس کو ادا کر دیا ،اور جس دن وہ کیفیت یاد آئی اس کو دہرا بھی دیا ، روایتیں اس مسنون نماز کے ضعف و قوت کا فیصلہ نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ راویوں اور فقہاء کو بھی اسی طرح تواتر سے ملی ہے ، جس فقیہہ کے علاقے میں جو صحابیؓ تشریف لائے ساتھ نبئ کریم ﷺ کی ادا بھی لیتے آئے ، اس علاقے کے فقہاء نے اس کو اختیار کر لیا ، دوسرے علاقے کے فقہاء کسی دوسرے صحابیؓ کے ذریعے پہنچنے والی ادا پہ قربان ہو گئے مگر نماز اصل میں نبئ کریم ﷺ کی طرف سے رب کے حضورمیں بندگی کی ادائیں ہیں ، جنہیں اللہ قیامت تک زندہ رکھے گا اور انہیں دہرا دہرا کر دیکھتا رہے گا ،کسی کا ان سے بغض یا عداوت یا نفرت ان طریقوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،،

مثلاً اللہ کے رسول ﷺ نے لفظ قنوت یعنی تابعداری کی ہر شکل اپنا کر دکھا دی ، ( و قوموا للہ قانتین ) اللہ کے سامنے تابعدار بن کر کھڑے ہوا کرو،کبھی تو آپ نے تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ بھی ہاتھ نہ اٹھائے اور ہاتھ دونوں اطراف میں لٹکائے رکھے اور نظریں بالکل سامنے کسی غیر مرئی نقطے پر جما کر بےحس و حرکت کھڑے ہو گئے ( یہ ہاتھ بندھ جانا یا کسی کے سامنے ہاتھ تک اٹھانے کی جرأت نہ کر سکنے کا کنایہ تھا ) ،جس طرح اٹینشن کی پوزیشن میں کوئی فوجی کھڑا ہوتا ہے، یہ صورت امام مالک کے یہاں محفوظ ہو گئی ۔ کبھی اللہ کا جلال غالب ہوا تو ہاتھ ناف پہ جم گئے یہ عاجزی کی صورت ہے ، اسے امام ابوحنیفہ کے یہاں محفوظ کر دیا گیا ،، کبھی اللہ کی محبت کا غلبہ ہوا تو ہاتھ یوں سینے سے چپک گئے جیسے کسی محبوب ہستی کو سینے سے لگایا جاتا ہے، امام ابن قیم نے زاد المعاد میں ایک طرف اشارہ کیا ہے کہ حدیث قدسی کے مطابق نبئ کریم ﷺ نے ایک دفعہ اللہ پاک کوخواب میں دیکھا ،جس کو آپ ﷺ نے یوں بیان فرمایا کہ ؎((أتَاني الليلةَ ربِّي تباركَ وتعالى في أحسنِ صورةٍ – قَالَ أحسِبُهُ قَالَ في المنامِ- فَقَالَ يا مُحمَّدُ هل تدري فيمَ يختصمُ الملأ الأعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لا، قَالَ فوضَعَ يدَهُ بيَن كَتِفَيَّ حتَّى وجدْتُ بَردَهَا بيَن ثديَيَّ أَوْ قَالَ في نَحْري فعلمتُ ما في السَّمَاوات وما في الأَرْضِ. قَالَ يا مُحمَّد هلْ تدري فيمَ يختصمُ الملأُ الأعْلَى؟ قُلْتُ نعم في الكفَّاراتِ، والكفَّاراتُ المُكْثُ في المَسْجِدِ بعدَ الصلاةِ، والمشْي عَلَى الأقدامِ إلى الجماعاتِ؛ وإسْبَاغُ الوضوءِ في المكَارهِ، ومَنْ فعلَ ذلكَ عاشَ بخيرٍ وماتَ بخيرٍ وكَانَ منْ خَطِيئَتِهِ كَيومِ ولدتْهُ أمُّه، وقَالَ: يا مُحمَّدُ إذا صلَّيتَ فقلْ: اللَّهمَّ إنّي أسَألُكَ فِعْلَ الخيراتِ وتركَ المنكراتِ وحبَّ المسَاكينِ، وإذا أردتَ بعبادكَ فتْنَةً فاقبضْني إليكَ غيرَ مفتونٍ قَالَ والدَّرجَاتُ إفشَاءُ السَّلامِ وإطعامُ الطعامِ والصلاةُ بالليلِ والناسُ نيامٌ)
[لترمذي عن حديث ابن عباس رضي الله عنهما]

آج رات کو میرا رب میرے پاس آیا اپنی بہترین صورت میں اور پوچھا محمد کیا تم جانتے ہو کہ ملا  اعلی کے فرشتے کس بحث میں لگے ہوئے ہیں ؟ میں نے کہا کہ جی نہیں ؟ اللہ پاک نے اپنا دستِ مبارک میرے دو شانوں کے درمیان رکھا ،جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی گردن سے لے کر اپنے سامنے پستانوں تک سینے میں محسوس کی ،جس کے نتیجے میں آسمانوں اور زمین میں جو چل رہا تھا میرے علم میں آ گیا ، اللہ نے پھر پوچھا کہ اچھا اب بتاؤ کہ ملأ اعلی کے فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ وہ نماز کے بعد مسجد میں بیٹھے رہنے والوں ، اور پیدل چل کر مسجد جانے والوں ، اور ٹھنڈے پانی اور سردی میں جبکہ وضو کرنا بھاری لگتا ہے اس وقت خوب مل مل کر وضو کرنے والوں کے اجر پر رشک کر رہے ہیں ، اور یہ کہ جس نے ایسا کیا وہ خیر کے ساتھ زندہ رہے گا ، اور خیر پر مرے گا اور اس کی خطائیں یوں صاف ھو جائیں گی جیسے اس کی ماں نے اس کو اسی دن جنا ہے ، پھر اللہ نے حکم دیا کہ اے محمد(ﷺ) جب تو نماز پڑھا کرے تو یہ دعا کیا کرنا ،۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھ سے نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرما اور برے اعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرما اور مسیکنوں کی محبت عطا فرما اور جب تو اپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنے کا ارادہ فرمائے تو اے اللہ میری روح کو بغیر کسی فتنے کے اپنی طرف قبض کر لینا، اور فرمایا کہ درجات یہ ہیں کہ ہر ایک کو سلام کرو اور بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور راتوں کو نماز اس وقت پڑھو جب لوگ سو رہے ہوںامام ابن قیم لکھتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ پہلے عمامے کا یا تو ایک شملہ رکھتے تھے جسے آگے ڈال کر رکھتے تھے مگر اس کے بعد آپ نے عمامے کے دو شملے یا لڑ بنا لیے ان میں سے ایک کو سر کے پیچھے ٹھیک اس جگہ لٹکاتے جہاں اللہ پاک نے دستِ مبارک رکھا تھا ، (یہ اس جگہ کو اعزازی غلاف پہنانے کے لیے تھا ) میں یہ کہتا ہوں کہ جس دن نبئ کریم ﷺ پر وحی کیفیت طاری ہوتی تو دست مبارک وہیں جا رکتے جہاں دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس ہوئی تھی کبھی دونوں پستانوں کے درمیان تو کبھی گردن ” نحر ” کے قریب رکھ لیتے۔

Facebook Comments

قاری حنیف ڈار
قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply