• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(بیالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(بیالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کل پوری رات بےچینی میں گزری۔ بار بار مقتول عارف وزیر کی والدہ کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آتا رہا۔ اس ایک مختصر سی زندگی میں انسان کتنی بار جیتا ہے اور کتنی بار مرتا ہے۔۔۔ جو انسان قتل ہو گیا وہ تو واپس نہیں آسکتا لیکن اس کی یادیں پیچھے رہ جانے والے عزیزواقارب کو بیقرار کیے رکھتی ہیں۔ ان کی زندگی پہلے جیسی نہیں رہتی۔۔۔ مقتول کے لواحقین اپنی آخری سانس تک ایک ایسے کرب سے گزرتے ہیں جو کبھی زوال پذیر نہیں ہوتا, اور پھر بالآخر وہ خود بھی فنا ہو جاتے ہیں۔ کیا فنا ہو جانے کے بعد وہ ان بدقسمت لوگوں سے مل پاتے ہیں جن کی سانسوں کو وقت سے پلے ہی دبوچ لیا گیا تھا۔۔۔؟

وہ بدقسمت لوگ جو پچھلے چالیس برسوں میں قتل ہوئے ان کو قتل کرنے والے بھی ہم ہی جیسے لوگ تھے۔ مجھے بار بار اس بات کو جاننے کی جستجو ہی رہی کہ ایک طاقتور آدمی جب کسی دوسرے شخص کو قتل کرتا ہے تو کیا وہ بقیہ زندگی سکون سے گزارتا ہو گا۔۔۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ قتل کے بعد وہ قاتل پرسکون نیند سوئے اور بقیہ زندگی عافیت سے بسر کرے۔۔۔۔؟
کیا وہ ایک پل کے لیے بھی یہ محسوس نہیں کرتا کہ اس کے ہاتھوں کسی کا قتل ہوا۔۔۔ کیا وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر خود پر ملامت کرتا ہو گا۔۔۔۔؟ یا قتل کرنے کے ساتھ ہی اس کے احساسات مقتول کے جسم کی مانند ختم ہو جاتے ہوں گے۔؟

میں گزشتہ بیالیس، تینتالیس دنوں سے کرونا کی وبا کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ ٹی وی، اخبارات، سوشل میڈیا ہر جگہ ہی کرونا کی وبا سے بچنے کے لیے دنیا بھر کے حکمران پریس کانفرنس کرتے ہوئے نظر آئے۔ تلقین کی جاتی رہی کہ اس سے محفوظ رہنے کا یہی ایک حل ہے کہ آپ مستقل گھر پر رہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں وائرس کی وجہ سے انسانوں کی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے لاک ڈاؤن کو ہی ترحیح دی گئی۔ کرونا کی وبائی خبروں کے سیلاب میں بہتے ہوئے مجھے اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ جو لوگ کئی دہائیوں سے اپنے عزیزوں کی جبری گمشدگیوں پر نوحہ کناں ہیں وہ ان دنوں کس حال میں ہوں گے۔۔۔ یہ جبری گمشدگیاں ایران، ایراق، افغانستان، ہندوستان، چائنا، پاکستان غرض بہت سے ممالک میں کی جا رہی ہیں۔ جانے کیوں میں یہ بات بالکل ہی فراموش کر گیا تھا۔ گزشتہ دنوں کی دو تلخ خبروں نے مجھے جھنجھوڑ کر اُس پرانی دنیا میں واپس پہنچا دیا جہاں میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ میں خوش فہمیوں کا شکار ہو کر یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اب بس کرونا ہی سے لڑنا ہے۔ یہ وبا ختم ہو گئی تو دنیا جنّت بن جائے گی۔۔۔ جبکہ حقیقتاً دنیا نہ کرونا سے پہلے کبھی جنّت تھی اور نہ ہی کرونا کے بعد ایسا کچھ ہونے والا ہے۔ یہ ظالم و مظلوم کی وہی دنیا ہے جس میں مظلوم کے مقدر میں مزاحمت کا راستہ ہے اور ظالم کے ہاتھ میں گولیاں، جس سے وہ مزاحمت کے راستوں پر چلنے والے قدموں کو بےدردی سے نشانہ بنائے جا رہا ہے۔۔۔
اس کے پاس رحم جیسا کوئی جذبہ نہیں، اس نے کبھی مقدس کتاب کے ورقوں پر بھی اس لفظ کو نہیں پڑھا۔۔۔ یا شاید اس نے پڑھا ہے ان ورقوں کو لیکن وہ جلد بازی میں لفظ رحم کو نظر انداز کر کے جبّار و قہار پر اٹک گیا ہے۔ اسی لیے تو وہ مظلوموں پر کئی دہائیوں سے قہر بن کر برس رہا ہے۔
کیا وہ یونہی جبر کے کوڑے برسا کر اپنی حاکمیت کو بندوق سے نکلتی ہوئی گولیوں کے زور پر برقرار رکھے گا۔۔۔ یا کوئی موسیٰ کہیں سے نمودار ہو کر مظلوموں کے بدنوں پر پڑنے والے کوڑوں اور بندوق سے نکلتی ہی گولیوں کو اپنی خدائی طاقت سے روکے گا۔؟

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منّور کر دے
جن کے قدموں کو کسی راہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اُجاگر کر دے!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply