مفادِ عامہ کے لیے ایک پیغام۔۔ذیشان سلمان

جیسے جیسے کرونا وائرس دنیا میں پھیلنا شروع ہوا ,تو ایسے میں طرح طرح کی مفت آفرز کے میسج یا ای میل ملنی شروع ہو گئیں۔ مفت خوری ، ناسمجھی اور آسان شکار بن کر عام آدمی نا صرف اپنی پرائیویسی،مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ اپنے دوست احباب میں بھی دھڑ ادھڑ یہ مفت کے پیکجز یا آفرز شیئر کر رہا ہے، جیسے مفت میں 50 سے 1000 جی بی انٹرنیٹ ڈیٹا۔بس آپ اس لنک پر کلک کریں۔
فری آنلائن موویز،جیسے نیٹ فلیکس وغیرہ۔
بغیر پیسوں کے کسی بھی نیٹورک سے کسی کو مفت کال کریں۔۔

کیونکہ آپ جیسے ہی ان کے مہیا کردہ لنک پر کلک کریں گے تو بس ان کا  سپائی وائرس یا کوئی کمانڈ آپ کے  سمارٹ موبائل فون، لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ میں انسٹال ہو جائے گا ،اب آپ کی تمام تر پرائیویسی اور ہر طرح کا ڈیٹا یا تمام خفیہ معلومات جیسے موبائل فون کا پاسپورڈ،بینک  اکاؤنٹس  کی تفصیلات،یا حساس ڈیٹا اب ان کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔

کورونا وائرس کے حوالے سے کوئی بھی مفت میں لنک پر کلک مت کریں اگر ایسا ہو گیا تو میلویئر آپ کو اپنے اینڈروئیڈ مائکروفون اور کیمرہ کے ذریعے جاسوسی کرسکتا ہے۔مطلب کہ آپ کی تمام تر پرائیویسی ختم۔
چونکہ کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل رہا ہے ، عام آدمی جعلی معلومات سے تیزی سے متاثر ہورہے ہیں ”۔

ایک بار جب عام آدمی ان کے مہیا کردہ لنک پر کلک کرتا ہے تو مطلب آپ ان کو اپنے موبائل یا ڈیوائس پر  کچھ بھی کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں ،پھر  سکرین پر یہ لکھا نظر آتا ہے  “آپ کا فون متاثر اور خراب ہے آپ کا تمام تر ڈیٹا ضائع ہو جائے گا اور آپ کے پاس 48 گھنٹے ہیں آپ بٹکواین آن لائن کرنسی سے اتنا ادا کر دیں ، ورنہ ہر طرح کا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیں گے۔۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام ، جیتو پاکستان میں نام آنا۔ کسی بڑی لاٹری کا نکل آنا۔بینک کی طرف سے بڑا انعام اور بینک اکاؤنٹ اپڈیٹس کروانا۔یا کسی بھی موبائل نیٹورک کمپنی   کی طرف سے ایک بڑا انعام۔۔
بالکل ایسے ہی یہ بھی  فراڈ پر گیم کھیلی جاتی ہے۔ اور عام آدمی مفت کے چکر میں مارا جاتا ہے۔۔ پھر
بوٹے  ورگے  گالاں کڈ دے پھر دے نیں ۔۔
مفت کا کوئی وقت نہیں۔۔ آپ ابھی بھی مفت خوری میں بھاگ رہے ہیں۔۔
اگر کسی ایسے  مُفتے   کے لالچ میں شکار ہو جاتے ہیں تو اپنے دوست احباب کو بھی اس کا شکار بننے کے لئے وہ پیکج یا آفر شئیر کرتے ہیں جیسے
ایک لومڑ کی دُم پہ پتھر آ گرا، دُم کٹ گئی۔

ایک دوسرے لومڑ نے جب اسے دیکھا تو پوچھا! یہ تم نے اپنی دُم کیوں کاٹی؟
دُم کٹا لومڑ بولا اس سے بڑی خوشی و فرحت محسوس ہوتی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہواؤں میں اُڑ رہا ہوں۔واہ!کیا تفریح ہے۔
بس گھیر گھار کر اس دوسرے لومڑ کو اس نے دم کٹوانے پر راضی کر ہی لیا۔
اس نے جب یہ دم کٹائی کی مہم سرکرلی تو بجائے سکون کے شدید قسم کا درد محسوس ہونے لگا۔۔
پوچھا میاں! جھوٹ کیوں بولا مجھ سے؟ پہلا کہنے لگا جو ہُوا سو ہُوا ،اب یہ درد کی داستان دوسرے لومڑوں کو سنائی تو انہوں نے دُمیں نہیں کٹوانی اور ہم دو دم کٹوں کا مذاق بنتا رہےگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات سمجھ میں آئی تو یہ دونوں دم کٹے پوری برادری کو یہ خوش کن تجربے کرنے کا کہتے رہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ لومڑوں کی اکثریت دم کٹی ہو گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply