• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہم کس کے ساتھ عید منائیں؟ مقتولین کے ورثاء کا سوال۔۔اُسامہ اقبال خواجہ

ہم کس کے ساتھ عید منائیں؟ مقتولین کے ورثاء کا سوال۔۔اُسامہ اقبال خواجہ

22 مئی کے دن 2 بج کر 35 منٹ پر کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے کچھ ہی فاصلے پہ قومی ائیر لائن کا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ اس کے بعد اس سے بڑا سانحہ اس وقت پیش آیا جب اگلے ایک گھنٹے کے اندر اندر سوشل میڈیا کے جُز وقتی ایوی ایشن ماہرین اور دانشمد خواتین و حضرات نے اسے حادثہ قرار دے دیا۔ چند ایک کے ہاں مرحومین کی مغفرت کے لیے دعا ئیں شروع ہو گئیں اور کئی ایک علامہ نما خواتین و حضرات نے اسے اعمال کا نتیجہ قرار دے ڈالا۔ لیکن ایک ایسا با اثر ٹوئیٹر اکاؤنٹ بھی تھا جس نے طیارہ کی تباہی کو حادثہ ، سانحہ یا قتل قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے صرف واقعہ بتانے پر ہی اکتفاء کیا۔ شاید اس لیے تاکہ ایسا کوئی بھی بیان تحقیقات پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کے ردعمل کا اگر ہم جائزہ لیں تو سب سے پہلے خبر دینے کی دوڑ توہمیں ہر جگہ نظر آئی مگر شفاف تحقیقات کا مطالبہ خال خال ہی دیکھنے میں آیا۔

موجودہ وزیراعظم صاحب اپوزیشن میں تھے تو کئی مرتبہ حادثات پہ ردعمل دیتے ہوئے بتایا کہ مہذب دنیا میں ایسے واقعات پر ذمہ دار وزیر یا افسر سے فوراً استغفی لے لیا جاتا ہے۔ویسے 2016 میں کچھ ایسا ہوا بھی تھا۔ جب چترال سے آنے والی پی آئی اے کی پرواز حویلیاں میں گر کر تباہ ہوئی تھی تو چیئر مین اعظم سہگل نے ایک ہفتے بعد ہی استغفی دے ڈالا تھا۔مرحوم کو اللہ بخشے اس وقت تو انہوں نے پریس کانفرس میں ذاتی وجوہات کو استغفے کی بنیاد بنایا تھا تاہم واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ طیارہ تباہی کے بعد ان پر پڑنے والا دباؤ ہی دراصل استغفی کی وجہ تھا۔ خیر معاملہ جو بھی تھا، یہ استغفی ملکی تاریخ کے ان چند ایک استغفوں میں سے ایک تھا جو کسی سانحے کے بعد متعلقہ ذمہ دار نے دیا ہو۔ موجودہ وزیر ہوابازی پریس کانفرس میں فرما چکے ہیں کہ نہ صرف موجودہ واقعہ بلکہ وہ پچھلے تمام حادثات یا سانحات (جن کی تحقیقاتی رپورٹیں اب تک سامنے نہیں آئیں ) کی وجوہات کو بھی عوام کے سامنے لائیں گے۔ اب یقیناً اس حکومت نےتحقیقاتی رپورٹس عوام کے سامنے لانے کی روایت کا آغاز تو کردیا ہے لیکن رپورٹ کے بعد اگر کچھ عمل بھی ہو تو ہی مستقبل کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔

ویسے تو سوالات بہت سے ہیں مگر چند ایک سوالوں کی کھوج لگانا بے حد ضروری ہے۔مثلاً قومی ائیر لائن کے طیاروں کی اوور ہالنگ اور ہر فلائٹ سے پہلے ضروری چیک اپ کا عمل کتنا موثر ہے؟۔ اکثر و بیشر حادثات کی ذمہ داری اسی حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے سر کیوں ڈالی جاتی ہے؟۔ شہروں میں بنے ائیرپورٹس کے قریب آبادیوں میں تعمیرات کی اجازت کس نے دی اور اگر اب عمارتیں تعمیر ہو ہی چکی ہیں تو کیا ان لوگوں کو متبادل مہیا کر کے ان سے یہ علاقہ لیا نہیں جا سکتا؟۔ سول ایوی ایشن کی پندرہ سو ایکڑ زمین پر قبضہ ہو گیا اور اب تک کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جا سکا؟۔ اب یقیناً کرپشن، بد انتظامی ، سفارشی کلچر، اداراجاتی سیاست، اندرونی لڑائیاں اور ایسی ان گنت وجوہات ہیں جو اس قومی اثاثے اور اس کے جہازوں کی تباہی میں شمار کی جا سکتی ہیں۔

ویسے تو اس واقعے پر یقیناًبہت سے صفحے کالے ہو چکے ہیں مگر ان واقعات کے حوالے سے ہمارے رویوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی شاید اس سانحے کو ایک دن بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ وطن عزیز میں یہ سانحہ اس بحث تلے دب گیا کہ چاند کے معاملے پر فواد چودھری اور مفتی منیب میں سے کس کا موقف درست ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ مفتی منیب کو بھی چاند نظر آگیا اور اتفاق رائے سے قوم نے عید منانے کا آغاز کر دیا مگر کیا کسی نے سوچا کہ جن کے خاندان اجڑ گئے وہ کس کے ساتھ عید منائیں گے؟ ۔ زین پولانی جو اپنی بیوی اور بچوں سمیت اس تباہی کا شکار بن چکے ہیں ان کا خاندان کیسےعید منائے گا؟۔ جس کی بیٹی اب تک عید منانے گھر کو واپس نہیں آئی وہ ماں بھی بھلا اب کبھی زندگی میں مسکرائے گی؟۔ جن کی لاشیں ناقابل شناخت ہو چکی ہیں وہ کس کی لاش سے لپٹ کر غم منائیں گے؟۔ لیکن خیرچاند کے مسئلے کے بعد اب توکہانی ہی ختم ہو چکی ہے اب کہاں ہماری کمزور یاداشت میں گزرنے والے مسافر وں کے چہرہ آسکتے ہیں۔

رویوں کی بات چل نکلی تھی تو مہذب دنیا کو دیکھیں تو وہاں اول تو حادثات ہوتے بہت کم ہیں کیونکہ وہاں ان سے بچنے کیلئے اربوں ڈالر پھونک دئیے جاتے ہیں۔ دوسرا وہاں تحقیقات ہوتی ہیں، غفلت اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اور پھر غیر ذمہ دار رویوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ جزاو سزا کا عمل بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اب ہمارے یہاں عجیب تماشا ہے کہ پہلے تو لواحقین کو انصاف دینے کہ مطالبے کی بجائے جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ صبر شکر کا درس دیا جا تا ہے۔ دوسرا اور کچھ نہ ہو تو یہ جواب ہر دم ہماری جیب میں موجود ہوتا ہے کہ بس اتنی ہی زندگی تھی، ایسے ہی موت لکھی تھی۔ کسی کی غفلت، نا اہلی اور فرائض سے کوتاہی کا تو جیسے کوئی عمل دخل ہی نہیں۔ اگر ناقص نظام صحت، بھرپور غذا اور سکیورٹی کا لوگوں کی زندگی موت سے کوئی تعلق نہیں تو کیا وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی اوسط عمر ہماری عوام کی اوسط عمر سے کہیں زیادہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باقی رہی بات  اپنی قومی روایات کی تو وہ الا ماشاء اللہ سے، ہمارا خدا پر یقین اس قدر پختہ ہے کہ اونٹ رسی سے باندھتے نہیں اور رب کے سہارے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اب کوئی ہم  بھلے مانسوں سے پوچھے کہ بھلا اپنی جان کی خود خفاظت نہ کرنے والے کو خدا کی ذات کیوں  بچائے گی؟۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مجموعی رویوں کو بدلیں اور آئے روز کے سانحات میں شہادت کے تمغے وصول کرنے سے پہلے مقدس ریاست سے یہ سوال کریں کہ کیا ہماری زندگی کا مقصد صرف اتنا ہے کہ دنیا ہمیں شہید اور ہمارے اہل خاندان  کوشہداء کے وارثوں میں شمار کرے؟۔مگر لاشوں پہ کھڑی اس قوم میں اتنی ہمت کہاں ہے کہ وہ حاکم وقت سے اسی طرح سوال کر سکیں جیسےسن 2000 میں آبدوز ڈوبنے پر روسی صدر پیوٹن سے عملے کے 118 ارکان  کے لواحقین نے کیے تھے۔

Facebook Comments

Usama Iqbal Khawaja
صحافی بننے کی کوشش میں، بول نیوز کے ساتھ منسلک ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply