• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کومشعل راہ بنائیں۔۔۔امجد جہانگیر

سیرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کومشعل راہ بنائیں۔۔۔امجد جہانگیر

محرم الحرام کی آمدکیساتھ ہی ہرطرف شہادت حسینؓ کاتذکرہ شروع ہو جاتاہے۔ ہرشخص کی زباں پرحضرت حسین ؓ کامبارک نام ہوتاہے۔ واقعہ کربلا مختلف اندازمیں بیان کیاجاتاہے۔ بحیثیت مسلم ہمیں چاہئے کہ ہم اس واقعہ کے عظیم مقاصد کوسامنے رکھتے ہوئے اس سے سبق حاصل کریں۔ہمیں اس عظیم مقصدکوپاناہوگاجس کی خاطر حضرت حسین ؓ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی۔ وہ مقصد مظلوم کا ساتھ دینا اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنا تھا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محرم الحرام ایک اورعظیم ہستی کے حوالے سے بھی یادکیاجاتاہے۔ جس کی شخصیت سے پوری دنیاواقف ہے۔ جن کے اقوال واعمال پوری دنیا کے لئے باعث ہدایت ہیں۔ جسے دنیاکی دیگراقوام نے بھی مانااورنہ صرف مانابلکہ ان کے طرزحکمرانی کے اصولوں کواپنایا۔آپ جان چکے ہوں گے کہ میں کس عظیم الشان ہستی کاذکرکررہا ہوں۔ یقینا ًوہ ہستی حضرت عمر فاروقؓ ہی ہیں جن کے طرزحکومت کودنیا Umer Lawکے نام سے جانتی ہے۔

آپؓ کانام عمربن خطاب تھا۔آپؓ عرب میں اپنی جرأت اورشجاعت کی وجہ سے مشہور تھے آپؓ کالقب فاروق تھا۔ جس دورمیں آپ اسلام لائے وہ دورصحابہ کرامؓ کے لئے انتہائی نازک ترین دورتھا۔ دشمن تودشمن اپنے بھی دشمن بن چکے تھے۔ظلم وستم کی تمام حدیں کفارپھلانگ چکے تھے۔ معصوم بے گناہ صحابہ کرامؓ کواسلام لانے کی پاداش میں ظلم وستم کانشانہ بنایا جارہا تھا۔ کسی کوگرم ریت پرلٹایاجاتا،تو کوئی سولی چڑھایا جاتا۔ لیکن جب حضرت عمرفاروقؓ نے اسلام قبول کیاتومکہ کے مسلمانوں کی زندگی کارخ ہی بدل گیا۔ خودحضرت عمرفاروقؓ فرماتے ہیں کہ جب میں ننگی تلوار لے کرحضورؐ کی طرف جارہاتھا تو راستے ہی میں مجھے یہ پتہ چلاکہ میری بہن اوربہنوئی نے اسلام قبول کرلیاہے۔ بس پھرکیاتھامیں انتہائی غصے کے عالم میں بہن کے گھرگیاتووہ وہاں قرآن مقدس کی تلاوت کررہے تھے۔ میں نے جاتے ہی دونوں کو زد وکوب کرناشروع کردیا۔لیکن مجال ہے کہ انہوں نے شکوہ تک کیاہو۔میری بہن نے مجھے کہاکہ اے عمر!اگرتو میرے ٹکڑے بھی کردے تومیں پھربھی اسلام نہیں چھوڑوں گی۔ جب میں مارتے مارتے تھک گیااوریہ دیکھا کہ میراغصہ اورمیراغضب ان کوراہ ہدایت سے نہیں ہٹاسکتاتومیں نے کہاکہ”تم کیاپڑھ رہی تھی ذرہ مجھے بھی دکھانا،میں بھی پڑھناچاہتاہوں“ تب میری بہن نے مجھے کہاکہ ”یہ پاک کلام ہے تم جاکر پہلے غسل کرکے آؤ“، چنانچہ میں نے ویساہی کیااورجب میں نے قرآن پاک کی مقدس آیات پڑھیں تومیرے اوپرعجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں سیدھاحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔صحابہ کرام ؓ نے جب حضرت عمرفاروقؓ کوآتے ہوئے دیکھاتوحضورؐ سے فرمایا”یارسول ؐ اللہ عمرآرہے ہیں“رسولؐ اللہ نے مسکراکرفرمایا”آنے دو“ کیوں کہ رسولؐ اللہ کومعلوم تھاکہ ان کی دعاقبول ہوگئی ہے۔

حضورؐ نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی تھی کہ یااللہ حضرت عمر بن خطاب ؓ اورعمر بن ہشام(ابوجہل) میں سے کسی ایک کواسلام کے نورسے منورفرمااورنبیؐ کی دعا قبول ہوتے دیرنہیں لگی۔ چنانچہ حضرت عمرفاروقؓ نے حضورؐ کے دست مبارک پراسلام قبول کرلیا۔ پھر اس دن کے بعد  کسی مسلمان نے  مکہ میں چھپ کرنمازنہ پڑھی۔ حضرت عمرفاروقؓ کے اسلام قبول کرنے سے قبل مسلمان حضورؐ کی اقتداء میں چھپ کرنمازپڑھاکرتے تھے تاکہ کفار مکہ کی اذیتوں سے محفوظ رہ سکیں۔لیکن جب حضرت عمرفاروقؓ نے اسلام قبول کیاتوحضورؐ سے فرمایاکہ آج کے بعدکوئی چھپ کرنمازنہیں پڑھے گابلکہ ہم سب بیت اللہ میں کھلے عام سب مشرکین کے سامنے اللہ تعالیٰ کے حضورسر بسجود ہوں گے۔ چنانچہ ایساہی ہوااورمسلمانوں نے بیت اللہ میں نماز پڑھناشروع کی۔ کسی کافر کویہ جرأت تک نہ ہوئی کہ وہ آکرانہیں روک سکیں۔اس طرح جب مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی توحضرت عمرفاروقؓ واحدشخص تھے جنہوں نے کفار مکہ کو للکارکرکہاکہ”اگرکسی نے اپنے بچے یتیم کرانے ہوں، کسی نے اپنی بیوی کوبیوہ کرناہوتووہ آئے اورمجھے ہجرت کرنے سے روکے“۔حضرت عمرفاروقؓ کی سیرت کے اتنے پہلو ہیں کہ ہر پہلو اپنے اندر کئی موضوعات سمیٹےہوئے ہے۔ آپؓ کادورحکومت دنیاکے لئے مثالی دور ہے۔ پوری دنیامیں Umer Lawپرریسرچ ہوتی ہے۔ آپؓ کے دورحکومت میں جوکام ہوئے ہیں تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصرہے۔ آپؓ نے دنیاکو بتایاکہ حکومت کس طرح کی جاتی ہے۔ حاکم اوررعایا کے مابین کیساربط ہوتاہے؟ آپ ؓ نے دنیاکوعملاً دکھایا کہ ایک غریب آدمی بھی حاکم وقت سے بھری محفل میں پوچھ سکتاہے کہ یہ کرتہ کہاں سے آیاہے؟

آپؓ کے سامنے اس وقت کی دوسپرپاورروم اورایران کی مضبوط حکومتیں تھیں لیکن آپؓ نے اس کمال سے ان کو اپنے زیرنگیں کیاکہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ آپ ؓ جب کسی محاذ پر لشکرروانہ کرتے تو سپہ سالار لشکر کوہدایت کرتے کہ بچوں،بوڑھوں اورعورتوں کاخاص خیال رکھنا، کھڑی فصلوں کو تباہ نہیں کرنا،عبادت گاہوں کوہاتھ نہیں لگانا،جوشخص اپنی تلوارپھینک دے اس پر ہاتھ نہیں اٹھانا،صرف اس سے لڑناجوتمہارے خلاف تلوار اٹھائے۔ یہ وہ زریں الفاظ تھے جوتاریخ میں کسی دوسری قوم کے متعلق نہیں پائے جاتے۔ کسی حاکم نے ایسے احکامات آج تک نہیں دیئے۔ جنیوا کنوینشن میں جنگ کے جو ضابطے اپنائے گئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے اقوال و احکامات کو ہی سامنے رکھا گیا ہے۔ آج دنیامیں خودکو مہذب کہلوانے والے جب دشمن پریلغارکرتے ہیں تو نہ بچوں کو دیکھتے ہیں نہ عورتوں اور بوڑھوں کی پروا کرتے ہیں، عبادت گاہوں کا تقدس رکھا جاتا ہے نہ ہی کھڑی فصلوں کا خیال کیا جاتا ہے اور تواورسکولوں اور ہسپتالوں تک کو رونددیا جاتا ہے لیکن میں قربان جاؤ حضرت عمر فاروق ؓ پر جنہوں نے ۲۲ لاکھ مربع میل کی وسیع وعریض سلطنت پر کم وبیش 10سال تک ایسے انداز میں حکومت کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر وجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مرتا ہے تو اس کی پوچھ بھی عمرؓ سے ہوگی۔ آپ ؓ کی عجزو انکساری کا یہ عالم تھا کہ فرماتے تھے کہ کاش میں کوئی درخت ہوتا جسے کوئی بدو کاٹ کر جلانے کے کام میں لاتا، مراد یہ تھی کہ مجھ سے میرے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا جبکہ درخت سے کیا پوچھنا۔آپ ؓ کی سیرت آج کے حکمرانوں کیلئے راہ ہدایت ہے آج کے حکمرانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ حضرت عمرفاروق ؓ کی سیرت کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ ؓ کے طرز حکومت کو اگراپنایا جائے تو یقینا نہ صرف پاکستان بلکہ یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ میں تما م مسلمانوں سے یہ گزارش کرتاہوں کہ وہ حضرت عمرفاروق ؓ کی سیرت کامطالعہ کریں تاکہ انکی زندگیاں بامقصد بن سکیں۔ آج پاکستان بلکہ دنیا ئے اسلام کے ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ حضرت عمرفاروق ؓکی سیرت کو اپنے مطالعے میں لائے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے انہیں معلوم ہوسکے کہ دنیائے اسلام اپنا کھویا ہوا مقام کیسے حاصل کر سکتاہے۔آج مسلمانوں کو اگراپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنا ہے تو انہیں حضرت عمرفاروق ؓ کی زندگی کو اپنانا ہوگا۔مسلم حکمرانوں کو حضرت عمرفاروق کی طرز حکمرانی اپنانا ہوگی۔تب جاکر عراق افغانستان چچنیا، شام، لیبیا، کشمیر اور فلسطین میں آگ اور خون کا کھیل ختم ہوگااور وہاں پھر سے گلشن آباد ہونگے۔آج اگر مسلمان حضرت عمرفاروق ؓ کی سیرت کو اپنے لئے مشعلِ راہ بناکر اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب عالم اسلام کا پرچم پھر سے دنیا پر لہرا رہا ہوگااور پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا اور امن کا چرچا ہوگا۔دنیا ایک بار پھر امن کی آغوش میں آجائے گی۔ آپ ؓ کو ایک منافق ابو لولو فیروز نے نماز کی حالت میں خنجر مار کرزخمی کیا اور پھر چنددن بعد  آپ نےیکم محرم الحرام کو جام شہادت نوش فرمائی ،اللہ تعالیٰ آپ ؓ پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔(آمین)

 

Facebook Comments

امجد جہانگیر
میرا تعلق درس و تدریس سے ہے۔ شوق مطالعہ نے تحریر کی راہ دیکھائی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply