سوشل میڈیا پر دانشور بننے کا فارمولا ۔۔۔ پرویز بزدار

وقت کے ساتھ جس طرح بہت سی اور چیزیں تبدیل ہوئیں، اسی طرح پہلے سیاسی مباحثوں کےلیے حمام کو جو مقام حاصل تھا ،اب وہی مقام تبدیل ہو کر سوشل میڈیا کو حاصل ہو گیا۔ سیاسی مباحث کا چونکہ براہ راست تعلق دانشوری سے ہے اس لیے مکان کی تبدیلی کے دوران دانشوروں کی پیمائش کےلیے استعمال ہونے والے فارمولوں میں بھی تبدیلی آتی رہی۔ پرانے زمانے میں نائی کی دکان پر کوئی ایک شخص ایسا ہوتا تھا جو اخبار سے خبر پڑھ کر سناتا تھا اور باقی سب لوگ جو اخبار پڑھنے پر قدرت نہیں رکھتے تھے اس خبر پر اپنا اپنا تجزیہ دیتے تھے۔ اس زمانے میں دانشوری ماپنے کا فارمولا یہ ہوتا تھا کہ جو کوئی خبر سے انتہائی دور کا مفروضہ تخلیق کرکے حاضرین کو سناتا تھا وہ سب سے مشہور دانشور کہلاتا تھا۔
<iframe width=”560″ height=”315″ src=”https://www.youtube.com/embed/aGjw74Yhh80” frameborder=”0″ allow=”accelerometer; autoplay; encrypted-media; gyroscope; picture-in-picture” allowfullscreen></iframe>
جب اخبار سے بات نکل کر نجی ٹی وی چینلز پر آگئی ،تو اسی حمام فارمولے سے ٹاک شوز کرنے والے دانشوروں کی درجہ بندی کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہی حمام کے حاضرین ریٹنگ کا فیصلہ کرنے والے بن گئے۔ نتیجے میں وہ سارے اینکرز، تجزیہ نگار اور صحافی سب سے زیادہ ریٹ کیے جانے لگے، جو حقیقت سے بہت دور کا مفروضہ “گھڑنے” میں ماہر تھے۔ اور یوں ڈاکٹر شاہد مسعود اور نجم سیٹھی وغیرہ بڑے دانشور بن گئے، کیونکہ یہ لوگ اندر کی وہ باتیں (مفروضے) بتاتے تھے، جو خبروں میں کبھی نہیں آتی تھی۔ دانشوری کا شوق لےکر جب نصف خواندہ لوگوں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا تو ان کے ذہن میں بھی ریٹنگ اور دانشوری کا پیمانہ وہی تھا ، کہ سب سے بڑا دانشور وہی سمجھا جائے گا ،جو جتنی حقیقت سے دور کی بات کرےگا۔ یہ فارمولا ایک عرصے تک تو چلتا رہا مگر دانشوروں کی اتنی بہتات ہوگئی کہ ایک نیا فارمولا ایجاد کرنا پڑا۔ وہ فارمولا یہ تھا کہ جو بات سب لوگ کر رہے ہوں ،اس کے برعکس بات کی جائے۔ گمنام سوشل میڈیائی دانشوروں کے علاوہ اس فارمولے پر عمل کرنے والوں کی ایک معروف مثال طلعت حسین صاحب ہیں۔ اب یہ فارمولا بھی فیل ہو چکا اور ثبوت کے طور پر طلعت صاحب کا یوٹیوب چینل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
دانشوروں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ آج کل ایک اور تیر بہدف اور مجرب نسخہ دانشوری ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ یہ نسخہ ساشے پیک اور ملٹی پل فلیورز میں بھی دستیاب ہے۔ اس نسخے کے تین اجزا” مذہب، ملک اور آرمی ہیں”۔ ترکیب استعمال یہ ہے کہ ان تین عناصر میں سے جس کے ساتھ بھی آپ کی روزی روٹی منسلک نہیں اس کو ٹھوک کر گالی دے دیں اور لمحوں میں دانشور بن جائیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر پرویز بزدار
مضمون نگار نے کائسٹ جنوبی کوریا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کر رکھی ہے اور اب جنوبی کوریا میں مقیم ہیں۔ وہ موبائل اور کمپیوٹر کے پروسیسرز بنانے میں آرٹی فیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کو استعمال کرنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply