“کرونا “حاضر ہو۔۔۔عزیز خان

جب سے حکومت نے لاک ڈاون کے احکامات جاری کیے میں گھر پر ہی رہا اس ہفتہ کسی بھی عدالت میں کوئی قابل ذکر کیس نہ تھا جج صاحبان اگلی تاریخیں دے رہے تھے مگر آج میرے عدالت عالیہ کے علاوہ عدالت ضلع کچہری میں بھی ضمانت بعد از گرفتاری 489 ایف کا ایک کیس تھا جانا بھی ضروری تھا کیونکہ ایک بے گُناہ شخص ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے جیل میں بند تھا
گھر سے نکلا تو ہر طرف خاموشی تھی وہ سڑکیں جو اس وقت ٹریفک سے جام ہوتی تھیں خالی تھیں اکا دُکا کار نظر آتی تھی جگہ جگہ پولیس اور آرمی کے جوان کھڑے تھے جو ہر کو کار روک کر پوچھتے تھے کہ کہاں جا رہے ہیں ایڈوکیٹ کی یونیفارم میں ہونے کے باوجود بھی کئی جگہ پر مجھے روکا گیا ایک عجیب سی دہشت اور خوف کی فضا تھی۔
میرے جونیرز عظیم شعیب اور طارق شرقپور سے جبکہ ضمیر بابر بحریہ ٹاؤن سے ماسک پہنے ضلع کچہری پہنچ  گئے
آج حافظ نفیس صاحب بطور ڈیوٹی جج تھے ،جج صاحب 9 بجے تک تشریف نہیں لائے تھے چھوٹے سے کمرہ میں جج صاحب کی عدالت تھی اور باہر ملزمان اُن کے ورثا پولیس ملازمین اور وکلا کا ایک ہجوم تھا اور ہم بھی سب اس ہجوم کا حصہ تھے

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کے مقدمات کی لسٹ بہت طویل تھی اور میرے مقدمہ کا لسٹ میں نمبر 32 تھا یہاں آکر معلوم ہوا کہ آج جج صاحب موصوف 34 تھانوں کے ڈیوٹی جج بھی ہیں رش آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا اچانک ریڈر جج صاحب نے حکم جاری فرمایا کہ یہ کمرہ عدالت چھوٹا ہے ساتھ ایک اور کمرہ ہے جو اس سے قدرے بڑا ہے میں سب آجائیں جج صاحب دوسرے کمرہ عدالت میں آگئے ہیں سب وکلا اور پولیس ملازمین اُس کمرہ عدالت کی طرف لپکے یہ کمرہ دوسرے کمرہ کی نسبت کُچھ بڑا تھا
ایک یلغار تھی جو جج صاحب پر ہو رہی تھی کُچھ وکلا نے ماسک اور دستانے بھی پہن رکھے تھے مگر ایک دوسرے کے ساتھ چپکے سب وکلا پولیس ملازمین اور ہتھکڑی لگے ملزمان کرونا کو شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے؟
پھر جج صاحب کی طرف سے حکم ہوا ملزمان کو باہر بھیجا جائے مگر کوئی سُننے کو تیار نہ تھا عدالت کا وقت 10 بجے تک کا تھا مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایک گھنٹہ میں جج صاحب کیا سارا کام کر پائیں ؟ کیا اتنی بڑی لسٹ جج صاحب سُن پائیں گے ؟ کیا انصاف ہو پائے گا؟
میرے ساتھ کھڑے ضمیر بابر ایڈوکیٹ بولا سر اس طرح ہماری باری نہیں آنی آپ آگے آجائیں بحث کرتے ہیں ضمیر بابر کی آواز خاصی گرجدار ہے جج صاحب اس کی طرف متوجہ ہوئے تو بابر نے اُنہیں اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اُس کے ساتھ کھڑا سفید بالوں کے ساتھ میں بھی شاید جج صاحب کی توجہ کا مرکز ہو سکتا تھا ؟
میں نے جج صاحب کو مقدمہ کے حالات بتانے کی کوشش کی کہ یہ چیک گارنٹی کا ہے پولیس نے تفتیش درست نہیں کی مگر جج صاحب کا ریڈر درمیان میں ریمانڈ جسمانی اور جوڈیشل کی فائل سامنے رکھ دیتا تھا اور جج صاحب اُدھر متوجہ ہوجاتے تھے دس منٹ بولنے کے بعد جب میں نے جج صاحب کی عدم توجہی دیکھی تو میں خاموش ہوگیا اُنہوں نے بھی میرے خاموش ہونے پر شُکر ادا کیا ہوگا
مجھے اس عدالتی نظام پر شدید دُکھ ہوا ایک انسان کتنا کام کر سکتاہے جج بھی تو انسان ہی ہے 34 تھانوں کا کام ایک جج کو دے دینا اور پھر اُس سے انصاف کی توقع کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
جس کرونا سے بچنے کے لئیے ایک جج کی ڈیوٹی لگائی گئی اور عدالتوں میں رش کم کرنے کی کوشش کی گئی اُس جج کی عدالت میں تین چار سو لوگ اکٹھے ہو کر کیا “کرونا ” کو دعوت نہں دے رہے تھے اگر ہر جج ایک گھنٹہ اپنی عدالت میں کام کرتا اور صرف اپنے تھانے کا کام کرتا تو بہتر نہ ہوتا؟
ہمشہ کی طرح ہمارے عدالت سے آنے کے بعد میں جج صاحب نے فیصلہ سُنایا درخواست ضمانت ریجیکٹ کر دی گئی حالانکہ اس کیس میں سزا تین سال تھی اور کل ہی عدالت عالیہ کے ایک حکم کے مطابق سات سال سے کم سزا والے دفعات میں ضمانت کی ہدایت کی گئی تھیں
درخواست ضمانت ریجیکٹ ہونے کی مجھے کوئی حیرانگی یا دُکھ نہ ہوا کیونکہ ان حالات میں کوئی بھی انسان اپنی ڈیوٹی انجام نہیں دے سکتا جن حالات میں جج صاحبان کو ڈیوٹی پر مجبور کیا جارہا ہے
اللہ پاک ہم سب کو اپنے حفظ امان میں رکھے آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply