• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • افغان مسئلے پر پاک امریکہ مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

افغان مسئلے پر پاک امریکہ مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

یہ امر واقعی ہے کہ افغانستان کا مسئلہ ایسا عسکری مسئلہ ہے جس نے اپنے بطن سے کئی چھوٹے بڑے عسکری و معاشی اور بالخصوص علاقائی مسائل جنم دیے۔امریکہ اور امریکی عوام کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے حکمران طبقات کی غلط پالیسیوں کے باعث ساری دنیا میں نفرت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ بالکل اسی طرح یہ بھی ہے کہ مسلمانوں ہی کے بعض شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں نے ساری دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ عام مسلمان صلح جو، امن پسند اور اسلام کی آفاقی و سماجی تعلیمات کا سفیر ہے۔دنیا اور بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ کو بھی دہشت گردی اور اسلام کو علیحدہ کر کے دیکھنا، اور سوچنا چاہیے۔یہ حقیقت خطے، اور بین الاقوامی سیاست کی چالوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار جانتے ہیں کہ افغانستان میں امن نہ ہونے کی بڑی اور بنیادی وجہ از خود امریکہ اور اس کی جارحانہ و عسکری پالیسیاں ہیں۔امریکہ مگر یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں جو امن نہیں ہو رہا ، اس کی وجہ پاکستان ہے۔یہی امریکہ کی غلطی ہے جو اس کی شکست اور اس کی ہیجان انگیزی کا سبب بن رہی ہے۔امریکہ کے پاس اس قدر معاشی و جنگی اسباب و وسائل ہیں کہ اگر وہ چاہتا تو اپنے اتحادیوں سمیت میں، چار سے چھ ماہ میں افغانستان پر مکمل قبضہ کر کے یہاں امن قائم کر سکتا تھا۔ بار ہا عرض کیا یہ مگر امریکہ کا کبھی بھی ہدف نہیں رہا کہ امن ہو۔
امریکہ کے خطے میں بڑے گہرے مفادات ہیں اور ان مفادات تک رسائی کے لیے امریکہ کے پاس جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا میں تیسری جنگ شروع ہو چکی ہے اور ٹرمپ اس جنگ کو مزید تیز کرنے کے درپے ہیں۔امریکہ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے یہ کہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کا پشت بان اور مدد گار ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں اور ان کے گروہوں کے خلاف سلیکٹڈ کارروائیاں کرتا ہے۔ جبکہ حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں۔ نہ تو افغان طالبان پر پاکستان کا پہلے سا اثرو رسوخ ہےا ور نہ ہی پاکستان اچھے اور برے طالبان میں تمیز کر رہا ہے۔ حقائق یہی ہیں کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ملک ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کرانے والے پاکستان کے مطلوب دہشت گرد نہ صرف افغانستان میں امریکی معاونت سے پناہ گزین  ہیں بلکہ جنیوا میں لگنے والے پاکستان مخالف پوسٹرز کو بھی یونہی دیکھا جائے کہ وہاں پر بھی دہشت گردوں کو پناہ دینے میں  امریکی و بھارتی لابی کا کردار ہے۔
خطے میں امن بالخصوص افغانستان میں امن پاکستان کے اپنے مفاد ہے۔ لیکن کابل اگر ان دہشت گرد گروہوں پر بھی ہاتھ ڈالے جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کروانے میں ملوث ہیں تو یہ پاکستان ، کابل اور خطے و دنیا کے لیے امن کی کئی ضمانتوں میں سے ایک ضمانت ہو گی۔بے شک جنگیں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں لاتیں، دنیا کے فیصلہ ساز و طاقت ور ممالک کو اس حوالے سے مل کر دنیامیں امن کے لیے کام کرنا چاہیے۔یاد رہے کہ گذشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور امریکا کے نائب صدر مائیک پینس کے درمیان ہونے والی ملاقات میں خطے میں امن و سلامتی کے لیے افغانستان کی صورتحال پر پاک،امریکا مذاکرات جاری رکھنے پراتفاق کرلیا گیا۔یہ اتفاق رائے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور امریکا کے نائب صدر مائیک پینس کے درمیان ملاقات کے دوران ہوا۔ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات کے ذریعے دوطرفہ امور کا حل تلاش کرنے کے مقصد کے لیے ایک امریکی وفد اگلے مہینے پاکستان کا دورہ کرے گا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور مائیک پینس کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیراعظم نے امریکا کے نائب صدر کو افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی بیان کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ فریقین نے افغانستان کے مسئلے پر مذاکرات جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ملاقات کے دوران امریکا کے نائب صدر مائیک پینس نے کہا کہ واشنگٹن، پاکستان کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور وہ خطے میں امن اور سلامتی کے لیے اسلام آباد کے ساتھ طویل مدت کی شراکت داری چاہتا ہے۔دوسری جانب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی کوششوں کا حصہ ہے اور اس جنگ میں ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔
بے شک خطے میں امن کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی ہی ہے،بلکہ دنیا  بھر کےامن کے لیے بھی پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جس جرات اور بہادری سے جنگ لڑی جو ابھی تک جاری ہے، دنیا کے عدل پسند اسے کبھی بھی فراموش نہ کر سکیں گے۔ امریکہ اور یورپ کو بھی چاہیے کہ لفاظی کے بجائے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا دل سے اعتراف کریں۔ جس طرح واشنگٹن ،اسلام آباد کی شراکت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے بالکل اسی طرح اسلام آباد بھی امریکہ کے ساتھ اپنی شراکت داری اور تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔مگر امریکہ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے ڈومور، ڈومور کی تکرار بند کرے اور خطے، میں امن کے لیے پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ، امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششوں میں پاکستان کا سنجیدگی سے حصہ بھی بنے۔ہم امید کرتے ہیں امریکی دبائو بڑھانے کے بجائے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پاک امریکہ مذاکراتی عمل میں نہ صرف تیزی لائیں گے، بلکہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں اپنے فرنٹ لائن اتحادی ملک کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس پہ اعتماد بھی کریں گے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply