کچھ غم مشترکہ ہیں۔۔سلمیٰ اعوان

میرا پاکستانی رمضان تو ہمیشہ ہی ڈھول ڈھمکوں، نعتوں، گیتوں اور رمضانی تہذیبی رکھ رکھاؤ سے لدا پھندا ہوتا تھا۔ دمشق کی مونا عمیدی کا رمضان بھی اپنے رنگ ڈھنگ میں بڑا رنگ رنگیلا اور خوبصورتیوں سے مزین ہوتا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب شام جنگ میں جل رہا تھا۔ ایسے میں مونا نے جو نوحے لکھے وہ میں آپ کو سناتی ہوں۔پر پہلے تو کچھ مونا عمیدی بارے جانئیے۔
دمشق میں چم chamپیلس ہوٹل کے بالمقابل نوبل بک شاپ پر دھری مونا عمیدی کی نظموں کے مجموعے کی پھولا پھرولی میں اِس نظم نے پل بھر میں ہی گرفت میں لے لیا تھا۔
آہ!بغداد کے سٹور بند ہیں تریپولی کی گلیاں ویران ہیں
غزہ پر بمباری ہے فلوجہ شعلوں میں نہا رہا ہے
دنیا سو رہی ہے اور عرب دنیا بحث میں اُلجھی ہوئی ہے کہ ورلڈ کپ میچوں میں کون جیتا ہے؟ رہے نام اللہ کا
یہ چونکا دینے والی نظم تھی۔
سیلز مین نے صاحب کتاب سے مزید تعارف کی غرض سے ایک اور خوبصورت کتاب سیرین فوک ٹیلزSyrian Folk talesمیرے ہاتھ میں پکڑا تے ہوئے اِسے تفصیلی دیکھنے کی دعوت بھی دے دی۔
صفحات الٹنے پلٹنے اور کہیں کہیں پڑھنے سے احساس ہوا کہ بلادا لشام کے مختلف علاقوں کی یہ کہانیاں ایک انتہائی شاندار پیش کش تھی۔گرفت میں لینے والی، عام فہم زبان جو حقیقت اور طلسم،معلوم اور نامعلوم کے درمیان سفر کرتی تھیں۔مصنفہ شاعرہ بھی کمال درجے کی تھی۔دونوں کتابیں خرید لیں۔میری درخواست پر بک شاپ کے مالک نے مصنفہ کا فون نمبر اور پتہ بھی دے دیا تھا۔یہ 2008 تھا۔شام پرامن تھااور عام آدمی کب جانتا تھا کہ فضاؤں میں کہیں اس کی بربادیوں کے چرچے گردش میں ہیں۔
مونا عمیدی قدرے فربہی بدن کی سُرخ و سفید خاتون نے مجھے اپنے گھر کے دروازے پر خوش آمدید کہا تھا۔پاکستان کا جان کر اتنا خوش ہوئی کہ جتنی سفر سے کوفت ہوئی تھی سب اُڑنچھو ہوگئی۔
باتیں شروع ہوئیں وہ بھی دوعورتوں کی جو دو مختلف ملکوں،دو مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھتی تھیں۔عورتوں کے حوالے سے جو تصویر مونا نے مجھے دکھائی وہ ہماری تصویر سے کچھ ہی مختلف تھی۔شہری اور دیہی عورت کا جائزہ بھی تھا۔تاہم سیریا میں زیادہ آبادی شہری ہے۔ملکی قانون میں بھی مرد عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔ سیاسی طور پر جو کچھ سُننے کو ملا وہ صحت مند نہ تھا۔مونا بہت سلجھی ہوئی اور ملکی حالات پر گہری نظر رکھنے والی خاتون تھی۔
امریکن ماں اور شامی باپ کے گھر پیدا ہونے والی یہ بچی 1962میں دمشق میں پیدا ہوئی۔انگریزی ادب میں گریجوایشن دمشق یونیورسٹی سے کیا۔اس کے ساتھ اس نے انگلش عربی ٹرانسلیشن کا ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔
فوک کہانیوں کی ان سلسلہ وارکتابوں نے ایک دھوم مچادی۔عام شامی کیا پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے ملک کی ثقافت کے اِن خوبصورت رنگوں سے ناواقف تھے۔بہت پذیرائی ہوئی۔انگریزی میں شاعری بھی چونکا دینے والی تھیں۔یہ جذبات و احساسات کا ایک جہاں کھولتی تھیں۔عراق سے متعلق نظمیں، لیبیا،مصر عرب دنیا کِس بے حسی کا شکار ہے۔بڑی طاقتوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں،غلبے کی خواہشیں اور طاقت کے اندھے اظہار کیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے عام لوگوں کے خوابوں،خواہشوں،امیدوں اور ان کے بستے رستے خوش و خرّم گھروں کو کھنڈر بنادیتے ہیں۔ وہ جو کہانیاں اور محبت کے گیت لکھتے اور گاتے لوگ کیسے میٹھے جذبات سے ناطہ توڑ کر خنجر ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں۔بے حد عام فہم لفظوں میں حقیقت کا چہرہ اور اپنے جذبات و احساسات کِس خوبی سے اپنے اندر سے نکال کر وہ باہر صفحے پر بچھا دیتی ہے۔
جب عراق خاک و خون میں نہارہا تھا کہیں کِسی وژن رکھنے والے نے کہا ہے۔عراق سے فراغت کے بعد شام کی باری ہے۔آپ اِس بارے میں کیا کہتی ہیں؟میں نے پوچھا تھا۔
اُس نے دکھ سے بھری ہوئی لمبی سانس باہر نکالتے ہوئے کہا تھا۔”اندھی عرب دنیا اور دیگر اسلامی ملکوں کی قیادتیں سب آلہ کار بنی ذاتی اعتراض کیلئے ضمیر کے سودے کرتی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئیے اپنی اپنی دنیاؤں میں گم ہیں۔کوئی بینون منصوبہ بھی ہے۔کہیں پر عظیم تر اسرائیل کے لئیے کام ہورہا ہے۔امریکی تھنک ٹینک اب عرب اور تیسری دنیا کے مفلوک الحال ملکوں کو کِس اندھے کنوئیں میں دھکیلنے کیلئے سرگرم ہیں۔انہیں کوئی غرض نہیں۔“
پاکستان آکر آکثر میرا اُس سے رابطہ ہوتا۔2011میں خانہ جنگی شام کے خوبصورت شہروں پر اپنی نحوست کے سائے پھیلانے شروع ہوگئی تھی۔
اس کی ای میل نے مجھے بتایا تھا کہ عمیدی کہیں نہیں بھاگی۔دمشق میں رہی۔دمشق سے اُسے عشق تھا۔اپنے خوبصورت ملک کے خوبصورت شہروں کو عراق کے شہروں کی طرح کھنڈر بنتے دیکھتی اور اپنے دکھوں کولفظوں کے ہاروں میں پروپرو کر اس کا اظہار کرتی رہی۔
اُس کی اس میل نے مجھے رُلا دیا تھا۔میں اسلامی کیلنڈر کے صفحات الٹتی ہوں جو میری کچن کی دیوار پر آویزاں ہے۔دودن بعد رمضان ہے۔میرے بچپن کے رمضان کی خوبصورت یادیں اپنی پوری توانائی سے میری آنکھوں سے باہر جھانکی ہیں۔کیسے دل موہ لیتے منظر تھے۔افطاری کے کھانوں کی خوشبوئیں۔اذان کی پرسوز آواز،تراویح کی رونقیں۔ٹپ ٹپ آنسو آنکھوں سے گرتے ہیں۔یہ رمضان کیسا ہے؟
سلمیٰ اعوان
صُبح کے منظر رلا دینے والے ہیں
دمشق کے لوگوں کو کس جرم کی پاداش میں
سزا دی گئی ہے
میں کیسے بتاؤں کہ
دمشق کے رمضان کی مقدس راتیں
مگر رنگین لالٹینوں اور قمقوں کے بغیر
خاموشیوں کو توڑتی ذکر کی آوازیں نہیں
دمشق میرے خوبصورت شہر
زندگی تو یہاں غروب ہوتے سورج جیسی ہوگئی ہے
اداسی اور مایوسی کی لہروں کو پھیلاتی
گھپ اندھیروں میں گم ہوتی
دمشق کے گلی کوچوں میں پھرتے ہوئے میرا دل دُکھ اور یاس سے بھر جاتا ہے۔خوبصورت گھروں کے دروازے بند ہیں،کھڑکیاں بند ہیں۔دروازے جیسے مجھے کہتے ہیں ہم اپنے مکینوں کا انتظار کررہے ہیں۔وہ کب واپس آئیں گے؟
آج سوچتی ہوں کہ میرا رمضان کس قدر خوف میں ڈوبا ہوا ہے۔ گلی کوچے سنسان ہیں۔ مسجدیں ویران ہیں۔ چینلز پر کرونا متاثرین کی بڑھتی تعداد لمحہ فکریہ ہے۔ فلاں علاقہ لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔ فلاں گھر کو قرنطینہ میں بدل دیا ہے۔ یہ وقت کا کونسا ظالم سمے ہے جو کسی عذاب کی صورت بنی نوع انسان پر نازل ہوا ہے۔ہاتھ نہ لگاؤ،قریب نہ جاؤ، کسی سے ملنا نہیں۔ کب؟ کب آپ اس دہشت سے نکلیں گے نہیں جانتے۔
مونا کی ایک میل مجھے یاد آئی ہے۔
میری بیٹی ابھی ایک ٹرپ سے واپس آئی ہے۔غم زدہ ماحول کے باوجود وہ خوش ہے اور مسکراتی ہے۔میں اپنی بیٹی کی آنکھوں سے چھلکتی امید کی روشنی دیکھتی ہوں۔
ہم ہیں
ہم بکھرے شکستہ خوابوں والی نسل
جو شیلوں پر سوتی،جاگتی اور قہقے لگاتی ہے
اِس نسل کا غم اور دکھ بس صرف اتنا
کیا بجلی اور انٹرنیٹ جلد بحال ہوگا
ہم وہ نسل جس کی خوشیاں چوری ہوگئی ہیں
تاہم ہمارے نوجوان دل زندگی کیلئے ابھی بھی کشادہ ہیں
ہم وہ نسل جو کبھی کِسی دن کہیں گے
ہم نے تاریکیوں سے جنگ کی اور اُسے کہیں دور دھکیل دیا
تویقینا ایک دن ایسا ہم پر بھی آئے گا۔جب ہم ہر خوف و دہشت سے بے نیاز باہر نکلیں گے۔ اپنے دوستوں کو جھپیاں ڈالیں گے۔
ہنسیں گے اور قہقے لگائیں گے اور کہیں گے ہم نے کرونا سے جنگ کی اور اسے کہیں دور دھکیل دیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply