آدھی رات کی اذانیں۔۔اورنگزیب وٹو

دس دن لگاتار۔یہ خوفناک ہے مگر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ساری کالونی قبرستان لگ رہی ہے۔تیز بارش خوفناک اندھیرا بجلی کی گرج اور آدھی رات کی اذانیں۔میرے پاس انٹرنیٹ پیکج بھی ختم ہو چکاہے۔دن میں چھے دفعہ چاۓ پی چکا ہوں۔دودھ ختم ہو جانے کا ڈر بھی ہے۔سو ،چا ئے تو اب صبح ہی ملے گی۔ٹی وی پر جنازوں اور مرنے والوں کی خبریں چل رہی ہیں۔دور سڑک سے پولیس اور ہسپتال کی گاڑیاں ہارن بجاتی گزر رہی ہیں۔دماغ خراب ہو رہا ہے۔کچھ پڑھا جائے؟ تارڑ کا خس و خاشاک زمانے اٹھایا ہے اور خود کو ماضی میں لے جانے کی کوشش کر رہا ہوں۔تارڑ میرا پسندیدہ لکھاری ہے۔شوق سے پڑھتا ہوں۔خش و خاشاک زمانے اردو ناول کی بائبل ہے۔ناول کے سرورق پر ایک تصویر دکھائی دے رہی ہے۔یہ تصویر کسی ہندوستانی عورت کی ہے۔پتا نہیں کس زمانے کی کہانی ہے۔دو صفحے پڑھ کر ہی ہمت جواب دے گئی۔میں فلیٹ کے دروازے پر آ چکا ہوں،ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر گھما رہا ہوں۔مجھے کچھ کھا لینا چاہیے۔مگر نہیں۔اس وقت کھانے سے ورزش کی ضرورت ہو گی۔پیٹ پھول جاۓ گا،وزن بڑھے گا۔اس لیے کچھ نہیں کھانا۔کیوں نہ ڈرامہ کیا جاۓ؟کوئی سوانگ رچوں؟عجیب لگے گا تو کونسا کوئی دیکھے گا۔پہلا ناٹک کس نے کیا ہو گا؟شاید آدم کے پوتوں میں سے کسی نے اپنی محبوبہ کو خوش کرنے کے لیے یا پھر افریقہ کے کسی جنگل میں ماں نے اپنے روتے بچے کو ہنسانے کے لیے۔مگر ایک ڈرامہ وہ بھی تو ہے جس کے نتیجے میں ہم دنیا میں بھیجے گئے۔جس کا سٹیج ساتویں آسمان سے بھی اوپر سجایا گیا۔مجھے Julius Caeser بہت پسند ہے۔کونسا کردار کرنا چاہیے۔Brutus یا مارک انٹونی؟ نہیں۔میں نے پہلی آواز لگائی”Beware the Ides of March”۔میری آواز پالتو مرغ کی طرح پھٹ رہی ہے۔اسے چھوڑو۔اب کیا کیا جاۓ؟ ڈانس؟ہاہا؟میرا ڈانس کیسا ہو گا؟لوگ اسے ڈونکی ڈانس کا نام دیں گے۔میں امیتابھ کی طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈانس کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔مجھے ایک گانا یاد آیا ہے ”پگے گھنگرو باندھ کے میِرا ناچی تھی،اور اب یہاں میں بنا گھنگھرو ناچ رہا ہوں۔مجھے کئی ڈانس یاد آ رہے ہیں۔سب سے پہلے میں جھونبر کھیلتا ہوں۔واہ،یہ جھونبر میں نے شادیوں پر دیکھی ہے۔پھر میں ڈسکو ناچوں گا۔یا پھر سالسا؟مجھے ایک ڈانس زانبرا بھی یاد آ رہا ہے۔اگر میرا جسم لچکدار ہوتا تو شاید میں کسی تھیٹر کمپنی میں ڈانسر بھرتی ہو جاتا اور بیلے ڈانس بھی ناچتا۔ہاہا،میں یہ کیا کر رہا ہوں؟ مجھے خود پہ ہنسی آرہی ہے مگر میرے ہاتھ پاؤں چل رہے ہیں۔میرا جسم میرے دماغ کا ساتھ نہیں دے رہا،ہا ہا۔ہاہا، اُف میں تھک چکا ہوں،سانس پھول چکا ہے اور فرش پر بچھے میٹرس پر گر گیا ہوں۔میں آدھے گھنٹے سے اپنا سانس اور جسم بحال کرنے میں لگا ہوں۔رات کا پچھلا پہر شروع ہو چکا ہے مگر نیند کا کچھ پتا نہیں۔موبائل اٹھا کر پرانی تصویریں دیکھ رہا ہوں مگر کچھ نظر نہیں آ رہا۔مجھے اپنی نانی یاد آرہی ہیں۔پیر فرید آ،بھٹی نے کیا گایا ہے۔سوہنا ملسی کیہڑے وار۔سانس رکتی محسوس ہو رہی ہے۔ساٹھ برس تک وہ ہمارے ساتھ رہیں اور ساٹھ برس بعد ہم نے انہیں کندھوں پر اٹھا کر واپس روانہ کیا۔اب دروازے سے کسی چیز کے ٹکرانے کی آوازیں آ رہی ہیں۔کیا ہو سکتا ہے اس وقت؟کہیں کوئی ڈاکو یا قاتل؟ میں ونڈو سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔یہ کوئی بھوکی بلی ہے۔میں نے دروازہ کھول کر اسے کچھ کھانے کو دینے کا سوچاہے مگر دروازہ نہیں کھول پا رہا۔میرے ہاتھ اور پاؤں پھول چکے ہیں۔میں نے پھر فون اٹھا لیا ہے اور پرانی ویڈیوز دیکھ رہا ہوں۔ویڈیو میں مجھے کچھ لوگ دکھائی دے رہے ہیں۔فوج اور پولیس نے ان کے سامنے دیوار بنا رکھی ہے۔پتا چلا ہے کہ  یہ کسی نوجوان کو دفن کیا جا رہا ہے۔حکومتی لوگ تدفین کے بعد چلے گئے ہیں۔اگلی ویڈیو پاکستانی ٹیم کے 25 مارچ 1992 کے ورلڈ کپ جیتنے کی ہے۔میرے اس دنیا میں آنے سے پہلے کی۔ہاہا۔اگلی ویڈیو میں گھر میں رہنے کے احکامات بتاۓ جا رہے ہیں۔میری نظر اگلی ویڈیو پر ٹک چکی ہے۔ایک خاتون میزبان ایک رکشہ والے کی خود کشی کا واقعہ بیان کر رہی ہے۔رکشہ والے کو دس دن تک کوئی سواری نہیں ملی اور وہ بھوکوں مرنے کی بجاۓ ٹھوکر پل سے چھلانگ لگا کر مر گیا۔خاتون رکشہ والے کا چہرہ دکھا رہی ہے مگر میں اسے نہیں دیکھ پا رہا۔میری نظروں میں خاتون کا فراغ سینہ اور ٹانگیں گھوم رہی ہیں۔مجھے اس کے جسم کی خوشبو آرہی ہے اور مجھے اپنے اندر لاوا اٹھتا محسوس ہو رہا ہے۔رکشہ والے کی لاش پڑی ہے اور ٹی وی پر نظر آنے والی خاتون ننگی ہو چکی ہے۔میرے دروازے سے بلیاں ٹکرا رہی ہیں،فوجی گاڑیاں اعلان کر رہی ہیں،ٹی وی سکرین ٹوٹ چکی ہے،برہنہ عورت اپنا سینہ تھامے میرے سامنےہے اور میں آنکھیں بھینچے اپنا ہاتھ چَلا رہا ہوں۔ آدھی رات کی اذانیں شروع ہو چکی ہیں۔

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آدھی رات کی اذانیں۔۔اورنگزیب وٹو

Leave a Reply