بلوچستان کے پشتون اور متحدہ پشتون صوبہ۔Zarak Bughti

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پشتون رہنما کافی عرصہ سے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے 50% کے مالک ہیں، انہیں ان کا حصہ ملنا چاہیے جو ان کے بقول انہیں نہیں مل نہیں رہا ہے۔ کبھی ان کا یہ نعرہ ہوا کرتا تھا کہ ”ژوب تا بولان پشتونخوا دی”اور کبھی کہتے دکھائی دیتے تھے بجٹ اور مراعات میں جائز حصہ نہیں دیا جا رہا ہے۔
حال ہی میں جو مردم شماری ہوئی اس میں ایک بات تو صاف ہوگئی کہ آبادی سے متعلق پشتون رہنما غلط بیانی کر رہے تھے کہ ان کی اتنی بڑی اکثریت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے یہ سب دعوے کھوکھلے تھے۔

نیز اسمبلی میں ان کی وزارتیں دیکھیں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ اس بار ان کی پوزیشن زیادہ بہتر ہے۔ اب  ان کی یہ آہ و زاری بے  بنیاد ہے۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ پشتون علاقوں کو ہی دیا جا رہا ہے۔بلوچستان میں کاروبار اور ٹرانسپورٹ پہ بھی پشتون غالب ہیں۔ بلوچستان  کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں ہر منافع بخش کاروبار پشتونوں کے پاس ہے۔ کسی جاب کا کوٹہ دیکھ لیں یا کسی یونیورسٹی میں داخلہ نشستوں کا کوٹہ دیکھ لیں، جتنی ان کے اضلاع کی آبادی ہے، اتنا ہی حصہ انہیں ملتا ہے۔ یقیناً کبھی کسی نے یہ بھی نہیں سنا ہوگا کہ گوادر میں ایک ووٹ، پشین کے دو ووٹ کے برابر ہے۔ اس لیے حیرت ہوتی ہے کہ آخر انہیں کون سی برابری چاہیے؟

بلوچستان کی ایم اور بڑی وزارتیں ان کے پاس ہیں، جیسا چاہتے ہیں ویسا بجٹ بناتے ہیں۔ ان کے سیاسی رہنما، معصوم پشتون عوام کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ووٹ عام پشتون سے لیتے ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر صرف اپنے رشتے دار بیٹھا رکھے ہیں۔ کون سی وہ وزارت اور اعلیٰ عہدہ ہے جو اپنے گھر کے لوگوں کو نہیں دیا ہوا ہے؟ پشتون اکثریت والے اضلاع میں تو لوگ ان سے بیزار ہیں۔ اس مرتبہ انتخابات میں اس کا بھی فیصلہ ہو جائے گا۔یہ صوبے کی تقسیم کی بات صرف اپنے سیاسی مفادات کے بچاؤ کا شوشا ہے۔ خود ایک اعلیٰ وزارت پر بیٹھے ہیں اور بات کرتے ہیں صوبے کی تقسیم کی، جس سے کہ انہیں یہ وزارت ملی ہے۔حالاں کہ اگر صوبہ بلوچستان تاریخی و قومی بنیادوں  پر تقسیم کر دیا جائے تو سب سے زیادہ خوش بلوچ ہوں گے۔

ایک تو ہمارے پشتون بھائیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوجائے گا اور ان کی آہ و بقا کا جواز بھی نہیں رہے گا۔ پشتون صوبہ بن جانے سے دونوںاقوام کو کیا نقصان ہوگا بھلا؟ دونوں اقوام میں  ہمیشہ سے دوستانہ تعلقات  رہے  ہیں، اگر یہ مفاد پرست سیاست دان اسی طرح کرتے رہے تو محض نفرتوں میں ہی اضافہ ہو گا، اس سے بہتر ہے کہ پیار محبت سے بٹوارہ ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پشتون قوم پرست رہنماؤں سے میرا تو بس یہی سوال ہے کہ آپ پچھلے اتنے عرصے سے صوبائی اور قومی دونوں اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ اب تک   اس بابت کوئی قرارداد پیش کیوں نہیں کی؟ اب تک یہ پشتون صوبے کی بات صرف جلسوں میں عوام کو جذباتی کرنے کے لیے کیوں کرتے ہیں؟ آخر آپ کب اسے عملی جما مہ پہنائیں گے؟ یا یہ نعرہ محض آپ کا ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ ہی رہے گا؟

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply