بچپن کی بہت سی یادوں میں سے ایک یاد میرے ایک انکل بھی ہیں جو دنیا سے تو رخصت ہوگئے لیکن اب بھی اکثر مجھ سے خواب میں ملنے آتے ہیں۔ میرے اور میری بڑی بہن کے بچپن کے بہت خوبصورت دن اُن کے ساتھ گزرے۔ وہ تھے تو میرے والد صاحب کے آفس کولیگ لیکن اُن کے خاندان سے ہمارے تعلقات کسی قریبی عزیز سے بھی بڑھ کر تھے۔ مجھے اب تک یقین نہیں آتا ہے کہ وہ ہنس مکھ اور زندہ دل انسان دنیا سے رخصت ہوچکا۔ یادداشتوں کی طویل فہرست ہے جو پھر کبھی لکھوں گا۔ ابھی بس یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ انکل کا تعلق ایک سنی گھرانے سے تھا۔ محرم میں اُن کی زوجہ یعنی آنٹی نہ صرف میرے گھر بلاناغہ مجلس میں شرکت کرتی تھیں بلکہ ہمارے قریبی رشتہ داروں کے گھر سالانہ مجالس میں بھی شریک ہوتی تھیں۔
میں آج اتنے برس بعد بھی جب انکل اور اُن کے خاندان کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو ناکام رہتا ہوں کیونکہ اُنہوں نے کبھی مجھے محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ وہ سنی ہیں یا شیعہ۔ خدا اُن کے درجات بلند کرے۔ ۔ جس محلے میں میرا بچپن گزرا کاش وہاں کی یادوں کو ایک تحریر میں لکھ سکتا۔ ہماری گلی میں لاہور اندرون شہر سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی رہتی تھی اور اندرون شہر کا مزاج عزاداری کے معاملے میں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہاں شیعہ سنی ہمیشہ مل جل کر رہے۔ اس فیملی کی مجھے کبھی ٹھیک سے سمجھ نہ آسکی کہ آیا یہ مکمل شیعہ ہیں یا مکمل سنی، لہٰذا میں نے یہ سوچنا ہی چھوڑ دیا۔ کیونکہ صاحبِ خانہ سنی تھے اور نعت خوانی کرتے تھے جب کہ زوجہ باقاعدگی سے ہماری گھر مجلس میں شریک ہوتی تھیں۔ بچے مجالس میں باقاعدگی سے نظر آتے تھے اور پھر جمعے کے روز گھر کے قریب جامعہ مسجد میں سر پر ٹوپی رکھے والد کے ہمراہ نماز پڑھنے بھی جارہے ہوتے تھے۔ میں بچپن میں ایک سرائیکی نوحہ پڑھا کرتا تھا۔ آنٹی اکثر اپنے گھر سورہ یٰسین کی محفل کا اہتمام کرتی تھیں تو مجھے کہتی تھیں کہ تم وہ نوحہ آکر سنا دو۔ چونکہ میں چھوٹا تھا اس لئے بغیر جھجھکے محلے کی سنی شیعہ خواتین کے درمیان ایک دو بار وہ نوحہ پڑھ آیا تھا۔ ۔ ایک اور خاندان تھا، ہمارے گھر کے سامنے والے گھر میں۔ میرے دادا کا انتقال ہوا تو سب سے پہلے روتے ہوئے پرسہ دینے اسی گھر سے خواتین پہنچیں۔ پھر تمام رات ہمارے گھر بیٹھی رہیں، صبح کا ناشتہ اپنے گھر سے بھجوایا۔ یہ مجلس میں تو نہیں آتی تھیں لیکن جب اپنے گھر میں میلاد کا اہتمام کرتی تھیں تو “نامِ عباسؑ وسیلہ ہے ہر دعا کیلئے” ضرور پڑھواتی تھیں۔ ۔
خدا غریقِ رحمت کرے میری اُستانی جی کو جنہوں نے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو قرآن شریف پڑھایا۔ اُن کی آواز اور اُن کا چہرہ آج بھی ذہن میں ترو تازہ ہے۔ ان کے گھر بھی خواتین کے عشرہ محرم کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ اُن کی ایک بہو سُنی تھیں۔ مجھے یہ کبھی معلوم نہ ہوپاتا اگر ایک بار مجھے میری والدہ اُن کے بارے میں نہ بتاتیں۔ بھلا سیاہ لباس اور چادر اوڑھے مجلس میں شریک ہونے والی خاتون کو میں سُنی کیسے سمجھ لیتا؟ اُنہوں نے اولاد سے متعلق انہی مجالس میں کوئی منت بھی مانی تھی۔ ۔ ایک اور گھر ایسا تھا جس کا ایک ایک فرد مجھے اب تک یاد ہے۔ شاہ صاحب خود سُنی تھے اور اُن کی زوجہ شیعہ تھیں۔ اُن کا ایک بیٹا نمازِ جمعہ اُسی مسجد میں پڑھتا تھا جہاں میں پڑھا کرتا تھا، وہ مسجد کی انتظامیہ کا بھی حصہ تھا جبکہ ایک بیٹا محلے میں بنی ایک سنی مسجد کی انتظامیہ میں شامل تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ سنی مسجد والا اُن کے گھر میں منعقد ہونے والی خواتین کی مجلس میں سب سے زیادہ متحرک ہوتا تھا۔ یہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا جو عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا لیکن مجھ سے ہمیشہ بہت زیادہ خلوص اور محبت سے ملتا تھا۔ ۱۲ ربیع الاول ہوتی تھی یا شبِ برات، گھر گھر نیاز پہنچانے کا کام بھی یہی کرتا تھا۔ بہت پڑھا لکھا اور قابل انسان، جہاں کہیں بھی ہو اللہ اُسے اپنی امان میں رکھے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں لیکن شاہ صاحب کے شیعہ اور سنی، تمام بیٹوں کی بیویاں بھی شیعہ تھیں۔ شاہ صاحب سُنی تھے لیکن وصیت کی تھی کہ اُنہیں کربلا سے لائے گئے کفن میں دفنایا جائے۔ شاہ صاحب شیعہ نہیں تھے لیکن ایک سچے محبِ اہلبیت ؑتھے۔ اُن کا گھرانہ اس محبت کا ثبوت تھا۔ خدا اُن کے درجات بلند فرمائے۔ ۔
میرا قلمی نام میری مجبوری نا ہوتی تو میں لاہور کے ایک اور قدیمی عزادار گھرانے کا ذکر ضرور کرتا جہاں ایک شیعہ زوجہ اور اُس کے سُنی شوہر کا عزادری منعقد کرنے پر اختلاف ہوا کرتا تھا لیکن پھر ایسا وقت آیا کہ اُن کا گھر محرم میں مستورات کی مجالس کا مرکز بن گیا۔ میں بچپن میں کبھی کبھی اپنی والدہ کے ہمراہ یہاں مجلس میں آیا کرتا تھا۔ جہاں وہ مومنہ خاتون عزاخانے کے ایک کونے میں ایک ستون سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوتی تھیں، جیسے اپنی محنت کا ثمر دیکھ کر شکر ادا کر رہی ہوں۔ اُن کی ایک بہو معروف مرثیہ خوان ہیں۔ مجھے اُس عزاخانے میں بکھری ہوئی تبرک اور گلاب کے پھولوں کی ملی جلی مہک اب تک یاد ہے۔ ۔ فیصل آباد میں میرے ایک دوست نے محرم سے کچھ دن پہلے اچانک مجھ سے بحث شروع کردی کہ تم لوگ ماتم کیوں کرتے ہو۔ میں مختصر جواب دے کر بات ختم کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن دوست نے ایک کے بعد ایک سوال پوچھنا شروع کردیا۔ پھر اچانک برابر میں بیٹھے چنیوٹ کے ایک سُنی دوست نے مجھے خاموش رہنے کو کہا اور پھر اُس وقت تک خاموش نہ ہوا جب تک ماتم سے متعلق سوال پوچھنے والے دوست کو لاجواب نہ کردیا۔ اُس نے ماتم کی حمایت میں گفتگو کرنے کے بجائے صرف اتنا کہا کہ تم اپنے بارے میں اس طرح کی جرح برداشت کرسکتے ہو؟ میرا یہ دوست کافی عرصہ میرا روم میٹ رہا، باقی باتیں تو یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ اُس کا چہرہ فخر سے تمتما اُٹھا تھا جب اُس نے چنیوٹ میں اُس تعزیے کا ذکر کیا تھا جو اُس کے خاندان کا تاریخی تعزیہ تھا۔
میں چنیوٹ میں ہی ایک ایسے سُنی سے بھی مل چکا ہوں جس کے گھر میں آیت اللہ خمینیؒ کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ میں اُسے شیعہ ہی سمجھتا رہا جب تک میرے بھائی نے مجھے بتا نہ دیا کہ یہ سنی ہے۔ ۔ چلتے چلتے کچھ تذکرہ اپنے اُن ہندو دوستوں کا بھی کر دوں جن میں سے کوئی انباکس میں آکر مجھے عیدِ غدیر کی مبارک دیتا ہے اور کوئی “گھبرائےگی زینبؑ” جیسے لازوال کلام کے خالق چھنو لال دلگیر کا تذکرہ سُن کر مجھ سے کہتا ہے کہ میں بھی ایک شاعر ہوں، آپ دعا کریں کہ میں بھی چھنو لال دلگیر کی طرح کچھ لکھ سکوں۔ ۔ یادداشتیں بہت ہیں اور دامنِ تحریر میں گنجائش کم۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں نے یہ سب کیوں لکھا۔ دراصل انباکس میں میرے بہت پیارے دوست محبوب الرحمن بھائی نے حکم دیا تھا کہ محرم میں بین المسالک ہم آہنگی کیلئے کچھ لکھیں۔ بس اُن کا حکم کیسے ٹال سکتا تھا اس لئے یہ اپنی سی کوشش کر ڈالی۔ محبوب بھائی تبلیغی جماعت سے وابستہ ایک بے انتہا معتدل انسان ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں