مسجد ہے یہ تیری دُکان تھوڑی ہے۔۔انعام رانا

صدر عارف علوی نے جامعہ الازہر سے رہنمائی مانگی تھی جنھوں نے مسجد میں جمعہ یا با جماعت نماز پہ پابندی کا مشورہ دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب مفتی عثمانی ،مفتی منیب ،علامہ شہنشاہ صاحبان سمیت کچھ علما نے پریس کانفرنس کر کے مساجد میں نماز و جمعہ کے جاری رکھنے پہ اصرار فرمایا ہے۔

کرونا وائرس اک وبا ہے جو انسان سے انسان کو اچھوت بن کر لگتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کو لپیٹ میں لے چکا، چار لاکھ سے زائد متاثر ہیں اور 19 ہزار سے زائد اموات ہو چکیں۔ دنیا بھر بند ہو رہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ خدا کا اولین گھر کعبہ اور ہمارے آقا ص کی مسجد بھی بند کی جا چکی۔ یورپ میں مساجد سمیت تمام عبادت گاہیں اور دیگر سوشلائزیشن والی جگہیں بند کی جا چکیں اور دنیا تھر تھر کانپ رہی ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ مسجد کو کھلا رکھنے پہ تلے ہیں چاہے انسانی جانوں کی قیمت پہ ہی کیوں نہ  ہو۔

اسلام میں،اگر ہم غور کریں تو مسجد کی زیادہ اہمیت سوشل مقام کی ہے۔ سیدنا نبی آخر ص نے مسجد نبوی کو ایک ہیڈ کوارٹر بنایا،جہاں نماز بھی ہوتی تھی، تعلیم بھی، مشاورت بھی،وفود سے ملاقات بھی اور عدالت بھی لگتی تھی۔ عام دنوں میں مدینہ کی بستی کے لوگ نماز پڑھتے تھے تو جمعہ کے دن دور بستیوں سے بھی لوگ آ جاتے تھے اور یہ ایک بڑا سماجی اجتماع بن جاتا تھا جہاں سیدنا رسول کریم ص پیغام کی بڑے پیمانے پر تبلیغ فرما دیتے تھے،مشاورت ہو جاتی تھی، معاملات پہ فیصلہ ہو جاتا تھا۔ مدینہ کی تمام تر بستی اتنی تھی کہ آج ساری کی ساری مسجد نبوی ص میں موجود ہے۔ کئی صحابہ جو دور (آج کے حساب سے چار چھ میل دور) رہتے تھے وہ لوکل مساجد میں نماز پڑھتے پڑھاتے تھے۔ یہ ہی طریق نبی مکرم ص کے بعد خلافت راشدہ میں قائم رہا۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں نماز کے لیے مسجد کوئی شرط نہیں ہے۔ دیگر مذاہب میں تو عبادت کسی عمارت کی محتاج تھی اور کسی پیشوا کی بھی۔ مگر سیدی نبی مکرم ص نے فرمایا کہ یہ تمام زمین میرے لیے مسجد کر دی گئی۔ یعنی کہیں بھی جہاں نماز کا وقت آئے دو لوگ بھی ہوں تو ایک دوسرے کو امام بنائے اور نماز پڑھ لے، اکیلا ہو تو اکیلا ہی پڑھ لے۔ مسجد نماز اور جماعت کی اس کے سوا کوئی اور تعریف ہمیں سنت میں نظر نہیں آتی۔ نماز جمعہ کا مقصد ایک بڑا اجتماع ہے تاکہ مسلمانوں کی بڑی آبادی آپس میں سوشلائز کر سکے، باہمی روابط بڑھا سکے اور دین کے پیغام کا وسیع ابلاغ ہو سکے۔ کامن سینس بتاتی ہے کہ جمعہ کی نماز میں فقط ظہر کے چار کے بجائے دو فرائض کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگ دور دراز سے آتے تھے، خطبہ بھی ہوتا تھا اور ان کو واپس بھی جانا ہوتا تھا سو چار فرائض کو دو کر دیا گیا۔

اب وبا کے دنوں میں جب کسی قسم کا اجتماع وائرس کو پھیلانے کا اور نا صرف نمازی بلکہ اسکے گھر والوں اور ملاقاتیوں کی جان خطرے میں ڈالنے کا باعث بن سکتا ہے، مسجد میں اجتماع پہ اصرار حیران کن ہے۔ یاد رہے کہ اسلام میں مسلمان کی جان کو کعبہ سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور شاید اسی بنا پر وہ کعبہ “اجتماعی عبادت” کے لیے بند ہے۔ یہ نکتہ بھی اہم کہ “خدا کی مسجدوں کو ویران “ کرنے والی بات کا اطلاق یہاں بھی ہو گا کیونکہ کوئی ظالم حکمران آپکو عبادت سے روکنے یا اسلام کو زک پہنچانے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ اس حکم کی مصلحت مسلمانوں کی جان بچانا ہے۔ مسجد کے ذمہ داران مناسب احتیاطی تدابیر سے روزانہ نماز قائم کرتے رہیں، نہ  انکوروکا گیا ہے نہ  اذان پر کوئی پابندی۔ دراصل گزرتے وقت کے ساتھ اسلام میں بھی دیگر مذاہب کی قباحتیں در آئیں۔ چنانچہ مذہبی پیشوائی کا رواج پڑا اور مسجد کو سماجی کے بجائے عبادتی اہمیت زیادہ دی جانے لگی۔ ہم نے عدالت، سیاست، مشاورت تو مسجد سے منتقل کر دی اور اسے فقط عبادت تک محدود کر دیا اور وہاں بھی اپنی ذمہ داری کم کرنے کے لیے ایک تنخواہ پہ بندہ مقرر کر لیا۔ چنانچہ اب خود سے پوچھیے کہ آپ مسجد سوائے “زیادہ ثواب ہو گا”، کیا دیگر “اسلامی وجوہات” کی بنا پہ مسجد جاتے ہیں؟ جمعہ پڑھ کر کیا ہم سب فوراً واپس بھاگتے نہیں ہیں بجائے کہ دیگر مسلمانوں سے سوشلائزیشن کریں جیسا جمعہ کا مقصد تھا؟ ہم نے ہر شے کو کیلکولیٹر پہ رکھ لیا کہ مسجد میں نماز پڑھی تو اتنے گنا اور فلاں مسجد میں پڑھی تو اتنے گنا ثواب زیادہ ہو گا۔ اسکے علاوہ ہمارا مسجد سے کوئی سماجی تعلق باقی نہیں رہا۔ باقی رہا وہ طبقہ جن کا رزق مسجد سے وابستہ کر دیا گیا، ان کے لیے مسجد انکی دوکان ہے اور اپنی دوکان بند ہونے پر جہاں باقی ہر کاروباری پریشان ہو رہا ہے، یہ “علما” بھی ہو رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

صاحبو یہ تمام زمین آپ کے لیے مسجد ہے، آپ کا اپنا گھر بھی۔ اللہ جو شہہ رگ سے قریب اور ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے آپ کی نیتوں کو جانتا ہے۔ نماز کا وقت آئے تو مصلے پہ کھڑے ہوں اور اپنے باقی گھر والے پیچھے کھڑے کر کے جماعت سے نماز ادا کیجئیے۔ یہ وبا گزر جائے گی، اللہ کے گھر دوبارہ آباد ہوں گے۔ اگر آپ بچ گئے تو باقی کی عمر مساجد میں جاتے رہیں گے۔ باقی اس وبا سے یہ رحمت ہوئی کہ “دوکانداروں “ کی حقیقت کھلتی جا رہی ہے۔ کون جانے خدا نے “پیشواوں” سے جان چھڑانے کو ہی بھیجی ہو۔ مساجد مسجد کے تنخواہ دار موذن و امام بے شک نماز روزانہ ادا کرتے تہیں مگر عوام کی شرکت پہ اصرار نا کیجئیے۔ دیگر مذہبی مجالس پر بھی یہ ہی اصول لاگو ہو گا۔ جو بھی شخص اس وبا میں مسجد میں جماعت، مجلس یا مذہبی اجتماع میں شرکت پہ اصرار کرے وہ فقط دوکاندار ہے جو مذہب کا نہیں اپنی کمائی لٹنے کا نوحہ پڑھ رہا ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply