• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تعلیم کی لگام مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔اسد مفتی

تعلیم کی لگام مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔اسد مفتی

میرے نزدیک کسی واقعہ،حادثہ یا تخلیق کی اہم وجہ اور بڑی خوبی اگر کوئی بنتی ہے تو وہ یہی ہے کہ یہ واقعہ یا تخلیق پڑھنے یا لکھنے والے کو متحرک کردے کہ میرے جیسے شخص کے لیے یہی زندہ رہنے کا جواز ہے،پاکستان میں وسیع الذہن،کشادہ دلی،تحمل و بردباری تو آگے نہ بڑھی البتہ ہمارا سماجی رویہ اور کردار انتہائی ہوتا گیا،جو آج تک ہمارے ساتھ ہے۔۔کتنی تعجب خیز بات ہے کہ اپنی تنگ نظری عادتوں اور رواجوں کی کمزوریوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا چاہیے،کہ ہمارے بزرگ،اسلاف بڑے لوگ تھے۔ماضی کی درخشندگی کا احساس اقوام کے تشخص کے لیے ضرور ی تو ہے لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے تہذیبی،تعلیمی اور سماجی منظر نامے میں ماضی کی یہ عظمتیں کسی قوم کے تشخص کی واحد پہچان نہیں ہو سکتی۔قوموں کا مجموعی تشخص تب تک نہیں بن سکتا جب تک عصر ی اور جدید علوم فکر وعمل کا حصہ نہ بن جائے۔

موجودہ دنیا مختلف قسم کے اسباب اور احوال سے بھری پڑی ہے،یہ اسباب و احوال ہم سے الگ وجود رکھتے ہیں،اور آپ اپنے زور پر قائم ہیں،ہم ان سے ہم آہنگی کرکے اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں،ان کو نظر انداز کرکے منزلِ مقصود پر پہنچنا ممکن نہیں۔اس صورتِ حال کے تقاضوں میں سے ایک تقاضہ یہ ہے کہ آدمی میں یہ صلاحیت ہو،وہ پیش آمدہ حالات سے پوری طرح از سرِ نو غور کرکے وہ مسئلے کا نیا حل دریافت کرنے کی طاقت،فہم اور جرات رکھتا ہو،میرے حساب سے صرف تعلیم محض نہیں رہی،بلکہ یہی تعلیم کا ایک ارفع،ہمہ گیر،روشن خیال،وسیع،دوررس، اور زندگی دوست تصور رکھنا ہے۔میرے نزدیک ملک میں کچھ حلقے اور گروپ موت کو زندگی کے نام سے متعارف کروا رہے ہیں۔اور یہ طے ہے کہ تعلیم میرے نزدیک ایک سماجی پہلو کی حامل ہے،ایک ضابطہ حیات،،مقصدیت اور افادیت کی حامل ہے،میرے حساب سے کوئی چیز اس سے زیادہ خطرناک نہیں کہ آدمی اپنے دل و دماغ میں صرف ایک ہی تصور رکھتا ہو،ون بُک لائبریری تسخیر کا پیش خیمہ نہیں بن سکتی۔

دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ عصری تعلیم و تربیت کی زنجیروں ہی سے دہشتگردی کے جن کو قابو کیا جاسکتا ہے،یہ دانشور اور ماہرین یہ سوال بھی پوری شدت سے اٹھاتے ہیں کہ ہم میں برداشت،درگزر،رواداری اور بھائی چارے  کے مادے کی کمی کیوں ہے؟۔۔۔ان کے تجزیہ کے مطابق ان سب باتوں کی کمی کی بنیادی وجہ عصری تعلیم میں پیچھے رہ جانا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بغیر معیاری اور عصری تعلیم کے نہ تو ہم دہشتگردی کے مقابل آسکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔تعلیم دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے اہم ہے کہ دہشتگردانہ انتہا پسندی کو کتاب اور قلم سے ہی شکست دی جاسکتی ہے،آج دنیا کا سب سے بڑامسئلہ تشدد کا پھیلتا ہوا دائرہ ہے۔اس تشدد کی آگ نے انسانیت کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔جس سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے امن کا پیغامبر رہا ہے،یہ دنیا کو انسانیت اور بھائی چارے کا درس دیتا رہا ہے،جیسے کہ بیسویں صدی کے عظیم دانشور و نے برصغیر کے بارے میں کہا ہے کہ “اگر اس سرزمین پر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تہذیب کے آغاز سے ہی انسان کے سارے خواب اور ارمان پورے ہوتے رہے ہیں تو وہ جگہ برصغیر ہے “۔لیکن تلخ سچائی کہ آج اس برصغیر کے ایک حصے پاکستان کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے کہ آخر کس طرح ملک میں تشدد کی چنگاری جو کہ شعلہ بن چکی ہے پہ منوں پانی ڈال سکے۔
یہ سوال بہت پہلے اور کئی بار اٹھ چکا ہے کہ آخر ملک میں امن بحالی اور تشدد کے خاتمے کے لیے کون سا راستہ اپنا یا جائے۔

اس مسئلے پر ہمارے دانشوروں نے الگ الگ اپنی رائے دی  ہے ،لیکن میر ے حساب سے ملک میں تشدد،انتہا پسندی اور دہشگردی کے خاتمے کے لیے سب سے اہم تعلیمی نصاب کو آلہ و ہتھیار بنا کر نئے سرے سے نافذ اور رائج کیا جائے۔اس معاملے میں میر ی سوچ،فکر اور رائے بالکل واضح ہے،کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سکول کے نصاب میں اخلاقیات،تحفظ انسانیت،انصاف،سماجی مساوات،اور سیکولرازم کے اسباق کو شامل کیا جائے۔موجودہ نصاب نے ہماری موجودہ تعلیم کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے،آج سکول و کالج میں جو تعلیم د ی جارہی ہے،اس سے طلبہ کے کردار ور افکار میں تضاد رہتا ہے،ایسے میں بد امنی اور تشدد کو پھیلنے کا موقع تو ملے گا ہی۔

ہم سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ زندگی کے کسی شعبے میں ترقی اس وقت تک نہ ممکن ہے جب تک امن و سکون نہ ہو۔اور جہاں تک سوال ہے انسان کی زندگی کی کامیابی کا تو اس میں تعلیم کو مرکزیت حاصل ہے،اور اگر تعلیم کے اندر ہی خرابی ہو تو آخر کوئی کس طرح کامیابی سے اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔میرے حساب سے انسان کی سب سے اہم چیز علم ہے اگر انسان علم سے بے بہرہ ہو تو اس کا معاشرے میں جینا بے کار ہے۔معاشرے کو بگاڑنے کے لیے کچھ حلقوں نے صورِ قیامت پھونک رکھا ہے،اور پاکستانی معاشرے میں برائی کے غلبے کی انتہا یہ ہے کہ برائی و لاعلمی،ندامت و شرمندگی کا سبب بننے اور معذرت خواہی کا باعث بننے کی بجائے وجہ افتخاراور باعثِ اعزاز بن گیا ہے اور مشکل یہ ہے کہ قدیم علوم اور مذہبی معاملات کے جاننے والے جدید اور عصری علوم پر مہارت رکھنے والوں کو جاہل سمجھتے ہیں۔اور یہ ان کی جہالت پر آنسو بہاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

قضیہ یہ ہے کہ بنیاد پرستی دراصل روان پانی کو ٹھہرا دینے کے مماثل ہے،جس سے پانی اور فکر دونوں سڑنے لگتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ بنیاد پرست دانشور اپنی بے بسی پر لگتا ہے جھنجھلائے ہوئے ہیں۔
میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ یہ دور معلومات کی چو طرفہ بوچھاڑتو کررہا ہے لیکن علم کے خانے کو خالی چھوڑے ہوئے ہے۔معلومات اور علم کے فرق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،محض معلومات سے (مثال ڈاکٹر ذاکر نائیک)شخصیت کے جوہر نہیں کھلتے۔علم کے حصول اور اسے انگیز کرنے سے کھلتے ہیں کہ معلومات سے صرف حافظہ کا تعلق ہے،جبکہ علم ذہن کو روشنی،روشن خیالی،عصری سوچ،بھائی چارہ،اور شخصیت کو توانائی عطا کرتا ہے۔
میں جانتا ہوں میری یہ بات ارباب اختیار اور مفتیانِ دین مبین کے گلے سے نہیں ارتے گی،لیکن ایک بار انہیں پھر سے غور کرنا ہوگا کہ نظر ہونا اور بات ہے اور نظریہ ہونا دوسری بات۔۔۔۔!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply