عزاداری فرض ہے جناب؟؟۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

دہشتگردی کے خلاف قومی بیانیے کی تشکیل کا اجلاس ہو رہا تھا، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث اور دیوبندی تمام مسالک کے ایک نمائندے کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ اپنے مسلک پر ہونے والے بے جا اعتراضات کو بیان کریں، اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور اثرات پر بات کریں۔ تمام لوگوں نے دس دس منٹ بات کی، اس کے بعد شرکائے اجلاس کی طرف سے سوالات کا سلسلہ شروع ہوا، وزارت مذہبی امور کی نمائندہ خاتون نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ہاں عزاداری کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ ہمارے فقہاء نے عزاداری کو واجب کہا ہے۔ اس پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ واجبات تو اسلام میں معین ہیں، یہ واجب کہاں سے آیا ہے۔؟ اس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ خاتم الانبیاء ؑ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد تبلیغ دین تمام امت کا فریضہ ہے اور عزاداری تبلیغ دین کا ایک مؤثر ترین ذریعہ ہے، جو دلوں میں دین مبین اسلام کی شمع کو روش کر دیتی ہے۔ حسینؑ سے عشق اسلام سے عشق ہے، حسینؑ کروڑوں دلوں کی آواز ہے، لوگ امام کے نام پر اکٹھے ہوتے ہیں، مجلس میں آتے ہیں تو مذہب سے آشنا ہوتے ہوتے ہیں۔

کیا واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے ہم نے توحید، رسالت اور قیامت سب انہی مجالس سے سیکھا ہے، انہی مجالس سے سیرت کا مکی حصہ سنا کہ کس طرح اہل مکہ نے رسالت مآبؐ پر ستم ڈھائے، یہیں سے پتہ چلا کہ مکہ میں ابو طالبؑ اسلام کے پشت پناہ تھے اور ہجرت کے وقت حضرت علیؑ کو بستر پر سلایا گیا، یہیں سے  معلوم ہوا کہ مدینہ  پہنچ کر مواخات ہوئی، میثاق مدینہ ہوا، جنگ، بدر و احد و خیبر و خندق اور آخر میں فتح مکہ ہوئی، انہی مجالس کا اثر تھا کہ ہمیں گھرانہ رسولﷺ کا تعارف ہوا، انہی مجالس سے ہم اہمیت نماز، روزہ اور حج پر تقریریں سنی، مجالس میں ہی تربیت اولاد اور والدین کے احترام کا درس سنا۔ ہم نے بہتی آنکھوں کے ساتھ سنا کہ آخری شب امام مظلوم نے خدا سے راز و نیاز کی، ظہر کی نماز بھی اول وقت میں ادا کی، بہن کو نصیحت کی کہ مجھے نماز شب کی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ کیا دین ان کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے۔؟

عزاداری معارف الٰہی کے پھیلنے کا مسلسل عمل ہے، لوگ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں مگر عزاداری کو نہیں چھوڑ سکتے، جہاں ہوں جیسے بھی ممکن ہو، وہ عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایک عزیز بتا رہے تھے کوئی چالیس سال پہلے پنجاب سے چند نوجوان آسٹریلیا شفٹ ہوئے، پہلے تو جیسے بھی وقت گزرتا رہا، جیسے ہی محرم آیا یاد مظلومِ کربلا نے دلوں میں کہرام برپا کر دیا، بے ساختہ آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے۔ پتہ چلا کہ اس وقت آسٹریلیا میں کہیں بھی امام مظلوم کی عزاداری نہیں ہوتی، شہر میں موجود چند نوجوان رات کو اکٹھے ہوئے، ایک نوجوان نے کہا یہ تو ناممکن ہے کہ محرم کا مہینہ ہو اور ہم لوگ یاد حسینؑ سے غافل رہیں، اس لئے باری باری سب لوگ مجلس پڑھیں گے، جس کو جو آتا ہے وہ وہی پڑھے گا۔ یوں عزاداری مظلوم کا آغاز ہوا اور آج آسٹریلیا کا دس محرم کا جلوس بلامبالغہ ہزاروں افراد کا جلوس ہوتا ہے۔

امریکہ سے آئے ایک بزرگ بتا رہے تھے کہ وہ کافی سال پہلے میکسیکو  گئے اور محرم آگیا۔ پہلے دن تو جیسے بھی گزرے گزر گئے مگر جیسے ہی دس محرم کی رات قریب آتی محسوس ہوئی، ایسے لگے جیسے دنیا اندھیر ہو رہی ہے، ایک غریب الوطنی، دوسرا محرم اور تیسرا کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں جا کر نواسہ پیغمبر کا غم منا سکوں، تڑپتے دل اور بہتی آنکھوں کے ساتھ خالقِ حسینؑ کی بارگاہ میں حسینؑ کا واسطہ دے کر دعا کی اور سٹی گورنمنٹ کے آفس میں فون کیا اور پوچھا کہ یہاں کوئی شیعہ مسلمانوں کی مسجد یا امام بارگاہ ہے، انہوں نے کہا یہاں کوئی ایسی کوئی جگہ نہیں، کہتے ہیں کہ ایک موہوم سے جو امید پیدا ہوئی تھی ختم ہوگئی، دل بجھنے لگا، دل کی دھڑکنیں اور آنسووں کی رفتار بڑھ سی گئی، مگر دوسرے ہی لمحے یہ کہا گیا آپ انتظار کریں ہم پتہ کرتے ہیں کہ یہاں کوئی  ایسی جگہ ہوئی تو آپ کو بتا دیا جائے گا۔ آدھے گھنٹے بعد کال آئی کہ اور کہا کہ ایڈریس نوٹ کریں، یہ ایک لبنانی فیملی ہے، جو شیعہ ہے، ان کے ہاں چلے جائیں، کہتے ہیں کہ جب میں وہاں پہنچا تو اردگرد کے کئی شہروں سے لوگ سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے وہاں آئے ہوئے تھے، ایک بہت بڑا فام ہاؤس تھا، جس میں ہر طرف نواسہ پیغمبرؐ کا ذکر تھا۔

استاد محترم نے کلاس میں بتایا تھا کہ تھائی لینڈ میں انڈیا کے ایک مولانا پہلی بار ایک تاجر کی دعوت پر تبلیغ کے لئے گئے، پورا سال وہاں پر قیام کیا مگر کوئی خاص کامیابی نہیں ملی، محرم کو قریب آتا دیکھ کر انہوں نے کہا کہ میں واپس ہندوستان جاتا ہوں، اس پر اس تاجر نے کہا نہیں آپ محرم ہر صورت یہاں گزاریں، وہ بڑی مشکل سے راضی ہوئے، کہتے ہیں جیسے ہی محرم کا چاند نطر آیا، انہوں نے عجیب منظر دیکھا، وہی مسجد جہاں جمعہ کے لئے پانچ نمازی نہیں آتے تھے، اتنے لوگ آگئے کہ مسجد میں تل دھرنے کی جگہ نہ بچی، وہیں سے انہوں نے تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا، جو بعد میں وہاں کامیابی سے چلا۔ محرم شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر یہ بحث ہو رہی ہے کہ وہ لوگ جو مذہباً شیعہ تھے اور مذہب چھوڑ گئے، محرم آتے ہی وہ پکے شیعہ بن جاتے ہیں، حسینؑ ہی کی بات کرتے ہیں، حسینؑ پر ہی شعر کہتے ہیں اور دشمنان امام حسینؑ سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس پر لوگوں نے تنقید کی اور اسے ناپسندیدگی سے دیکھا، اس کی آڑ میں تشیع کا مذاق بھی اڑایا گیا کہ ملحد بن کر بھی یہ لوگ محرم آتے ہی شیعہ بن جاتے ہیں۔ ہاں ہاں درست کہا تم نے، صحیح سمجھا تم نے، بالکل ایسا ہی ہے، خون حسینؑ کی طاقت ہی اتنی ہے کہ الحاد جیسی نجاست کو دلوں سے دور کرکے نواسہ پیغمبرؐ کے قریب کر دیتی ہے اور پھر نبی اکرمﷺ سے ہوتی ہوئی وحدانیت خدا تک لے جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حسینؑ کو خدا سے جدا کیا ہی نہیں جا سکتا، جو کربلا میں پورا گھرانہ اس مالک و خالق کی رضا کے لئے کٹا کر بھی کہہ رہا تھا، اے پرودگار جس نے تجھے پا لیا، اس نے کیا کھویا؟ اور جس نے تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا۔؟ عزاداری اسلام کے پھیلانے کی منظم تحریک ہے، عزاداری اسلامی نظام تربیت کا اہم حصہ ہے، عزاداری ایک جذبہ صادقہ ہے۔ محب حسینؑ فکر کی دنیا میں جتنا مرضی پرواز کر لے عزاداری اسے دین کا پابند کر دیتی ہے، عزاداری فکری آزادی کے ساتھ تسلیم ہونے کا نام ہے، عزاداری انسان کے دل کو نور ایمان سے منور کر دیتی ہے، عزاداری کا نصاب اسلام ہے۔ آسٹریلیا سے لیکر کوریا تک آپ سروے کر لیں، ہمارے نوجوانوں اور خاندانوں کو اس نے دین سے جوڑ رکھا ہے۔ اس میں ہزار خامیاں ہوں گی، اس میں بہتری کی گنجائش یقیناً موجود ہے، مگر یہ اس شعور کے ساتھ ہو کہ ہم اس کی اہمیت کو سمجھ رہے ہوں، عزاداری اس دور میں بھی قوت و طاقت کا نام ہے اللہ کے آخری نبیﷺ نے فرمایا تھا: إنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ حَرَارَةٌ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ لَنْ تَبْرُدَ أَبَداًشہادت امام حسینؑ نے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا کر دی ہے، جو کبھی بھی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔”

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply