• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شرجیل امام کے ساتھ میں کیوں کھڑا ہوں؟۔۔ابھے کمار

شرجیل امام کے ساتھ میں کیوں کھڑا ہوں؟۔۔ابھے کمار

مجھے میرے دوستوں نے شرجیل امام کے معاملے میں خاموش رہنےکا مشورہ دیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ وقت مناسب نہیں ہے کہ شرجیل کے ساتھ میں اظہار یکجہتی کروں۔ ان کا یہ مشورہ ملک میں بگڑتے حالات کے مد نظر تھا، لیکن میں خاموشی کیسے اختیار کر سکتا ہوں؟ اپنے تحفظ کی خاطر بھلا میں اپنے دوست کی حفاظت کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہوں؟

میرا ضمیر مجھے شرجیل امام کے ساتھ کھڑے ہونے کی تحریک دیتا ہے، جو لوگ ابھی تک شرجیل کے ساتھ گزرے سانحہ سے باخبر نہیں ہیں مَیں ان کے سامنے کچھ حقائق رکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ شرجیل امام دہلی میں واقع جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سنٹر فار ہسٹوریکل (سی ایچ ایس) کے ریسر چ اسکالر ہیں۔ رومیلا تھاپر، ہربنس مکھیا اور بپن چندر جیسے نامور مورخین کئی دہائیوں تک یہاں استاد رہے ہیں۔ شرجیل کی یہ خوش قسمتی تھی کہ وہ جے این یو میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوا۔ سن ۲۰۱۳ میں وہ ایم اے (جدید تاریخ ) کا طالب علم بن جاتا ہے۔

شرجیل شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف چل رہے مظاہرے میں حصہ لینے والا ایک اہم کارکن تھا۔ سی اے اے کی مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قانون کے تحت افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے غیر مسلموں کو شہریت دینے کے لیے ساری رکاوٹیں ختم کر دی گئی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ جو مذہبی اقلیتیں ان پڑوسی ممالک میں ظلم کا شکار ہیں ان کو بھارت میں پناہ دی جائے گی۔ مگر اس میں سب سے قابل اعتراض بات یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کو شہریت حاصل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے، جس سے یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان بھارت میں برابر کے شہری نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سی اے اے ہندوستانی آئین میں درج سیکولرازم کے اصول کے خلاف ہے۔

سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران شرجیل نے اپنی تقاریر میں ان باتوں کو وسیع تناظر میں واضح کیا ہے، لیکن پولیس نے اس کی تقریر کے ایک چھوٹے سے حصے کی اپنے منصوبے کے مطابق تنگ نظری کے ساتھ تشریح کی اور اسے قومی سلامتی اور یکجہتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے شرجیل پر ’سیڈیشن‘ کیس درج کیا۔ کچھ دن پہلے شرجیل کو ان کے آبائی شہر جہان آباد (بہار) سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اور اس وقت وہ پولیس کی تحویل میں ہے۔

سب سے پہلے میں اس بات کا اعتراف کر دوں کہ میں شرجیل کو ذاتی طور پر نہیں جانتا، حالانکہ ہم ایک ہی شعبہ میں طالب علم ہیں، لیکن میں نے اس کے بارے میں بہت سنا ہے کہ اسے لکھنے کا بڑا شوق ہے اور وہ لکھتا بہت اچھا ہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ انگریزی، ہندی اور اردو زبانوں میں ملک کے مشہور اخبارات اور ویب پورٹلز کے لیے لکھتا ہے تو میرے دل میں اس کے لیے احترام بڑھ گیا۔ اپنی تعلیم کے ساتھ ہی وہ کیمپس میں سیاسی اور سماجی تحریکوں میں بھی سرگرم رہا ہے۔ نجیب والے سانحہ میں اس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس پر حملہ کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ کیمپس میں بہت سارے لوگ اسے پسند کرتے ہیں، مگر بعض دوستوں کو اس کی بے باکی سے چِڑ بھی ہے، کیوں کہ اس سے ان کی فرضی سیاست کاپول کھل جاتا ہے۔ وہ کیمپس میں ایک الگ رائے رکھنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس کو کسی خانے میں قید کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ ہاں اتنا تو ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مسلم اور اسلام مخالف جذبات اور مواد کو پیش کرنے اور اس پر بے باکانہ تبصرہ کرنے کی اس کے اندر زبردست صلاحیت ہے۔ اس کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ علم کی دنیا میں کوئی بڑا نام دیکھ کر مرعوب نہیں ہوتا، نہ خوف زدہ ہوتا ہے۔ اپنے ہی شعبے کے ممتاز مؤرخ ہربنس مُکھیا جن کی درسی کتابیں کروڑوں بچے پڑھتے ہیں، عہد وسطیٰ کے مسلم حکمرانوں کے متعلق ان کے خیالات پر بھی شرجیل نے سوال کھڑے کیے ،جو کسی طور بھی معمولی بات نہیں ہے۔

اس کے علاوہ شرجیل سے میری نزدیکیوں کی اور بھی وجوہات ہیں۔ میرے اور شرجیل کے لیے جے این یو میں داخلہ لینا کسی’خواب کی تعبیر حاصل کرنے‘ سے کم نہیں تھا۔ ذہن نشین رہے کہ شرجیل سائنس کا طالب علم تھا اور اس کے لیے تاریخ کا امتحان پاس کرنا آسان کام نہیں تھا۔ یہ میرے لیے بھی بہت مشکل تھا کیوں کہ جے این یو کے معیار پر پورا اترنا مجھ جیسے ’اوسط درجہ‘ کے طالب علم کے لیے آسان نہیں تھا۔ مجھے جے این یو میں داخلہ حاصل کرنے میں کئی سال لگ گئے تھے۔ مگر شرجیل ایک ذہین و فطین اور محنتی طالب علم ہے۔ اس سے قبل اس نے آئی آئی ٹی ممبئی سے کمپیوٹر سائنس میں اپنی انجینئرنگ پاس کی اور کچھ دنوں تک اچھی تنخواہ والی نوکری بھی کی۔ اس کے پاس ایک بڑا کیرئیر اور ایک خوشحال زندگی کے سارے وسائل موجود تھے، لیکن اس نے ان سارے مواقع کو نظر انداز کر کے جے این یو میں پڑھنے کا ارادہ کیا اور اس میں بھی جدید تاریخ یعنی ماڈرن ہسٹری کو اس نے اپنا موضوع بنایا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ملک و ملت کو در پیش بنیادی سوالات کو سمجھنا چاہتا تھا۔ شرجیل کی طرح میں نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی نوکری چھوڑ دی تھی، میں اس وقت ملک کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں رپورٹر کی حیثیت سے دہلی میں کام کر رہا تھا۔ شرجیل کی ہی طرح میں بھی ملت اور قوم کے پیچیدہ اور متضاد سوالات کا حل تلاش کرنے کی غرض سے جے این یو آیا تھا۔

شرجیل سے قربت کی دوسری اہم اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم دونوں کے علمی رجحانات کافی ملتے جلتے ہیں۔ ہم دونوں ملک کی اقلیتوں کے معاملات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم دونوں سیکولر اور فرقہ وارانہ ’بائنری‘ سے خوش نہیں ہیں۔ میں نے ان موضوعات  پر اس سے کبھی تبادلہ خیال نہیں کیا، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ میری اس رائے سے متفق ہوگا کہ جب تک خواتین اور اقلیتوں کی حالت تسلی بخش نہیں ہو جاتی تب تک کوئی بھی جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی۔

اسی جذبے کے پیش نظر شرجیل اپنی تقاریر میں ہندوستانی جمہوریت کے متعلق گہرے سوالات اٹھا رہا تھا۔ کسی بھی لبرل ڈیموکریسی میں اس بات کی آزادی ہوتی ہے کہ ایک دانشور اور ایکٹیوسٹ بغیر کسی خوف کے اپنی بات رکھ سکے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں آزادی اور رواداری کی زمین تیزی کے ساتھ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ جو لوگ مسلم، دلت، آدیواسی اور دیگر محکوم طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے اپنے دل کی بات رکھنے کی آزادی اور بھی کم ہوتی جا ر ہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک کے بعد ایک کالا قانون لا کر ملک کے’ جمہوری آئین‘ کی جڑیں کھودی جارہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس بار متنازعہ سی اے اے کے خلاف لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل پڑے ہیں، ملک بھر میں پھیل رہے۔ ان مظاہروں اور احتجاجوں سے حکمراں بی جے پی پر خوف طاری ہوگیا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح بھی ان مظاہروں کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جائے۔ اسی حکمت عملی کو مد نظر رکھتے ہوئے بی جے پی یہ افواہ پھیلا رہی ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے مسلمانوں کا ہا تھ ہے۔ بس اسی منصوبہ کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے بی جے پی حکومت کسی مسلمان کو بلی کا بکرا بنانے کی تاک میں لگی ہی ہوئی تھی۔ یہ ہندتوا سازش کا بنیادی ہدف تھا کہ پہلے کسی مسلمان کو بدنام کرکے اسے شاہین باغ کا ماسٹر مائنڈ بنا کر پیش کیا جائے۔ شرجیل کی گرفتاری سے چند روز قبل ہی اس کی شبیہ مسخ کی جاتی ہے اور ’گودی میڈیا‘ اسے ملک اور ہندوؤں کے لیے ایک ’خطرہ‘ بنا کر پیش کرتا ہے۔ شرجیل کے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی دوسری بڑی وجہ دہلی میں ہونے والا اسمبلی انتخاب بھی ہے۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی حالت پتلی تھی اور اس کی آخری امید کمیونل کارڈ کھیلنا تھا جو شرجیل کی گرفتاری کے بہانے کھیلا گیا۔

مختصر یہ کہ شرجیل کو اس مذہبی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسے اس لیے ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے کیوں کہ اس کا تعلق اقلیتی طبقے سے ہے۔ وہ جیل میں اس لیے ڈال دیا گیا ہے کیونکہ اس کا نام شرجیل ہے، سنجیو نہیں!

افسوس کی بات ہے کہ لبرل اور لیفٹ کا ایک بڑا طبقہ ابھی تک اس لیے سچے دل سے اس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی نہیں کر رہا ہے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ شرجیل کے سوالات نہ صرف فرقہ پرستوں پر حملے بولتے ہیں، بلکہ ان جیسے لبرل اور لیفٹ جماعتوں سے بھی حساب مانگتے ہیں۔ اقلیتوں کے تئیں ان کی پالیسی اور ان کی ایمانداری بھی شرجیل کے سوالات کے کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ اسی کے ساتھ شرجیل کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرنے والوں کی یہ دلیل ہے کہ اس کی تقریر سے ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو خطرہ لاحق ہے، لیکن یہ دلیل مبنی برحقائق نہیں معلوم ہوتی، بلکہ فقط ہندتوا کے پروپیگنڈے کا حصہ نظر آتی ہے۔ ایسا اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ شرجیل کے خلاف پولیس کی یہ دلیل کافی بھونڈی معلوم ہو رہی ہے کہ ایک نوجوان  سکالر کی تقریر سے دنیا کی ایک بڑی اور طاقتور ریاست خطرے میں پڑگئی ہے۔ یہ قول و عمل کا تضاد نہیں تو اور کیا ہے کہ ملک کے صاحب اقتدار لوگ بھارت کو ایک ’سپر پاور‘ ملک کہتے نہیں تھک رہے ہیں، جس کے پاس دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج ہے اور وہ دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے بھی لیس ہے، جبکہ یہی ’ہندتوا طاقتیں‘ ایک نوجوان  سکالر  کی تقریر کو ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ بتاکر عوام کو ڈرانے لگتی ہیں؟ کیا ہندوستان کی طاقتور ریاست تاش کا پتّا ہے جو ایک جوشیلی تقریر سے ڈھیر ہو جائے گی؟

اقتدار میں موجود جماعت کے منہ پھٹ لیڈروں کو کون سمجھائے کہ کسی بھی آزاد اور لبرل جمہوریت میں اظہار رائے کا حق صرف کاغذ تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ عوام کو اس کا استعمال کرنے لیے کھلا ماحول بھی میسر  ہونا چاہیے۔ جو لوگ شرجیل کی فکر سے اتفاق نہیں رکھتے ان کو اس سے بات کر نی چاہیے، نا کہ اسے جیل میں ڈال دینے کا مطالبہ کیا جائے۔ بات چیت کی راہ کو بند کرنے سے ہماری جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، بلکہ الٹا کافی کمزور ہوجائے گی۔ حکمراں بی جے پی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک  سکالر کا بیان خواہ وہ کتنا ہی ’متنازعہ‘ کیوں نہ ہو ،ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک نہیں ہو سکتا لیکن کچھ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا شرجیل نے آسام کی ’بلاکیڈ‘ کی بات نہیں کی تھی؟ اس کا جواب ایک اور سوال میں پوشیدہ ہے کہ کیا شرجیل پہلا شخص ہے جس نے بلاکیڈ کی وکالت کی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سن 2008 میں ہندتوا طاقتوں نے جموں کا بلاکیڈ کیا تھا؟ پھر اس وقت کسی نے بھی ان کے لیے ’سیڈیشن‘ کیس کا مطالبہ نہیں کیا تھا؟ اس حقیقت کے باوجود کہ ان کےطریق کار سے بہت سارے لوگ متفق نہیں تھے۔ اس طرح کی مثال تو انگریزوں کی حکومت میں بھی نہیں ملتی۔ جنگ آزادی کے دوران بہت سے مواقع آئے جب لوگوں نےسکولوں اور کالجوں کا بائیکاٹ کیا، نوکریوں سے استعفے دیے، ٹیکس ادا کرنے سے انکار کیا، ریلیاں نکالیں، جیل بھی گئے اور تشدد کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ 1942 کی بھارت چھوڑو تحریک کے دوران مجاہدین آزادی نے جب تشدد اختیار کیا تو گاندھی جی پر اس کی مذمت کرنے کے لیے انگریزوں کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا۔ مگر گاندھی نے مجاہدین آزادی کے تشدد اقدامات کی مذمت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

میں یہاں برطانوی سامراج اور بی جے پی حکومت کی بربریت کا موازنہ نہیں کرنا چاہتا، یہ فیصلہ آپ کریں، لیکن جب کوئی شرجیل کے لیے سخت سزا کا مطالبہ کرتا ہے تو کیا وہ اس سوال سے بھاگ سکتا ہے کہ آخر ملک کے اندر غیر مستحکم صورتحال کیوں پیدا ہو گئی ہے؟ کیا شرجیل امام کی تقریر نے ہی ملک کو اس پریشانی میں لا کھڑا کیا ہے؟ کیا بی جے پی حکومت اور فرقہ پرست طاقتیں ان سب کے لیے کہیں زیادہ ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا اس سردی کے عالم میں اپنے بچوں کے ساتھ مہینوں سے سڑک پر بیٹھی شاہین باغ کی خواتین سے سرکار نے کبھی یہ پوچھا کہ آپ کا درد کیا ہے؟

جو بھی شرجیل امام کو قصور وار ٹھہرانے کی جلد بازی کر رہا ہے، اسے اپنے موقف پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ جب تک شرجیل کے معاملے کو ایک بڑے تناظر میں نہیں دیکھا جائے گا، اس وقت تک پوری بات سمجھ میں نہیں آئےگی۔ ذرا آپ بھی اس ’کرونولوجی‘ کو سامنے رکھیے اور پھر طے کیجیے کہ حکومت نے پہلے تو لوگوں پر سی اے اے تھوپا اور جب اس کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو اسے کچلنے کے لیے پولیس کااستعمال کیا گیا۔ اس کے باوجود احتجاج ختم نہیں ہوا تو جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لیا گیا کہ ان مظاہروں کی قیادت’ انتہا پسند‘ مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ اپنے آپ کو روک نہیں پائے اور مظاہرین کو دھمکی دے ڈالی کہ حکومت سی اے اے پر ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ وزیر اعظم نے یہ کہتے ہوئے اپنے منصب کے وقار کا خیال نہیں رکھا کہ احتجاج کے پیچھے خاص قسم کے لوگ ہیں، جنہیں وہ ان کے کپڑوں سے پہچان سکتے ہیں۔ اگر شرجیل امام کی تقریر ’تلخ‘ تھی تو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ تلخی کہاں سے آ رہی ہے؟ پلک جھپکتے ہی کسی کو ’اینٹی نیشنل‘ اور ’ہندو مخالف‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ شرجیل کا دل یہ سب دیکھ کر اور پڑھ کر درد سے بھر گیا ہے اور یہی درد کبھی کبھی اس کی تقریر میں چھلک جاتا ہے۔

اگر ہم ملک کی سالمیت اور اتحاد کو لے کر واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں شرجیل کے درد کو سمجھنا چاہیے اور اس کے سوالات پر غور کرنا چاہیے۔ اس کے سوالوں سے منہ موڑنا حقیقت سے دور بھاگنے کے مترادف ہے۔ یہ ہمارا جمہوری مطالبہ ہونا چاہیے کہ شرجیل کی جیل سے جلد رہائی ہو، جو لوگ اس کی باتوں سے اتفاق نہیں رکھتے ان کو بھی اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اگر اسے جیل میں قید کر کے رکھا جائے گا تو اس سے مکالمہ کیسے ممکن ہو سکے گا؟

(ابھے کمار، جے این یو میں ریسرچ اسکالر ہیں)

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوٹ : مضمون نگار کے خیالات سے ادارےکا متفق ہونا ضروری نہیں ہے، نیز ملزم شرجیل کی بعض باتیں قابل اعتراض بھی ہو سکتی ہیں، لیکن موجودہ صورتحال کی سنگینی اور حالات کے تناظر میں ایک نقطہ نظر کو یہاں پیش کیا گیا ہے۔ )

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply