• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(ستائیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(ستائیسواں دن)۔۔گوتم حیات

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں تقریباً بیس لاکھ ماہی گیر آباد ہیں۔ ان کا روزگار سمندر کے گہرے پانیوں سے پکڑی جانے والی سمندری مخلوق (مچھلی، جھینگے، کیکڑے وغیرہ) سے وابستہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ سب ماہی گیر روزانہ کی اُجرت پر کام کرتے ہیں یا ان کی گزر بسر کا انحصار روزانہ کی بنیاد پر کیے جانے والے کام سے ہے۔

لاک ڈاؤن کو ستائیس، اٹھائیس دن ہو چکے ہیں، شہر میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے لوگ شدید معاشی بحران سے دوچار ہیں۔ یہ بیس لاکھ ماہی گیر ان حالات میں کس طرح سے اپنے گھر کا چولہا جلا رہے ہوں گے۔۔۔ کیا ان کے چولہے پر روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ پک رہا ہو گا؟۔ یہ لاکھوں محنت کش لوگ تو پہلے سے ہی کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے   آرہے ہیں، اب رہی سہی کسر کرونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن نے پوری کر دی ہے۔ ان کے بجھتے ہوئے چولہوں کا ذمہ دار کون ہے؟۔ کیا یہ حکومت یا نجی ویلفیئر اداروں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اس مشکل وقت میں آگے بڑھ کر ان مجبور اور خستہ حال لوگوں کی داد رسائی کریں۔۔؟ ان کے پست ہوتے حوصلوں کو قوت بخشیں۔۔۔ یا اگر وہ یہ سب نہیں کر سکتے تو لاک ڈاؤن کے خاتمے کا ہی اعلان کر دیں کہ یہ لوگ محنت کر کے اپنی طاقت خود بن سکیں اور اسی طاقت سے کرونا کی عفریت کو بھی شکست دے سکیں۔

حکومت اور نجی فلاحی اداروں سے ملنے والے راشن کی صورتحال اب سب کے سامنے عیاں ہے۔ کسی کو راشن ملا، کسی کو نہیں ملا، کسی نے اپنے گھر پر دو، دو، تین، تین مہینے کا ریلیف راشن ذخیرہ کر لیا۔ سوشل میڈیا اور دوسرے سورسز سے کافی کچھ منظرِ عام پر آ رہا ہے اس پر مزید لکھنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ ہمارے حکومتی اراکین اور ریلیف اداروں کے سربراہ اس شہر اور اس ملک کی ہر چیز سے واقف ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد ہم لوگ ایک نئی قسم کی معاشی اذیت سے دوچار ہونے والے ہیں۔ اس اذیت کو بھی غریب عوام خود ہی تنہا جھیلیں گے۔ ان پر راج کرنے والے فلاحی اداروں کے سربراہان اور حکومتی وزراء میں سے کوئی بھی آگے نہیں آئے گا۔ کاش کہ ان میں سے کوئی حقیقی معنوں میں آگے آسکے، غریب عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔

ہمارے شہر کی خستہ حالی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ کون قاتل ہے اور کون مسیحا، یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ یہاں کے گوٹھوں اور کچی آبادیوں میں رہنے والے محنت کش لوگ کرونا سے پہلے بھی کوئی محلاتی، پُرسکون اور آسودہ زندگیاں نہیں گزار رہے تھے۔ یہ لوگ کل بھی کٹھن حالات سے دوچار تھے اور آج بھی ان کے حالات کوئی تسلّی بخش نہیں ہیں۔

جنوری 2020 کی ایک شام کو میں نے اپنی دوست نجمہ اعوان کے ساتھ گھریلو خواتین کے لیے ایک آگاہی نشست کے سلسلے میں “شفیع گوٹھ” کا وِزٹ کیا تھا۔ یہاں پر بنیادی انسانی حقوق، پاکستان کے آئین کے مطابق شہریوں کو دیے جانے والے حقوق اور دورانِ نکاح لڑکیوں کو ملنے والے مذہبی حقوق پر ہم نے سیر حاصل گفتگو کی تھی۔
گوٹھ میں رہائش پذیر ایک سرگرم خاتون محترمہ رانی نے میری اور نجمہ کی پورے سیشن کے دوران بھرپور معاونت کی۔ اس اہم نشست کی مکمل روداد پڑھنے والوں کے لیے میں یہاں بیان کر رہا ہوں۔
“یہاں پر خواتین کی طرف سے کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئیں جو ہمارے ملکی قانون اور مذہب کی رو سے بھی ناپسندیدہ تھیں۔ ان اہم باتوں میں کم عمری کی شادیاں جن میں لڑکی اور لڑکے کی مرضی کو بالائے طاق رکھ کر بغیر نکاح نامے کے زبانی کلامی کرایا جانا، اٹھارہ سال سے زائد عمر کے افراد کا شناختی کارڈ نہ ہونا سرِ فہرست ہے۔ اس گوٹھ میں بنیادی انسانی ضروریاتِ زندگی کی سہولیات عنقا ہیں۔ بیشتر افراد بجلی، گیس، پینے کے صاف پانی اور سیوریج کے نکاسیِ آب کے مسائل کا بھی شکار ہیں۔ علاوہ ازیں صحت و تعلیم کی سہولیات بھی علاقہ مکینوں  کو دستیاب نہیں ہیں۔

علاقے کی خواتین کے مطابق ہمارے یہاں اگر کوئی عورت رات کو بیمار ہوجائے تو اس کے علاج معالجے کے لیے کوئی ڈاکٹر موجود نہیں۔ اس پر جب ہم نے ان سے استفسار کیا اور کہا کہ کیا آپ لوگ “کوہی گوٹھ ہسپتال” میں علاج کی غرض سے نہیں جاتے، وہاں تو عملہ چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے؟ ہماری اس بات پر اُن خواتین کا کہنا تھا کہ۔”وہاں پر کوپَن سسٹم ہے، صبح قطار میں لگ کر بڑی مشکل سے کوپن حاصل کرو اور پھر طویل انتظار کے بعد دوپہر تک باری نہیں آتی۔ اس کے بعد ہمیں مطلع کیا جاتا ہے کہ اب آپ لوگ کل آکر چیک اَپ کروائیں، آج کا دورانیہ ختم ہو گیا ہے۔ ادویات حاصل کرنے کے لیے بھی ہمیں کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، روز بروز مہنگائی کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں بھی بڑھتی جارہی ہیں”۔

بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں سرکاری  سکول موجود ہونے کے باوجود ہمیں اپنے بچوں کو نجی  سکول میں داخل کروانا پڑتا ہے کیونکہ سرکاری  سکول کا عملہ آئے روز غائب رہتا ہے۔علاقے کے لوگ روزگار جیسے مسائل کا بھی شکار ہیں۔تعلیم یافتہ نہ ہونے کی بِنا پر ہمیں شناختی کارڈ کے حصول کے لیے نادرا آفس کے کئی کئی چکر لگانے پڑتے ہیں، اسی سبب ہمارے علاقے کی بہت سی خواتین اٹھارہ سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود ابھی تک شناختی کارڈ سے محروم ہیں۔

اس نشست کے دوران کچھ خواتین نے اپنے ذاتی مسائل بھی ہمیں بتائے۔ ایک خاتون کے مطابق گھر والوں کی رضامندی سے ہم نے اپنی پندرہ سالہ بیٹی کی شادی کر دی، شادی کے بعد لڑکی کا خاوند اسے مارتا اور پلنگ سے باندھ کر اس پر بےپناہ تشدد کرتا اور طرح طرح کے الزامات لگاتا تھا۔ آخر تنگ آکر ہماری بیٹی میکے واپس آگئی اور ہم نے طلاق کا مطالبہ کر دیا لیکن لڑکی کا خاوند طلاق دینے پر راضی نہیں ہوا۔ ہم نے ایک وکیل سے بات کی، جب وکیل نے ہم سے لڑکی کا نکاح نامہ مانگا تو وہ ہمارے پاس نہیں تھا کیونکہ شادی کے وقت مولوی نے زبانی کلامی نکاح کروایا تھا اور ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت بھی نہیں تھا۔ پھر بڑی مشکل سے وکیل کی کوششوں سے ہم نے نکاح نامہ بنوانے کے بعد اپنی لڑکی کو طلاق دلوائی۔

کچھ خواتین نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ہمارے نو عمر لڑکوں کو اغواء کر لیا جاتا ہے، ہفتوں غائب رہنے کے بعد وہ واپس گھر آتے ہیں۔ علاقہ کی خواتین کے مطابق اس معاملے میں کچھ جرائم پیشہ عناصر متحرک ہیں جو کہ تاوان کے لیے لڑکوں کو اغواء کرتے ہیں اور ان سے اپنے لیے غیرقانونی کام کرواتے ہیں۔ کچھ نو عمر لڑکے ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ ہمارے لاپتہ ہونے والے لڑکوں کی عمریں 14 سے 22 سال تک کی ہیں۔

اس نشست کے دوران ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہماری خواتین ان افسوسناک حالات کے باوجود زندگی گزارنے کے گُر جانتی ہیں۔ انہیں اپنی معاشرتی اہمیت کا بھی خوب خوب اندازہ ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کی شادی کو شعوری طور پر غیرقانونی نہیں سمجھتیں، ان میں یہ شعور ہی نہیں کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کی شادی پاکستان کے آئین کی رو سے غیر قانونی ہے اور یہ جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ میرے خیال میں جیسے جیسے بنیادی تعلیم اور آگاہی نشستوں کا دائرہ کار وسیع ہو گا تو معاشرے میں اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply